اوراب بھی پاکستان اورافغانستان امورکے متعلق امریکی محکمہ خارجہ میں اہم ذمہ داری پر مامورتھی،اچانک ان کے دفترپرچھاپہ مارکرنہ صرف ان کے دفترکوسیل کردیاگیابلکہ ان کوبعض ممالک کیلئے جاسوسی کے شبہ میں موجودہ ذمہ داریوں سے بھی سبکدوش کردیاگیا۔یادرہے کہ رابن رافیل کاشمارپاکستان کے دوستوں میں کیا جاتا ہے اوران کے شوہربھی جنرل ضیاء الحق کے طیارے میں ہلاک ہوگئے تھے ۔
دراصل ان دونوں واقعات کاگہرا تعلق افغانستان کی نئی حکومت کے سربراہ ڈاکٹراشرف غنی کے چین کے پہلے سرکاری دورے میں افغان پالیسی میں ایک مکمل یوٹرن سے ہے ۔دسمبر۲۰۱۴ء میں جزوی امریکی انخلاء کی تکمیل کے بعدافغان صدرنے چین سے طالبان اورحزبِ اسلامی کے ساتھ مذاکرات کرنے کیلئے مددطلب کرتے ہوئے طالبان اورحزب، اسلامی کو ایک بارپھرمذاکرات کی دعوت دی ہے جبکہ چین نے مذاکرات کی میزبانی پر رضامندی بھی ظاہرکردی ہے۔امریکااوراس کے اتحادیوں کی جانب سے افغان آپریشن ختم کرنے کے باوجودطالبان اور حزبِ اسلامی کاامریکاکے احکامات تسلیم نہ کرنے اورافغانستان کی موجودہ حکومت سے مذاکرات سے انکارکے بعدافغانستان کے نو منتخب صدراشرف غنی اپنے پہلے سرکاری دورے پرچین گئے تھے جہاں انہیں بھرپوراستقبالیہ دیاگیا۔انہوں نے چینی صدراوردیگراعلیٰ چینی حکام سے درخواست کی کہ وہ طالبان اورحزبِ اسلامی سے امن مذاکرات کیلئے پاکستان کو اپنا کرداراداکرنے کیلئے راضی کریں اوراس حوالے سے چین بھی اپناکرداراداکرے کیونکہ چین کی ضمانت دینے سے اس خطے کے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔افغان صدر نے چینی حکام کو یقین دہانی کروائی کہ وہ ۲۰۱۴ء کے بعدچین کوافغانستان میں ایک بہت بڑارول دینے کوتیارہیں اورچینی سرمایہ کاروں کی لیزبھی جاری رہے گی اوران کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ معاہدے نہیں کئے جائیں گے تاہم اس سرمایہ کاری کوآگے لے جانے کیلئے طالبان اورحزب اسلامی کی تائیدازحدضروری ہے لہنداچین امن مذاکرات میں افغانستان کی مددکرے۔
چینی حکام نے اپنی پالیسی واضح کرتے ہوئے اس بات پررضامندی ظاہرکردی ہے کہ اگرطالبان اورحزبِ اسلامی چین میں مذاکرات کرنے کیلئے تیارہیں توچینی حکومت پاکستان ، ایران اورترکی سے مل امن مذاکرات کیلئے تمام سہولتیں فراہم کرنے کوتیارہے۔کچھ اہم ذرائع کے مطابق چینی حکام چاہتے ہیں کہ امریکی انخلاء کے وقت پاکستان کوایک اہم اور بڑا رول دیاجائے اورچین کے ساتھ بھی افغانستان کے تعلقات اچھے ہوں تاکہ اس خطے میں آئندہ رونماہونے والے واقعات میں امریکاکی بجائے چین کاکردارہو۔افغان صدر کی جانب سے بیجنگ سے طالبان اورحزبِ اسلامی کے ساتھ مذاکرات کی دعوت پرامریکانہ صرف آگ بگولہ ہے بلکہ امریکی حکام کاکہناہے کہ چین کوبڑارول دینے سے ان کے مفادات خطرے میں پڑجائیں گے ۔
تاہم افغان حکام کے مطابق طالبان اورحزبِ اسلامی کے ساتھ مذاکرات کیلئے ترکی اورچین کے علاوہ کوئی ایساملک نہیں جہاں پریہ مذاکرات کامیاب ہوسکیں اس لئے چین پاکستان کواس جنگ سے متاثرہونے کی وجہ سے اس کاجائزمقام دینے کامطالبہ کررہاہے ۔چین کاخیال ہے کہ دہشتگردی کی جنگ سے پاکستان جتنامتاثرہواہے بین الاقوامی برادری نے پاکستان کی متوقع مددنہیں کی، اس لئے وسطی ایشیا،پاکستان اورافغانستان میں مستقل اورمحفوط سرمایہ کاری پاکستان اورافغانستان کے امن سے مشروط ہے ۔ افغان صدرنے چینی حکام کی اس بات پربھی توجہ دینے پر رضامندی ظاہرکی ہے کہ افغانستان میں بھارت کارول ان کے ہمسایہ ممالک سے بڑانہیں ہوناچاہئے کیونکہ جب تک پاکستان کواس کاجائزمقام نہیں ملتا،معاملات حل نہیں ہوسکتے جبکہ امریکابھارت کویہ کرداردیناچاہتاہے جس سے افغانستان کے معاملات مزیدخراب ہوں گے اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان کواس کااہم کرداردے کر افغانستان کامسئلہ باہم بات چیت کے ذریعے حل کیاجائے ۔
