اﷲ اﷲ اگر ہماری قوم اسی طرح ایک ایک بڑے مسئلہ کو لیکر ایک غیر سیاسی پلیٹ فارم پر آکر جمع ہو جائے اور کسی ٹھوس اور مستند قانونی معلومات رکھنے والے ماہز کے ساتھ مل کر کچھ کرنے کی ٹھانے تو انشاء اﷲ کامیابی قدم چومینگی ۔ کیا بات ہوگی کہ امین پٹیل ، عاصم بھائی ، حبیب فقیہی اور شمشیر خان جیسے سیاسی رہنما اپنی اپنی پارٹیوں کے جوتے چپل باہر اتار کر ایک ہال میں کسی ایک اہم سوچ کو لیکر جمع ہو جائے اور مسئلہ کا حل ہونے کے بعد اپنے اپنے جوتے چپل پہن کر اپنے اپنے پلیٹ فارم پر واپس چلے جائے ۔ اسی طرح ایک سنہری موقع ہمارے ہاتھ آنے والا ہے ۔ عنقریب ہی ریاست مہاراشٹر میں ۶۱ ہزار پولس کانسٹبل کی بھرتی ہونا ہے ۔ اگر اس مرتبہ بھی ہم نے قبل از وقت اس تعلق سے کچھ سنجیدہ فکر نہیں لی تو وہی ہونا ہے جو ہر سال ہوتا ہے ۔ جن مسلم بچوں کا ذریعہ تعلیم مراٹھی زبان نہ رہا ہو ، ان بچوں کے انتخاب کا فیصد کتنا شرمناک ہوتا ہے وہ ہم سب جانتے ہیں، وہی ہوگا۔
جگہ جگہ فسادات ہوتے ہیں اور ان فسادات میں جانی اور مالی نقصان بڑے پیمانے پر صرف اور صرف مسلمانوں کا ہی ہوتا ہے۔ ہر فسادکے بعد زیادہ سے زیادہ ۲۔۳ مہینے تک مسلم نیز سیکولر غیر مسلم طبقہ کے لوگ کیا ، سب کے سب افسوس اور چلا پکار کرتے ہیں ۔ اس کے بعد ہونے والے نئے فساد کے پہلے تک سب یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کبھی فساد ہوا تھا، کبھی ظلم و بربریت کے ننگے ناچ میں محکمہ پولس میں موجود کمیونل طبقہ بھی برہنہ ناچ کر رہا تھا۔ فسادات کے دوران پولس کی ظلم زیادتیوں اور بربریت سے اگر بچنا ہے تو ہمیں اپنے غم و غصہ اور جذبات کو بالائے طاق رکھکر یہ سوچنا ہو گا کہ کس طرح مہاراشٹر کے پولس ڈپارٹمینٹ میں مسلم امیدوار وں کی بھرتی ہو ۔ ہم یقین سے یہ تو نہیں کہہ سکتے ہیں کہ مسلم کانسٹبل وہ سب ناجائز راستے نہیں اپنائے گا جو اس ڈپارٹمینٹ کا عنقریب کلچر بن گیا ہے لیکن ہاں یہ بات ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ محکمہ پولس میں شامل مسلم جس کے رگ و پئے میں یقیناًقرآن کریم کے احکامات بھرے پڑے ہیں جو اچھی طرح جانتا ہیکہ سورۃ مائدہ کے مطابق کسی ایک بے قصور انسان کو قتل کرنا ساری انسانیت کو قتل کرنے کے برابر ہے اور کسی ایک بے قصور کی جان بچانا ساری انسانیت کی جان بچانے کے برابر ہے ، وہ کبھی بھی نہتی بھیڑ پر چاہے وہ کسی بھی مذہب کی ہو گولیاں چلا ہی نہیں سکتا ہے ۔
لہٰذا یہ وقت کی ضرورت ہیکہ محکمہ پولس میں مسلمانوں کا امتیازی شمار ہو ۔ اگر ایسا ہو گا تو یقیناًمحکمہ پولس کے نام پر ظلم و زیادتی کا جو دھبہ لگا ہوا ہے وہ مٹ جائیگا۔ الحمد ﷲ، ریاست مہاراشٹر میں ۱۶ ؍جون۲۰۱۱ .ء کے مہاراشٹر پولس سپاہی (سیوا پرویش ) رول ۲۰۱۱ .ء کے حکمنامہ کے مطابق پولس کانسٹبل بھرتی کے تعلق سے جو رول نافذ کئے گئے ہیں اس کے مطابق اب تعصب یا نا انصافی کے امکانات بالکل کم ہو گئے ہیں ۔ اس رول کے تحت جسمانی آزمائش کیلئے ۱۰۰ مارکس اور تحریری آزمائش کیلئے ۱۰۰ مارکس یعنی کل ۲۰۰ مارکس میں سے امتیازی مارکس حاصل کرنے والے امیدواروں کاانتخاب ہوناہے۔ جو لوگ عملی طور سے زمینی مسائل پر نظر رکھتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ الحمدﷲ مسلم بچے جہاں تک جسمانی آزمائش کا معاملہ ہے اس میں امتیازی نمبر حاصل کر ہی لیتے ہیں لیکن بد قسمتی سے انکا سامنا تحریری آزمائش سے ہوتا ہے ، جہاں پر حساب ، عام معلومات ، ذہنی ٹیسٹ اور مراٹھی گرامر کا معاملہ ہے ان سب کا میڈیم (Language of Answer) متذکرہ رول کے ، رول نمبر ۴ کے مطابق صرف مراٹھی زبان میں ہی اس آزمائش سے گزرنا ہے۔ امسال ہی فاضل سپریم کورٹ کے ذریعے جس وقت میڈیکل طلبہ کیلئے نیٹ لازمی تھا ، اس وقت تحریری امتحان میں اردو زبان میں (Language of Answer) کی اجازت دی گئی تھی اسی طرح ملک کے سب سے بڑی آزمائشی ٹیسٹ یعنی یو پی ایس سی میں بھی بطور Language of Answer اردو کا شمار کیا گیا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ جب ملک کی اعلیٰ پوسٹ کیلئے ہونے والے امتحانات میں اردو زبان کو بھی Language of Answer میں شامل کیا گیا ہے تو پوس کانسٹبل بھرتی جو C/D کے طبقہ میں شمار کی جاتی ہے ، اس پوسٹ کی تحریری آزمائش میں اردو کو بھی بطور Language of Answer میں شمار کیوں نہ کیا جائے ؟ مراٹھی زبان کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی Language of Answer میں شامل کرنے کیلئے حکومت مہاراشٹر کے ہوم ڈپارٹمینٹ ، جس کے روح رواں سیکولر پارٹی راشٹر وادی کے آر آر آبا ہے۔ یہ وہ شخصیت ہے جو اچھی طرح جانتی ہیکہ اگر رشوت جیسی غلیظ بیماری بھی محکمہ میں ہے تو اس کی وجہ یہ بھی ہیکہ یہاں پر تنخواہ کم ہے۔ ایسی باریک اور وسیع ذہنیت رکھنے والا شخص کیوں نہیں مہاراشٹر پولس سپاہی (سیوا پرویش ) رول ۲۰۱۱ .ء کے رول ۴ میں یہ ترمیم کر سکتا ہے جسکے تحت اردو کو بھی بطور Language of Answer مراٹھی کے ساتھ شامل کیا جائے۔ کرنا کچھ بھی نہیں ہے صرف یہ کہ مراٹھی کے علاوہ بطور Language of Answer اردو زبان کو بھی متبادل قرار دیا جائے۔
اسطرح کی تبدیلی لانے کیلئے دھرنے آندولن یا راستے پر اترنے کی مطلق ضرورت نہیں ہے ۔ اس کیلئے ضرورت ہیکہ مختلف مکتبِ فکر کے علماءِ اکرام، این جی اوز، مسلم سیاسی اور سیکولر غیر مسلم سیاسی رہنما کے ساتھ منسلک مسئلہ کی ٹھوس ، مستند دستاویزات اور حقائق پر مبنی معلومات فراہم کرنے والا ایک قابل یقین غیر سیاسی ماہر شرکاء کو معلومات فراہم کرے ۔ یہ ضروری نہیں ہیکہ تمام تر علماءِ اکرام اور سیاسی رہنماؤں کو ہر مسئلہ کی مستند حقائق سے آگاہی ہو ، لیکن یہ ضروری ہیکہ ان کو آگے چل کر جب منترالیہ میں ٹیبل پر بیٹھ کر بیوروکریٹس کے سامنے اپنی بات رکھنی ہو تو وہ ٹھوس دلائل پر ہی مبنی ہونا چاہئے۔ اگر ان رہنماؤں کی محفل میں کوئی چار کے چالیس بتانے والا غیر ذمہ دار شخص موجود رہا تو اس کی بات کو لیکر ہم ہمارے اپنوں کو تو گھما پھرا کر کسی بھی جھوٹ کو سچ ثابت کر سکتے ہیں لیکن جب معاملہ بیوروکریٹس کے سامنے پیش ہو گا تو اس وقت ہمیں شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔ منسلک مسئلہ کے مستند اور ٹھوس حقائق کے تعلق سے دستاویزات ہم آج کے دور میں باآسانی انٹرنیٹ سے حاصل کر سکتے ہیں ۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ انٹرنیٹ سے گورنمینٹ گیزیٹ، گورنمینٹ اوایم نیز گورنمینٹ جی آر، سرکولر وغیرہ کی مدد لیں ۔
القصہ مختصر یہ کہ مہاراشٹر پولس سپاہی (سیوا پرویش ) رول ۲۰۱۱ .ء میں ترمیم کے تعلق سے مہاراشٹر کے محکمہ پولس کے اعلیٰ مسلم افسر جیسے احمد جاوید ، نثار احمد تمبولی ، عبدالرحمن وغیرہ صاحبان کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر کے ڈی جی پی اور دیگر اعلیٰ افسران اور ساتھ ہی ساتھ ہر ضلع کے پولس سپرینٹینڈنٹ سے ملاقات کر کے ان کے ذہن میں اس مسئلہ کی گہرائی اور ضرورت کو اتار کر ان کی جانب سے مہاراشٹر کے ہوم ڈپارٹمینٹ کو سفارشات بھیجی جائے ۔ یہ بات بالکل آسان ہے کیونکہ یہ معاملہ جب راقم الحروف نے ضلع دھولیہ کے کلکٹر اور ایس پی کے سامنے رکھی تو انھوں نے باآسانی اس بات کو تسلیم کر لیا اور مزید کہا کہ پولس کانسٹبل پوسٹ کیلئے ضروری نہیں کہ ان کے انتخاب کے وقت سے ہی وہ مراٹھی زبان میں ماہر ہو ۔ انتخاب کے بعد بھی مراٹھی زبان کی ٹریننگ سے گزارا جا سکتا ہے اور ویسے بھی ہر پولس کانسٹبل کو رائیٹنگ ورک نہیں کرنا ہوتا ہے ۔
الحمد ﷲ ابھی موقع اچھا ہے ۔ مہاراشٹر میں جگہ جگہ ہر سطح پر عید ملن کے پروگرامات ہونگے جہاں نانا، بابا، آبا، بھاؤ کے ساتھ ساتھ ہمارے مذہبی اور سیاسی رہنما بھی شامل ہونگے۔ سب ایک دوسرے کے گلے ملینگے اسی موقع پر ان اہل اقتدار افراد کے گلے میں متذکرہ مسئلہ اتارا جائے۔ ملک ہند کا کلچر ، الحمد ﷲ دنیا کا واحد کلچر ہے ، جہاں پر تیج تہوار کے موقع پر تمام تر گلے شکوے ، دشمنی ، نفرت ختم ہو کر ایک نئے آیام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔ پھر کیوں نہ ہم اپنے ملک کے کلچر کے مطابق اگر کوئی ہمارا دشمن بھی نظر آتا ہو تو اس سے بھی عقلی اور قانونی دلیل کے پیش نظر ہمارے مسئلہ کو حل کروا سکے ۔ عید کا موقع بھی ہے اور سامنے الیکشن بھی ہے لہٰذا پولس کانسٹبل سلیکشن میں اردو زبان کا Language of Answer کے زمرہ میں شمار کیا جانا نہایت ہی آسان ہے ۔ اس ضمن میں ریاستی سطح پر ایک ماہر کی نگرانی میںResource Person کا ورکشاپ لیا جائے جہاں پر تمام تر سرکاری حکمنامہ کے مستند دستاویزات کو تقسیم کیا جائے اور معلومات کے علاوہ اطمینان کی حد تک سوال جواب پر مشتمل سیشن ہو اور اس ورکشاپ میں جو Resource Person تیار ہونگے ان میں سے تقریباً چار چارافرادپر مشتمل مہاراشٹر کے تمام تر اضلاع کے مسلم سیاسی اور غیر سیاسی ذمہ داران اور سیکولر ذہن کے غیر مسلم ذمہ داران کو ساتھ لیکر پہلے انکے ذہن میں اس مسئلہ کی حقیقت اتاری جائے اور بعد ازیں منسلک ضلع کے کلکٹراور ایس پی کو یہ معاملہ سمجھایا جائے اور گذارش کی جائے کہ وہ ریاست مہاراشٹر کے ہوم ڈپارٹمینٹ کو اس تعلق سے ایک سفارشی خط روانہ کرے۔
جواب دیں