مسلم مجاہدین آزادی کی خدمات کا اعتراف ضروری

خواہ وہ مولانا محمود الحسن ہوں، مولانا ابوالکلام آزاد ، حکیم اجمل خاں ہوں، علی برادران ہوں، مولانا برکت اللہ بھوپالی ہوں یا مولانا نورالدین بہاری جنہوں نے اپنا خون پسینہ بہاکر آزادی کی تحریک کو تازگی بخشی اور اس کانگریس کو انقلابی رخ عطا کیا جو شروع میں درخواستیں پیش کرنے کی حد تک محدود تھی، مگر دیکھتے ہی دیکھتے اس نے مطالبات شروع کردےئے۔ عاجزی کے بجائے اس کے لہجہ میں وقار اور خود اعتماد پیدا ہوگئی اور اس وقت تو کانگریس پر دور شباب آگیا جب ہندوستان کے مسلمانوں نے خلافت جیسی ہمہ گیر، ولولہ انگیز اور پرموثر تحریک کا ڈھانچہ کھڑا کرکے سیاست کو عوامی جذبات کے ایک تیز وتند دھارے میں تبدیل کردیا اسی طرح کانگریس کے پرچم تلے بھی مسلمانوں نے آزادی کے حصول کے لئے ایک ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ طیب جی اور مولانا ابوالکلام آزاد برسوں کانگریس کے صدر رہے۔مکمل آزادی کا ریزویشن سب سے پہلے خلافت کانفرنس میں مولانا آزاد سبحانی نے پیش کیا جس کی تائید مولانا حسرت موہانی کی۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ جنگ آزادی کی تاریخ میں مسلمانوں کے اس کردار کو قطعی انداز کردیا گیا۔ ساتھ ہی آزادی کے۶۲ برس کے دوران ڈاکو مینٹری فلموں، نصاب کی کتابوں اور اخبار ورسائل کے صفحات سے برابر یہ تاثر دیاجاتا رہا ہے کہ جدوجہد آزادی میں مسلمانوں کا کوئی خاص حصہ نہیں ہے۔
بھوپال ایک نوابی ریاست ہونے کے باوجود تحریکات آزادی کا مرکز رہی اس کی خاک سے ہندوستان کی پہلی جلاوطن حکومت کے وزیراعظم اور عظیم محب وطن مولانا برکت اللہ بھوپال اٹھے جو آج امریکہ میں دفن ہیں اور اسی خاک نے انباپانی کے جاگیر دار فاضل محمد خاں، نواب صدیق حسن خاں، سعیداللہ خاں رزمی، خان شاکر علی خاں، مولانا طرزی مشرقی، ظہور ہاشمی اور فضل علی سرور کو وہ ولولہ بخشا کہ انہوں نے آزادی کے لئے بڑی سے بڑی قربانیوں سے دریغ نہ کیا۔ لیکن جنگ آزادی کی ان اہم ہستیوں کو آج اس حد تک نظر انداز کردیا گیا ہے کہ نئی نسل ان کے کارناموں سے واقف نہیں۔
ملک کے اتحاد اوریک جہتی کے لئے نہایت ضروری ہے کہ مسلم انقلابیوں اور مجاہدین آزادی کے اس کردار کا کھلے دل سے اعتراف کرکے نئی نسل کو اس سے آگاہ کیا جائے تاکہ اس کو یہ سمجھنے میں مدد ملے کہ مسلمانوں کی اپنے وطن عزیز سے محبت ہر شک وشبہہ سے بالاتر ہے وہ تحریک آزادی کے پیش رو رہے ہیں۔ بعد میں بھی انہوں نے برادران وطن کے دوش بدوش جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لیا ہے اور کسی بھی وقت وطن کے تئیں ان کی محبت کم نہ ہونے پائی، اسی طرح وہ خلیج کم ہوسکتی ہے جو آج قوم کے مختلف فرقوں میں دوری کا باعث بن رہی ہے اور جس کو دور کرنا مسلمانوں کے نہیں پورے ملک کے مفاد میں ہے

«
»

کب تک لٹتے رہیں گے مذہبی منافرت کے ہاتھوں؟

بانجھ پن…….(Infertility)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے