وزیر دفاع اے کے انٹونی نے منگل 6؍اگست 2013کو جاری اپنے بیان میں کہا کہ یہ اُن مسلح دہشت گردوں کی حرکت تھی جو پاکستانی فوج کی یونیفارم میں سرحد پار سے پونچھ سکٹر میں داخل ہوئے تھے۔ اپوزیشن نے، جس میں بی جے پی کے ساتھ ساتھ کچھ ’نادان دوست‘ بھی شامل تھے، جب یہ کہا کہ شری انٹونی نے پاکستان کو ذمہ داری سے بچ نکلنے کا راستہ سُجھا دیا ہے تو وزیردفاع نے راجیہ سبھا میں کھڑے ہوکر پھر کہا کہ یہ سراسر بہتان ہے کہ انھوں نے پاکستان کو مصیبت سے نکالنے(Bail-Outکرنے) کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کابیان ’’موجود صورتِ حال میں ایک مناسب رَدِّ عمل تھا‘‘اور یہ کہ ان کا مذکورہ بالابیان ان مصدقہ اطلاعات کے مطابق تھا جو انہیں واقعے کے فوراً بعد فوجی ذرائع سے موصول ہوئی تھیں۔ لیکن اپوزیشن حکومت کے اس بیان کو ماننے پر تیار نہیں ۔ہر لیڈر اپنی نام نہاد حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے دوسرے سے آگے نکل جانے والے بیانات دینے میں لگا ہوا ہے۔ مثلاً ہمیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے،ہمیں پاکستان کو بتادینا چاہیے کہ ہم نے چوڑیاں نہیں پہنی ہوئی ہیں اور یہ کہ ہمیں قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے دشمن کو منھ توڑجواب دینا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ان میں تزویری طورپر (Strategically) سب سے خطرناک بیان مودی جیسے سنگھی لیڈروں کی جانب سے آیا ہے کہ ہمیں پاکستان سے گفتگو بند کردینی چاہیے اور بس فوراً پاکستان پر حملہ کردینا چاہیے۔ وغیرہ ۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔
مطلب یہ کہ پانچ ہندستانی فوجیوں کے قتل کی واردات (قتل اس لیے کہ کوئی جنگ تو ہو نہیں رہی تھی، دہشت گردآئے اور شب خون مار کر چلے گئے) صرف اس لیے ہوئی پاکستان میں نئی حکومت آنے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات شروع کرنے کی جو بظاہر سنجیدہ کوششیں شروع ہوئی ہیں اور مختلف بین الاقوامی فورموں پر دونوں ملکوں کے لیڈروں کی ملاقاتوں کے جو پروگرام شائع ہورہے ہیں یہاں تک ستمبر میں وزیراعظم منموہن سنگھ کے ممکنہ دورۂ پاکستان کا تذکرہ بھی میڈیا میں آچکا ہے، اُن سب پر کسی طرح اُوس ڈالی جائے اور دوطرفہ تعلقات ایک بار پھر جمی ہوئی برف کی سطح پر چلے جائیں۔ تو یہ کون ہے جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوستانہ اور اچھے پڑوسیوں جیسے تعلقات نہیں چاہتا؟ ظاہر ہے کہ اس طرح کے عناصر دونوں ملکوں میں پائے جاتے ہیں جوصرف جنگ اور تصادم کی باتیں کرتے ہیں اور جب جب دونوں ملکوں کے درمیان برف پگھلتی ہے یہ کوئی نہ کوئی ایسا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں یا کوئی ایسی واردات کر گزرتے ہیں کہ قیام امن کی ہر کوشش ناکام ہوجاتی ہے۔یہ وہی لوگ ہیں جو کارگل جنگ کا باعث ہوئے تھے اور یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے آگرہ مذاکرات اور لاہور یا ترادونوں کو ناکام کروادیاتھا۔ اور یہ وہیں لوگ ہیں جنہوں نے ’پتھری بل‘ واردات کا پورا منظر نامہ تیار کیا تھا۔ ہندستان میں سنگھ پریوار اور بین الاقوامی سطح پر صہیونی پریوار دونوں کا مفاد جنگ اور بدامنی میں ہے، امن ان وحشیوں کو راس نہیں آتا۔
لہٰذا دونوں جانب اور بالخصوص دونوں ملکوں میں سرکاری سطح پر اور منموہن سنگھ اور نواز شریف کی سطح پر بہت زیادہ حکمت، سلامت فہم، دور اندیشی اور تحمل کی ضرورت ہے تاکہ امن دشمن اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ کشمیر کے حالات خراب کرنے کی کوشش کرنے والے بھی اِسی زمرۂ دشمنانِ امن میں شامل ہیں۔ اللہ انہیں بھی عقل سلیم عطا کرے اور ہمیں ’’سدبُدّھی‘‘ دے!)
جواب دیں