سوپر پاور چین اور ہندوستان

ہندی کے کثیر الاشاعت اخبار دینک بھاسکر نے ’’لاشوں کے ڈھیر سے بنی چینی تاریخ،جانیں ایک سو پچاس سال پرانے ملک کی خونی کہانی‘‘کے عنوان سے 17 تصاویر کاایک سلسلہ مختصر معلومات کے ساتھ شائع کیا ہے ۔جسے دیکھ اور پڑھ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔چین کی تاریخ پر بہت حد تک اسرار کے دبیز پردے پڑے رہے ہیں ۔یہی وہ ملک ہے جہاں کے بادشاہ نے صلح کرکے اسلام کا راستہ تقریبا روک دیا تھا ۔لیکن اسکے وہ حصے جہاں آج مسلمان پائے جاتے ہیں جنہیں ایغور مسلمانوں کے نام سے جانا جاتا ہے ۔مسلمانوں کی یہ نسل ترکی نسل سے ہے ۔جہاں چین کے جبر کی کئی داستان آج حقیقت بن کر اقوام عالم کے سامنے ہے ۔اس میں رمضان میں مسلمانوں کو روزہ رکھنے سے روکنے سے لے کر وہاں کے ایک دانشور کو چینی حکومت کی نکتہ چینی کرنے پر قید کی خبر تک شامل ہے۔چین نے یہاں کی جامع مسجد میں بھی سرکاری امام مقرر کیا تھا جن کا کسی نے قتل کردیا اس الزام میں بھی دو لوگوں کو سزائے موت اور کئی لوگوں کو قید کی سزا ہوئی ہے ۔ہر چند کہ کہا جاتا ہے کہ روس کے زوال کے ساتھ ہی کمیونزم کا خاتمہ ہو گیا ۔لیکن یہ ایک تاریخی غلطی ہو گی ۔اگر ہم ایسا سمجھیں جس کا کوئی ثبوت نہیں ۔چین روس کی جگہ لینے کیلئے نئے روپ میں دنیا کیلئے نئے خطرے کی صورت میں منظر عام پر آنے ہی والا ہے ۔ 
یہاں چین کی مختصر تاریخ کا حوالہ اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ ہند چین تنازعہ کو تاریخ کے آئینہ میں بھی دیکھا جائے ۔چین ایک ضدی اور لا پرواہ خصلت والا ملک ہے جسے دنیا کی کوئی پرواہ نہیں ۔یوں تو امریکہ بھی اپنی سوپر پاور کے تقریباً تیس سالہ دور میں ضدی اور لاپرواہ رہا ہے لیکن ہم روس سے اس کا مقابلہ کریں تو امریکہ کے مظالم کچھ کم معلوم ہو تے ہیں ۔روس میں لینن کے سرخ انقلاب کے بعد مذہب پر اور مذہبی شعائر پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ۔دنیا کے بڑے مذہب کے طور پر عیسائیوں کے ساتھ کیا ہوا اس کا تذکرہ پھر کبھی کریں گے لیکن اسلام اور مسلماونوں کے ساتھ اور اور روس کے قریب مسلم جمہوریاؤں کے ساتھ اس نے جو کچھ کیا اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔تاریخ کی کتابیں ااس مظالم سے بھری پڑی ہیں ۔مسلم جمہوریہ میں مسلمانوں کو پکڑ کر ٹرین کے ڈبوں میں جانوروں کی طرح بھر کر سائبریا کے سرد جہنم میں چھوڑنے کا کام اسی کمیونسٹ روس کا کمال تھا جس نے تقریباً آٹھ دہائی تک متحدہ روس کی شکل میں اپنی ظلم و ستم کو خوبصورت لبادے میں لپیٹے رکھا لیکن ہر کمال کو زوال ہے ۔روس بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکا ۔ویسے بھی جس نظریہ کی بنیاد میں بے گناہ انسانوں کا خون شامل ہو اس کا زیادہ دنوں تک ٹکے رہنا ممکن ہی نہیں ہے۔روس میں مذہب پر پابندی کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ وہاں مساجد ویران کردی گئیں ۔مدارس پر مکمل پابندی لگاکر اس کی کتابوں کو آگ کے حوالے کردیا گیا ۔ داڑھی رکھنا خلاف قانون قرار دیا گیا ۔جن مسلمانوں کے دلوں میں ایمان پختہ تھا انہوں نے اپنے گھروں کو ایمان و اسلام کی آبیاری کا ذریعہ بنایا ۔وہ بھی رات کے اندھیرے میں اور تہہ خانوں کے اندر ۔غرض یہ کہ وہ کون ایسے کام تھے جو کمیونسٹ روس نے اسلام کی بیخ کنی کیلئے نہ کئے ۔پھر بھی ان مظالم کی داستان سے ہماری نسلیں انجان ہیں ۔حد تو یہ ہو گئی کہ جب افغان مجاہدین کی قربانیوں سے روس کا خاتمہ ہوا تو ہمارے اردو کے اکثر لکھاریوں نے اپنی تحریروں میں یہ لکھنا شروع کیا کہ روس کے زوال کے بعد امریکہ شتر بے مہار ہو گیا ہے ۔انہیں روس کے زوال سے ازحد رنج پہنچا ہے اور اب دوسرے سوپر پاور امریکہ کا بھی زوال تقریباً قریب ہے۔اس کے بعد اس قسم کے لوگ امریکہ کے زوال کے غم میں آنسو بہائیں گے ۔یہ وہ طبقہ ہے جو وقت کی تبدیلی کے ساتھ ہی اپنا قبلہ بھی تبدیل کرتا رہتا ہے۔ 
چین امریکہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور فوجی قوت بن کر ابھر رہا ہے ۔اس کے پڑوسی ممالک سے تعلقات بھی اچھے نہیں ہیں ۔ہندوستان اور جاپان کے کئی خطے پر اس کی بری نظر ہے ۔ہندوستان کے ساتھ چین کی ایک جنگ ہو چکی ہے اور دوسری جنگ کے آثار نظر آرہے ہیں ۔چین کے صدر شی جن پنگ کے حالیہ دورہ میں ہندوستان کی کوشش رہی کہ سرحدی تنازعہ کو لے کر دونوں ملکوں کے درمیان جو کشید گی چل رہی اس کا کوئی قابل احترام تشفیہ ہو جائے ۔لیکن ایک طرف تو چین کے صدر ہندوستان کی میزبانی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور دوسری طرف ان کی فوج ہندوستانی علاقے میں دراندازی کرتی ہوئی کئی کلو میٹر ہندوستانی علاقے پر دس دنوں سے زیادہ قابض رہی ۔اور واپسی پر چینی صدر نے اپنے فوجیوں کو ایک علاقائی جنگ کیلئے تیار رہنے کیلئے کہا ۔بعد میں انہوں نے اس بات کو گول گول گھمانے کی کوشش کی ۔1962 کی جنگ میں بھی چین نے کچھ اسی طرح کی حرکت کی تھی ۔ایک طرف تو چین کی یہ حرکت ہے کہ وہ کسی عالمی اقدار کو خاطر میں نہیں لاتا اور دوسری طرف ہماری ہندوستانی لیڈر شپ ہے جس نے آج تک اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا ۔یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ملک عزیز نے آزادی کے بعد سے ہی جسے سب سے زیادہ نشانے پر رکھا اور اسی کو سامنے رکھ کر اپنی فوجی استعداد پر خرچ بھی کیا ۔جب کہ ہندوستان کاپاکستان سے کوئی مقابلہ نہیں ہے ۔ ہندوستان میں پاکستان کے برابر کی کئی ریاستیں ہیں یا یوں کہہ لیں کہ پاکستان ہندوستان کی ایک ریاست کے برابر ہے۔یہاں وسائل بھی اسی قدر زیادہ ہے جتنی آبادی اور اس کی وسعت ہے ۔لیکن کبھی ملک عزیز میں چین سے مقابلہ کی کوئی بات نہیں ہوتی ۔شاید سب سے پہلے لیڈر جارج فرنانڈیز ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ ہمارا اصل دشمن چین ہے اور اس کے بعد اس بات کو کہنے کی جرات ملائم سنگھ یادو نے دکھائی تھی۔