چین کوکرداردینے پرامریکااوربھارت سخت تشویش میں مبتلاہوگئے ہیں کیونکہ چین میں مذاکرات سے چینی مسلمانوں کامسئلہ بھی حل ہوجائے گااورمستقبل میں چین کودرپیش خطرات میں بھی خاطر خواہ کمی آجائے گی جبکہ چین پاکستان کے کردارکوبھی بڑھاناچاہتاہے اورچین چاہتاہے کہ مذاکرات کی کامیابی کے بعدافغانستان کوشنگھائی تنظیم کابھی ممبربنایاجائے تاکہ ان علاقوں اورخاص کروسطی ایشیاء میں توانائی اوردیگروسائل تک چین کومحفوط رسائی حاصل ہو۔ادھرطالبان ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فی الحال ذرائع ابلاغ سے ان کویہ اطلاع موصول ہوئی ہے تاہم چین کی طرف سے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیاگیاالبتہ چین بعض معاملات کی ضمانت دے تومذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں اوراس میں ضروری ہے کہ امریکاپرچین اپنادباؤ ڈالے اوراس کامکمل انخلاء شروع ہو،چین بلاشبہ یہ کرداراداکرسکتاہے۔
اسی طرح حزبِ اسلامی کے ترجمان نے بتایاکہ وہ مذاکرات کے حامی ہیں لیکن امریکیوں کی موجودگی میںیہ مذاکرات نہیں ہوسکتے۔چین یہ ضمانت دے سکتاہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کا مکمل انخلاء ہو گا ا ور افغانوں کوان کے مسئلے کاحل خودتلاش کرنے کاموقع دیاجائے گا تومذاکرات میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔اس سے اس خطے میں امن واپس آجائے گاجبکہ پاکستان بھی چین میں ہونے والے ممکنہ مذاکرات میں اپنابڑاکرداراداکرسکتاہے لیکن امریکااوربھارت اس طرح کے مذاکرات کوہرصورت میں ناکام بنانے کی سازشیں ضرور کریں گے تاہم اگرچین میں مذاکرات کا انعقادہوتاہے تواس میں کامیابی کازیادہ امکان ہے کیونکہ چین اس جنگ میں بظاہرفریق نہیں ہے اوروہ پاکستان کے مسائل بھی سمجھتاہے۔ذرائع کے مطابق افغان صدر کی جانب سے چین سے اپیل کے بعدبھارتی حکام بھی سخت تشویش میں مبتلاہیں کیونکہ چین مذاکرات کوکامیاب بنانے کی صلاحیت رکھتاہے جس سے مستقبل میں امریکااوربھارت کاسنکیانگ میں جہادکے نام پرخانہ جنگی کامنصوبہ ناکام ہوجائے گا۔
واضح رہے کہ حال ہی میں چین کے خلاف مبینہ طورپرمددنہ دینے پرانصارالامہ کے سربراہ فضل الرحمان خلیل اورٹی ٹی پی محسودکے سربراہ خالدسجناکودہشتگردقراردیاگیاہے چونکہ چین کوادراک ہے کہ اگر وہ طالبان،حزبِ اسلامی اورافغان حکومت کی ثالثی میں کامیاب ہوگیا تواس عمل سے ایران اورپاکستان سے بھی انہیں مددمل جائے گی اورترکی بھی اس کو مکمل سپورٹ کرے گا جس سے سنکیانگ کا مسئلہ خودبخودحل ہوجائے گااورامریکااوربھارت کے مستقبل کے مکارانہ خواب بھی ادھورے رہ جائیں گے۔
ادھرجنرل راحیل شریف کا دورہ افغانستان ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکی محکمہ دفاع نے ایک نئی رپورٹ میں پاکستان پر الزام لگایا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے ایک روزہ سرکاری دورے میں افغانستان کے صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ ، افغان وزیردفاع اور چیف آف جنرل سٹاف سے سرحدی امور، انٹیلی جنس رابطے اور باہمی تعاون پربات ہوئی اور افغان سکیورٹی فورس کو پاکستان میں تربیت دینے کی پیشکش بھی کی گئی۔آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پائیدار علاقائی سلامتی ہی دہشت گردی سے نمٹنے کا واحد راستہ ہے اورپرامن اور مستحکم افغانستان پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے۔افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کے کسی بھی اعلی عہدیدار کا یہ پہلا افغانستان کا دورہ تھا۔
چین کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے اپنے دورۂ چین میں یقین دہانی کرائی کہ پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں اور کمپنیوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا جبکہ ضرب عضب آپریشن میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لیے ہوئے سنکیانگ کے شدت پسندوں کابھی صفایاکردیاگیاہے۔اب ضرورت اس امرکی ہے کہ دشمن کے آئندہ عزائم کا مقابلہ کرنے کیلئے اندرون ملک معاملات پربھی بھرپورتوجہ دی جائے!
جواب دیں