یقیناتحریکیں قربانی مانگتی ہیں،پھرکامیابی نصیب ہوتی ہے،تحریک تلنگانہ کے ساتھ بھی کچھ ایساہی ہواہے،تبھی جاکرتلنگانہ کی تشکیل کی راہ ہموارہوئی ہے۔تلنگانہ کی تشکیل جہاں ایک طرف تلنگانہ کے تحریک کاروں کے لیے راحت کا سبب ہے وہیں کچھ دوسرے علاقوں کے تحریک کاروں کے لیے بھی خوش آئندثابت ہواہے جوبرسوں سے اپنے علاقہ کوالگ کرنے کے خواہشمندہیں جن میں مہاراشٹرسے الگ ہونے کی خواہش رکھنے والے ودربھ،اترپردیش سے الگ ہوکرہرت پردیش اوربہارسے میتھلی زبان بولنے والے علاقوں کوعلاحدہ کرکے ایک متھلاریاست کی تشکیل کی تحریک چلانے والے تحریک کاروں کے لیے بھی تلنگانہ ریاست کی تشکیل کااعلان امیدافزاثابت ہواہے۔جغرافیائی ولسانی بنیادوں پرریاست کی تشکیل علاقہ کی ترقی کی ضامن ہے۔
تلنگانہ ریاست کی تشکیل لسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ علاقائی مسائل کی بنیادپرہے،لیکن متھلانچل کے علاقہ کی عوام کاالگ ریاست کامطالبہ کی بنیادعلاقائی مسائل کے ساتھ ساتھ لسانی مسئلہ بھی ایک بڑی وجہ ہے۔متھلانچل کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ اس دنیاکی،متھلانچل کوزمین پرپہلی عوامی جمہوری حکومت ہونے کاشرف حاصل ہے،متھلانچل پرجنک خاندان کے ۵۴؍افرادکوبادشاہت کرنے کاموقع ملا،متھلانچل کی حکومت ۸؍چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھی جن میں سب سے مضبوط لچھوی ریاست تھی،اور۱۲؍ویں صدی عیسوی تک اس خاندان کے چشم وچراغ نے متھلانچل پراپناکنٹرول باقی رکھا۔متھلامیں صرف بہارکے ہی علاقہ شامل نہیں ہیں بلکہ متحدہ متھلامیں نیپال کاایک بڑاحصہ شامل تھا اوراس متھلاکی راجدھانی جنکپورہواکرتی تھی جوکہ ہندؤں کاایک بڑامذہبی مرکزہے،اورجسے سیتایاویدیہی کی جائے پیدائش بھی کہاجاتاہے۔جب ہندوستان میں تغلق آئے تو متھل ابھی اس سے متاثرہوااور۱۳۲۳عیسوی میں غیاث الدین تغلق نے متھلاریاست پراپناقبضہ جمالیا۔پھرتغلق شاہ نے پنڈت کامیشورٹھاکرکومتھلاکی ریاست حوالہ کردی۔
متھلانچل اپنے محل وقوع کے اعتبارسے کافی اہمیت کاحامل ہے،ایک طرف اس کی سرحدنیپال سے ملتی ہے تودوسری جانب بنگال،جھارکھنڈ،متھلانچل کی دعویداری بہارکے تقریباً ۲۴؍اضلاع پرہے اوراس کے ساتھ ہی جھارکھنڈکے ۶؍ضلعوں پرمتھلانچل کی مضبوط دعویداری ہے،جوکہ متھلاریاست کاایک اہم حصہ ہیں،متھلانچل میں بہارکے جن اضلاع پر دعویداری ہے ان میں چمپارن،سیتامڑھی،شیوہر،مظفرپور،دربھنگہ،مدھوبنی،سمستی پور،بیگوسرائے،مونگیر،ویشالی،مدھے پور،سہرسہ،بھاگلپور،بانکا،شیخ پورہ،لکھی سرائے،کشن گنج، ارریہ،پورنیہ،کٹیہاروغیرہ شامل ہیں وہیں جھارکھنڈکے سنتھال پرگنہ سے تعلق رکھنے والے ۶؍اضلاع بھی متھلانچل کی ریاست کااہم حصہ ہیں جوکہ صاحب گنج،گڈا،دمکا،جام تاڑا، دیوگھراورپاکوڑہیں۔اس طرح متھلاریاست وجودمیںآتی ہے تواس کے پاس ۳۰؍اضلاع ہوں گے جوکہ دیگرکئی موجودہ ریاستوں کے مقابلہ میں بڑی ریاست ہوگی۔
یہ کہناغلط ہوگاکہ متھلاکے پاس کچھ نہیں ہے،متھلانچل کاعلاقہ بہت ساری خصوصیتوں کاحامل ہے،اوراس کے پاس وہ سارے وسائل موجودہیں جس سے علاقہ کی ترقی ممکن ہے، بس شرط ہے اس پرخصوصی توجہ دے کران وسائل کوعلاقہ کی ترقی کے لیے قابل استعمال بنانا،آج تک اس علاقہ کے ترقی سے محروم رہنے کی ایک بڑی وجہ ہے ریاستی ومرکزی رہنماؤں کی جانب سے اسے نظراندازکرنا،متھلاکے وسائل میں مچھلی پروری،جانوروں کے افزائش نسل کاطریقۂ کار،اورمکھاناکی پیداوارہے،یہ ایسے قدرتی وسائل ہیں جواس علاقہ میں وافرمقدارمیں پائے جاتے ہیں،اس کے علاوہ زراعت بھی اس علاقہ کے لیے خاص اہمیت کاحامل ہے،اورمتھلانچل کی خاص فصلوں میں چاول، گیہوں، مونگ،ارہر،سرسوں،اڑد،جوٹ،لیچی،آم اورکیلااہم ہیں،اسی طرح ہلدی،ادرک اورکھینی بھی خاص طورسے پایاجاتاہے،جہاں مظفرپورلیچی کے لیے مشہورہے وہیں سمستی پورکھینی کی پیداوارکے لیے پورے ملک میں شہرت رکھتاہے۔اسی طرح دربھنگہ کاپیپرمل جوحکومت کی بے اعتنائی کاشکارہے اوردربھنگہ ومدھوبنی کے شوگرمل جوحکومت کی سرد مہری کی وجہ سے عرصۂ درازسے بندپڑے ہیں جس کی وجہ کرخطہ کے ہزاروں خاندان بے روزگارہوگئے،اگران شوگرملوں کوازسرنوچالوکیاجائے توخطہ کے نوجوانوں کوروزگارکے لیے شہر درشہر کی ٹھوکریں نہیں کھانی پڑی گی،اسی طرح ان کسانوں کے لیے بھی آمدنی کابڑاذریعہ پیداہوجائے گاجنہوں نے شوگرمل کے بندہوجانے کی وجہ کرگناکی کھیتی کرنابندکردیا،مدھوبنی ضلع کوبین الاقوامی طورپرصرف اس لیے شہرت حاصل نہیں ہے کہ وہاں میتھلی زبان کابہت بڑاشاعراورسنسکرت کاعالم ودیاپتی پیداہوابلکہ اس کی شہرت کی ایک اوراہم وجہ اس ضلع کی وہ خاص پینٹنگ ہے جس نے اپنے انوکھے پن کی وجہ سے مدھوبنی کوبین الاقوامی شہرت کاحامل ضلع بنادیااگراس ضلع کوآرٹ وکرافٹ کے طورپرحکومت پروموٹ کرے تویہ بھی آمدنی کابڑاذریعہ ہوگا،اسی طرح بیگوسرائے ضلع میں واقع برونی آئیل ریفائنری بھی اس علاقہ کے لیے اہمیت کاحامل ہے،بھاگلپورریشم اورکھادی کی بڑی منڈی کے طورپرملک بھرمیں مشہورہے،اورمدھوبنی بھی کھادی کی پیداوارکاایک اہم مقام ہے،اسی طرح مظفرپورکوعلاقہ کی صنعتی راجدھانی کہاجاتاہے جہاں کئی بڑی بڑی کمپنیاں ہیں جن میں بھارت ویگن اینڈانجینئرنگ اوربجلی پیداکرنے والی این ٹی پی سی شامل ہیں۔نیپال کی سرحدپرواقع چھوٹاساشہرجئے نگربھی اقتصادی اعتبارسے اس خطہ کے لیے بڑاکارآمدہے،چاول ملوں کے علاوہ یہ شہرنیپال کی تجارت کااہم مرکزی مقام ہے،یہیں سے نیپال کوہندوستان سے جوڑنے والی ریلوے لائن ہے اوراسی طرح نیپال کے ترائی علاقہ کے باشندوں کی روزمرہ کی ضروریات کوپوراکرنے میں اس شہرکابڑااہم کردارہے۔ان وسائل کے علاوہ اس خطہ کی ایک تلخ حقیقت بھی ہے اوروہ ہے ہرسال سیلاب کاآناجس سے فصل پوری طرح تباہ ہوجاتی ہے،یہ ایک بڑامسئلہ ہے جوکہ حل طلب ہے،اوریہ مسئلہ بھی آج تک صرف اس لیے حل نہیں ہوسکاکیوں کہ آج تک کسی حکومت نے سنجیدگی اورایمانداری کے ساتھ اس مسئلہ کوحل کرنے کی کوشش نہیں کی،اگراس طرف سنجیدہ اورایماندارانہ کوشش کی جائے تویہ مسئلہ بھی آسانی سے حل ہوسکتاہے۔
متھلانچل کاعلاقہ مچھلی پروری کے لیے بڑی شہرت رکھتاہے،ریاستی حکومت سے لے کرمرکزی حکومت تک اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن آج تک کسی نے اس صنعت کو بڑھانے پرزورنہیں دیا،گذشتہ دنوں میں کئی بارنتیش جی نے اس علاقہ کی ترقی کاعہدوپیمان کیاہے،اتناہی نہیں انہوں نے مچھلی پروری کومستقل صنعت کادرجہ دینے کے لیے تربیتی مراکزکے قیام تک کی بات کہی ہے،لیکن یہ سب بس دیوانے کاخواب معلوم ہوتاہے،اصل میںیہ ہمارے رہنماؤں کی سردمہری اورعلاقہ کی ترقی میں دلچسپی نہ رکھنے کی وجہ سے یہ علاقہ آج تک ترقیات سے محروم ہے،اس علاقہ نے کئی قدآورلیڈردیے لیکن انہوں نے بھی آج تک متھلانچل کے کازکوآگے نہیں بڑھایااورنہ ہی اس کی ترقی کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھایاجس کی سب سے بڑی مثال مشہورکانگریسی رہنمااوربہارکے وزیراعلیٰ رہ چکے ڈاکٹرجگن ناتھ مشرہیں،انہوں نے وزارت اعلیٰ کی کرسی پربیٹھ کربھی متھلانچل کے لیے کچھ نہیں کیاآج ان کے صاحبزادے ریاستی حکومت میں گناوسائل کے وزیرہیں لیکن کوئی ان سے یہ توپوچھے کہ جب شوگرمل ہی نہیں توگناکیسے پیداہوگا؟متھلاکے آج تک ترقیات سے محروم رہنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آج تک کسی نے متھلاکی آوازکوزوروشورسے نہیں اٹھایا،یوں تومتھلاکوعلاحدہ ریاست بنانے کی مانگ کولے کربہت ساری تحریکیں کام کررہی ہیں لیکن ان تحریکوں کااثراس لیے نہیں ہے وہ تحریکیں بہت ہی فعال نہیں ہیں،وقفہ وقفہ سے کہیں کوئی مظاہرہ کیاپھرخاموش ہوگئے،اوراس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس علاقہ سے تعلق رکھنے والے مختلف سیاسی جماعتوں کے بڑے لیڈران اپنی جماعت کے مفادکوسامنے رکھتے ہوئے علاقہ کے مفادکے لیے انہوں نے کبھی آوازنہیں اٹھائی ،اگربڑے لیڈران نے آوازاٹھائی ہوتی اورسیاسی جماعتوں سے بالاترہوکرمتھلانچل کے حق کی لڑائی لڑی ہوتی توآج شایدکچھ اورہی منظرہوتا،ویسے ایسابھی نہیں ہے کہ متھلاکے لیے آواز نہیں اٹھی بلکہ آزادی سے بہت پہلے ۱۹۳۰ء میں سب سے پہلے متھلی مہاسبھانے متھلانچل کوالگ ریاست کادرجہ دیے جانے کامطالبہ کیاتھاجسے اس وقت کے مہاراجہ دربھنگہ کی بھی حمایت حاصل تھی،اسی طرح ۱۹۵۳ء میں جب ریاستوں کومنظم کرنے کے لیے کمیشن تشکیل دی گئی تواس وقت اس کی سفارش پربہت ساری ریاستیں وجودمیںآئیں لیکن متھلانچل کے لیے کسی نے کوئی زورداراندازمیں ایکشن نہیں لیااسی لیے متھلاکوعلاحدہ ریاست کادرجہ نہیں مل سکا،اس کے بعد۱۹۹۳ء میں انترراشٹریہ میتھلی پریشد،۱۹۹۵ء میں متھلاراجیہ سنگھرش سمیتی،۲۰۰۸ء میں متھلاوکاس پارٹی اور۲۰۰۹ء میں اکھل بھارتیہ متھلاپارٹی وجودمیںآئی اوران لوگوں نے ۲۲؍دسمبر۲۰۰۸ء و۲۰۰۹،۱۰؍دسمبر۲۰۱۱ء اور۲۱؍جنوری ۲۰۱۲ء میں دہلی اوربہارکے مختلف علاقوں میں متھلاکی تشکیل کے لیے دھرناواحتجاجی جلوس نکالا،لیکن یہ تحریکیںآج تک صرف اس لیے کامیاب نہیں ہوسکیں کہ اس تحریک کوکہیں سے کسی نے قربانی نہیں دی،اورجیساکہ تاریخ شاہدہے کہ ہرتحریک قربانی مانگتی ہے،بغیرقربانی کے کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوتی،حالیہ دنوں میں دربھنگہ سے بی جے پی ایم پی کیرتی جھاآزادنے بھی متھلاکے مطالبہ کولے کردھرناواحتجاجی جلوس نکالا،اسی طرح بی جے پی ایم ایل اے اورسابق چیرمین قانون سازکونسل تارکانت جھانے بھی متھلاکی حمایت میں عوامی ریلی نکالی،اسی طرح نومبر۲۰۱۱ء میں وزیراعلیٰ نتیش کمارنے بھی متھلاکے لیے اپنی حمایت کااظہارکیا،لیکن ان سب کے باوجود اگرہم واقعتا متھلانچل کی ترقی دیکھناچاہتے ہیں اوراسے خوشحال دیکھناچاہتے ہیں تواس کے لیے ملک گیرسطح پرزوردارتحریک چلانے کی ضرورت ہے اوران تحریکوں میں علاقہ کے ایسے بڑے لیڈران جوکہ مرکزمیں اپنی مضبوط پوزیشن رکھتے ہیں انہیں بھی اس تحریک کااہم حصہ بنناہوگاورنہ متھلاکاخواب کبھی شرمندۂ تعبیرنہیں ہوسکتا۔
جواب دیں