یہ ایک غیر صحت مندانہ طریقہ ہے جو چین کے تعلق اپنایا جارہا ہے ،اور پاکستان کو دشمن نمبر ایک بتاکر عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمیں چین کو ڈنکے کی چوٹ پر دشمن نمبر ایک کا اعلان کردینا چاہئے لیکن اتناتو ہم کر ہی سکتے ہیں کہ جو دشمن ہیں اور ہمیں نقصان ہی نہیں بلکہ ہماری سا لمیت کے لئے خطرہ بھی ہیں ان میں اور جو ہمارا دوست بن سکتا ہے اور اگر دوست نہ بھی بنے تب بھی اس کی قوت نہیں کہ وہ اس عظیم ملک کا مقابلہ کرسکے ،دونوں میں فرق کیا جانا چاہئے ۔اور اسی تناظر میں ہمیں اپنی فوجی صلاحیتوں کو بڑھانا اور مستحکم کرنا چاہئے ۔لیکن حالت یہ ہے کہ ملک کے اندر بھی حالت کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔پورے شمال مشرق کا علاقہ بارود کے ڈھیر پر ہے ۔نکسل تحریک نے ملک کے دو سو سے زائد اضلاع پر اپنا کنٹرول قائم کر رکھا ہے ۔کئی علاقوں میں ان کی متوازی حکومت قائم ہے ۔کشمیر کی حالت بھی ہمارے سامنے ہے ۔پنجاب میں گرچہ خالصتان کی تحریک دب گئی ہے لیکن اب بھی اس کی راکھ سے کبھی کبھی چنگاری دکھ جاتی ہے ۔ایسی صورت میں ملک سب سے بڑی اقلیت کو اعتماد میں لینے کی ضرورت تھی لیکن اس طرف توجہ دینے کی بجائے پوری آبادی کے سامنے انہیں ایک دشمن کے روپ میں پیش کیاگیا۔شاید یہ حکومتوں کی اپنی کوئی مجبوری ہے کہ عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کا اس سے آسان کوئی راستہ نہیں ۔ بین الاقوامی پیمانے پر ہماری پالیسی میں کوئی مضبوطی نہیں ہے۔بہت پہلے اردو کے ایک بڑے صحافی نے چین اور ہندوستان کے تعلق سے اپنی تحریر میں یہ بھی لکھا تھا کہ شاید ہندوستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کا کوئی دوست نہیں ہے ۔اس کی واحد وجہ آزادی کے بعد ایک مخصوص نظریہ کے لوگوں کا دبدبہ ہے جس نے سوائے مسلم دشمنی کے اس ملک کو اور کچھ نہیں دیا ہے۔لیکن آج بھی اس جانب توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔ایک دو بیان سے کچھ نہیں ہوتا ٹھوس عملی اقدام کی ضرورت ہے۔میڈیا کو مینیج کرکے اپنا پیٹھ خود ہی تھپتھپانے سے وقتی طور پر کسی ایک لیڈر شپ کو ہیرو بناکر بھگوان کی صورت میں تو پیش کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے ملک کی سا لمیت پر لگے سوالیہ نشان کو ہٹایا نہیں جاسکتا۔ہمارا مشورہ ہے کہ اب بھی ہم خود پسندی کے حصار سے باہر نکل کر ملک کے اتحاد سا لمیت اور اس کے استحکام کے بارے میں سوچیں۔یہی وقت کی آواز ہے جسے ہمیں وقت رہتے سمجھ لینا چاہئے۔ چین کے سوپر پاور بننے سے دنیا پر بھی اس کے اثرات مرتب ہونگے کیوں کہ بہر حال چین کے عزائم سے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ توسیع پسندانہ ذہن کا حامل ہے ۔لیکن اس کے اثرات پڑوسیوں میں ہندوستان پر زیادہ پڑیں گے ۔جاپان اور چین میں فی الحال کسی ٹکراؤ کی امید کم نظر آتی ہے ۔کیا ہم دنیا کو یہ بتانے میں کامیاب ہو پائیں گے کہ چین کا ارادہ نیک نہیں ہے اور وہ دنیا میں امن کے لئے خطرہ بن سکتا ہے؟

«
»

’’ننگا نگر ‘‘جہاں کپڑے پہننے والے بیوقوف سمجھے جاتے ہیں۔

مودی کچھ زیادہ ہی سچ بولنے لگے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے