مودی کسے بے وقوف بنارہے ہیں؟

گجرات کو ملک کے سامنے ایک رول ماڈل کے طور پرپیش کرنے میں وہ جھوٹ اس قدر دیدہ دلیری اور تسلسل کے ساتھ بول رہے ہیں کہ سورج جیسی سچائی بھی اس کے شور میں کہیں گم ہوتی ہوئی محسوس ہورہی ہے ۔ان کے اس جھوٹ کو سچائی کے لبادے میں پیش کرنے کا ذمہ ہمارا قومی میڈیا لے چکا ہے اور ان کے گجرات ماڈل کو اس قدر رنگ وروغن کے ساتھ پیش کررہا ہے گویا نریندر مودی اگر نہ ہوتے تو گجرات ایک بھکاری ریاست بن چکا ہوتایااگر ملک کی زمامِ کار انہیں نہ سونپی گئی تو ملک کا بیڑہ غرق ہوجائے گا۔ لیکن سچائی تو بہر حال سچائی ہوتی ہے ۔ اس پر کتنے ہی پردے کیوں نہ ڈالے جائیں اور اسے کتنی ہی عیاری سے کیوں نہ دبایا جائے ، وہ ظاہر ہوکر رہتی ہے اور جب ظاہرہوتی ہے تو پھر ہزاروں مودیوں کوبھی منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملتی۔
نریندرمودی جس گجرات ماڈل کو ملک کے سامنے پیش کررہے ، اگر اس کا معروضی تجزیہ بھی کیاجائے تو ترقی کی یہ پوری عمارت ایک بلبلے سے زیادہ کی اہمیت نہیں پائے گی۔مودی کے گجرات ماڈل پر گفتگو سے قبل اگر ہم مودی کو پرموٹ کرنے والی اس کمنپی کے بارے میں بھی تھوڑی معلومات حاصل کرتے چلیں جومودی کے پی آر کی ذمہ داری نبھارہی ہے تو شاید اس ’وکاس پرش‘ کی حقیقت خود بخود واضح ہوجائے۔ مودی اپنی امیج بہتر بنانے کیلئے 2007 سے ایک پبلک رلیشن ایجنسی کی خدمات لے رہے ہیں، جس میں انہیں خاصی کامیابی ملی ہے۔ اس پبلک رلیشن ایجنسی کا نام ہے’ اے پی سی ورلڈ وائیڈ‘جو ایک اسرائیلی کمپنی ہے۔ اس کا کام گجرات کو سرمایہ کاری کے ایک بہتر متبادل کے طور پر پیش کرنے کے علاوہ بین الاقوامی اور داخلی محاذ پر مودی کی حیثیت کو بڑھاچڑھا کر پیش کرنا ہے۔ یہ کمپنی امریکہ میں تمباکو اور صحت کی انشورینس کی صنعتوں کے پبلک رلیشن کا کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل،قزاکستان نیز اقوام متحدہ، عالمی بینک اور ایسوسی ایشن آف ساوتھ ایسٹ ایشین نیشس کے لئے بھی پی آر کا کام کرتی ہے۔ اس کمپنی کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ یہ صحت اور ماحولیات جیسے عوامی مسائل پر اپنے گاہکوں کا ایجنڈا آگے بڑھانے کے لئے فرضی شہری مہم چلاتی ہے۔ یہ کام فرضی طور پر تیار کی جانے والی تنظیموں کے ذریعہ کرتی ہے۔ یہ اپنا کام سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں پی آر کے طوفانی حملے کے ذریعہ کرتی ہے۔اسی پی آر ایجنسی کے ذریعے مودی کو گجرات ماڈل کے حوالے پورے ملک میں پرموٹ کیا جارہا ہے ۔ میڈیا کا متاثر کن حصہ جو کارپوریٹ گھرانوں کے سرمایہ سے کنٹرول ہوتا ہے اور انہیں کے اشاروں پر کام کرتا ہے ، اس’ ماڈل ریاست‘ کے وزیر اعلی ( سی ای اوپڑھیں ) نریندر مودی کو نئے’وکاس پرش‘ کے طور پر پیش کر رہا ہے۔اب اسے ہندوستانی جمہوریت کی بدقسمتی ہی کہیں گے کہ یہاں کے سیاسی مستقبل کے رخ کا تعین کارپوریٹ گھرانے کر رہے ہیں اور اس میں ان کامددگار وہ طاقتور میڈیا ہورہا ہے جو ان کارپوریٹ گھرانوں کے کنٹرول میں ہے۔ نازی جرمنی کا پروپیگنڈہ وزیر اور ہٹلر کا خاص الخاص جوزف گیابیلس کی طرح جھوٹ کو اتنی بار سچ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ سچ سے بھی زیادہ سچ لگنے لگے۔
بڑے کارپوریٹ گھرانوں کے وزیر اعظم کے عہدے کے لئے سب سے پسندیدہ امیدوار مودی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت اپنے نو سال کے دور اقتدار میں کرپشن اور بڑے بڑے گھوٹالوں کے سبب اتنی بدنام ہو چکی ہے اب کارپوریٹ گھرانوں کو کانگریس میں اپنا مستقبل دھندھلا نظر آنے لگا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ ان کرپشن اور گھوٹالوں میں ہندوستانی کارپوریٹ گھرانے بھی پوری طرح سے ملوث رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ کارپوریٹ گھرانے مودی سے اپنی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں تاکہ ملک پر ان کا قبضہ برقرار رہے اور اس کے لئے انہوں نے میڈیا کو اپنا زرخرید غلام بنا لیا ہے کہ وہ جیسا چاہیں مودی کے تعلق سے ویسا ہی پرچار ہو۔ (یہاں یہ بات واضح رہے کہ نیٹ ورک 18 گروپ میں مکیش امبانی نے بھاری سرمایہ کاری کی ہے، امبانی کی کمپنی آر آئی ایل کے 27 چینلز میں حصص ہیں)۔اس کے علاوہ بڑے کارپوریشنس جس تیزی سے اپنے حق میں فیصلہ چاہتے ہیں اس کے لئے مودی ان کے لئے سب سے زیادہ موزوں شخص ہیں۔ ان کارپوریٹ گھرانوں وساہوکاروں کو ایک ایسے ’لوہ پرش‘ (مردِ آہن) کی ضرورت ہے جو ان کے مفاد کے راستوں میں آنے والی رکاوٹوں کو پوری ایمانداری سے ہٹائے۔ ان کے اس فریم میں نریندر مودی مکمل طور پر فٹ بیٹھتے ہیں۔
گجرات ماڈل کے نام پر ملک کو گجرات کی مفروضہ ترقی کا خواب دکھاکر گجرات کی اقتصادی ترقی کی حقیقت کوجھوٹ او رملمع کاری کے پروپیگنڈے میں دفن کیا جارہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر گجرات اقتصادی ترقی کے معاملے میں اگر کچھ آگے ہے تو یہ مودی کا نہیں بلکہ گجراتیوں کی بدولت ہے جن کی سرشت میں ترقی رچی بسی ہے ۔لیکن کسی ریاست یا کسی ملک کی اقتصادی ترقی کو ہی اس ملک یا ریاست کی ترقی قرار نہیں دی جاسکتی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس ملک یا ریاست کے شہریوں کی ترقی کس نہج پر ہے اور ان کا معیارِ زندگی کیا ہے ۔ اس کوہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس (ایچ ڈی آئی ) انسانی ترقی اشاریہ کے سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے ۔ایچ ڈی آئی کے معاملے میں گجرات 11 ویں مقام پر ہے۔ 2008میں گجرات کا ایچ ڈی آئی 0.527تھا جو ملک کی دیگر ریاستوں کے بالمقابل دسواں نمبر ہے ۔ گجرات ملک کی تیسری سب سے زیادہ مقروض ریاست ہے۔ سینئر صحافی کنگشک ناگ نے اپنی تازہ شائع کتاب ’نمو کہانی: اے پولیٹکل لائف‘ میں لکھا ہے ’ مودی اور ان کے اقتصادی ترقی کے ارد گرد پھیلے ہوئے پروپیگنڈے کی بنیاد آدھا سچ اور آدھا صرف مبالغہ ہے۔مثال کے طور پر وائبریٹ گجرات کے تحت کہا جاتا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں گجرات دیگر ریاستوں سے آگے ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے بارہ سالوں میں گجرات صرف پانچ فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری ہی لا پایا ہے۔ مہاراشٹر اوردہلی اس سے بہت آگے ہیں‘‘۔
گجرات میں خواتین کی ترقی کے بھی بہت بلند وبانگ دعوے کئے جاتے ہیں۔ لیکن اگر ریاست میں جنسی تناصب پر نظرڈالی جائے تو صورت حال کافی مضحکہ خیز نظر آتی ہے ۔گجرات میں 6 سال تک کی عمر میں جنسی تناسب کی حالت کافی تشویش ناک ہے۔ یہاں ایک ہزار بچوں کے مقابلے 886 بچیوں کا تناسب ہے۔ یہ اعداد و شمار 2011 کی مردم شماری کی ہے۔ 2001 کی مردم شماری میں یہ اعداد و شمار 883 کا تھا۔ جبکہ بہار، آندھرا پردیش، کیرالا اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں کی صورتحال بہت بہتر ہے۔ مردوں اور عورتوں کے تناسب میں بھی صورتحال بدتر ہے۔ ریاست میں دیہی اور شہری علاقوں دونوں کو ملا کر یہ تناسب ایک ہزار مردوں پر 918 خواتین کا ہے۔ جبکہ 2001 میں یہ تناصب 921 کا تھا۔ یعنی یہاں عورتوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ شادی شدہ خواتین کے صحت کے معاملے میں سروے کے مطابق 15 سے 49 سال کی عمر کی 55.5 فیصد خواتین انیمیا متاثرہ (انیمک) ہیں۔ اسی عمر کی 60.8 فیصد حاملہ خواتین غذائیت کی قلت کی شکار اور انیمک ہیں۔ 1998۔99 میں چھ ماہ سے 35 ماہ کی عمر کے 74.5 فیصد دلت اور قبائلی بچے غذائیت کی کمی کے شکار تھے ۔ جبکہ سال 2005۔2006 میں یہ تعداد بڑھ کر 79.8 فیصد ہو گئی۔اس کے علاوہ 41 فیصد بچوں کی وزن اتنا نہیں تھا جتنا ہونا چاہئے۔
گجرات میں شہری علاقوں میں خواتین کی شرح خواندگی 79.5 فیصد ہے۔ جبکہ گوا (80 فیصد)، آسام (90 فیصد)، کیرل (94 فیصد)، ہماچل (86 فیصد)، میگھالیہ (94 فیصد)، میزورم (98 فیصد)، ناگالینڈ (95 فیصد) اور تریپورہ (88 فیصد) سمیت کئی ریاست اس معاملے میں آگے ہیں۔ دیہی علاقوں میں خواتین کی خواندگی کے معاملے میں گجرات کا ریکارڈ 56 فیصد پرہے۔جبکہ گوا (73 فیصد)، دہلی (72 فیصد)، آسام (76 فیصد) کیرل (91.1 فیصد)، مہاراشٹر (65.8 فیصد)، پنجاب (65.5 فیصد) اور مغربی بنگال (64.7 فیصد) کے ریکارڈ کے ساتھ گجرات سے کہیں آگے ہیں۔اسی طرح گجرات میں 65.3 فیصد اسکولوں میں ہی لڑکیوں کے لئے بیت الخلا کی سہولت ہے۔ اس معاملے میں ہریانہ، کیرل، پنجاب، راجستھان اور اتر پردیش سمیت کئی ریاست گجرات سے کہیں آگے ہیں۔ تعلیم کو لے کر عوامی اخراجات میں بھی گجرات (1.7 فیصد) بہار (4.7 فیصد)، کیرالہ (2.6 فیصد)، آسام (4.1 فیصد) اور تمل ناڈو (10.2 فیصد) سمیت کئی دیگر ریاستوں سے کافی پیچھے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے جس گجرات کی ترقی کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے وہاں دیہی علاقوں میں موبائل جو آج زندگی کی لازمی ضرورت بن چکا ہے،اس کے کوریج (نیٹ ورک)کے معاملے میں یہ ریاست بہار، جھارکھنڈ، آندھرا پردیش، ہریانہ، کیرالہ، تامل ناڈو اور دہلی سے بہت پیچھے ہے۔ پینے کے پانی اور سڑکوں کی تعمیر کے معاملے میں بھی گجرات ملک کے بہت سارے صوبوں سے پیچھے ہے۔(حوالے کے لئے دیکھئے کرشن سنگھ کا مضمون’نریندر مودی:پی آر فرم کے ہوّے میں سوار، پی ایم امیدوار‘ شائع’ سمیانتر‘ میگزین مئی2013)
ریاست کی سالانہ آمدنی کے لحاظ سے گجرات کا نمبر اڑیسہ اور اتراکھنڈ کے بعد آتا ہے ۔ 2005-09کے درمیان گجرات کی سالانہ آمدنی 12.65فیصد تھی جبکہ اڑیسہ کا 17.53فیصد اور اتراکھنڈ کا 13.30فیصد تھی۔ 2010-11کے درمیان پر کیپٹل انکم کے لحاظ سے بھی گجرات مہاراشٹر اور ہریانہ کے پیچھے تھا۔2005-06اور 2011-12کے درمیان گجرات کی زرعی پیداوار 6.47فیصد تھی جبکہ بہار کی زرعی پیداوار 15.17تھی ۔اسی مدت میں گجرات کی انڈسٹریل انکم 10.90فیصد تھی جبکہ بہار 16.73فیصد ، اتراکھنڈ کا 15.65فیصد اور مہاراشٹر کا 11.02فیصد تھی۔ مصنوعات کی تیاری کے معاملے میں تو گجرات کی پوزیشن جموں کشمیر سے بھی بدتر ہے۔ اس شعبے میں گجرات ساتویں نمبر پر ہے۔ گجرات میں مصنوعات کی تیاری 10.55فیصد ہے ، جبکہ اتراکھنڈ 25.92فیصد ، اڑیسہ 14.03فیصد، ہماچل پردیش 17.57فیصد، مدھیہ پردیش 10.86فیصد اور جموں کشمیر 10.79فیصد ہے۔ اسی طرح سروس سیکٹر گروتھ کے معاملے میں گجرات کا پانچواں نمبر ہے جہاں یہ گروتھ 11.10فیصد ہے ۔ اس کے برخلاف اتراکھنڈ ،ہریانہ، جھارکھنڈ اور ہماچل میں یہ فیصد بالترتیب 14.77، 12.90،11.93اور 11.44فیصد ہے۔ ایف ڈی آئی کے معاملے میں گجرات 4.5فیصد کے ساتھ دہلی اور کرناٹک سے پیچھے ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے انڈین ایکسپریس کے 29جولائی2013کے شمارے میں بھال چندر مونگیکر کا مضمونFiguring out Gujrat)
یہ چند مثالیں ہیں جو گجرات کے عظیم ترقی کی حقیقت کو اجاگر کرتی ہیں۔اگر ہم گجرات کی مجموعی ترقی کا مکمل جائزہ یہاں پیش کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ جن ریاستوں کو پسماندہ قرار دیا جاتا ہے ، گجرات ترقی کے معاملے میں ان کے برابر بھی نہیں ہے،لیکن مضمون کی طوالت اس کی اجازت نہیں دے رہی ہے ۔ اب ایسے میں مودی کے جس گجرات ماڈل کو پورے ملک میں لاگو کرنے کی بات کی جارہی ہے وہ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ 2002میں جس طرح پورے گجرات میں مودی کی سربراہی میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ، اور جس کے نتیجے میں مودی گجرات کے دو بار وزیراعلی بنے (ایک بار اس قتل عام سے قبل بنے)، وہی تجربہ پورے ملک میں دہرایا جائے گا ۔اس کے علاوہ فرضی انکاؤنٹر کا جو سلسلہ مودی نے گجرات میں شروع کیا ہے ، وہی پورے ملک میں شروع ہوجائے گا۔ لیکن یہ باتیں میڈیا اپنی رپورٹوں میں پیش نہیں کرتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میڈیا تنقیدی سوالوں کو اٹھا کر مودی کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔ سینئر صحافی نلاجن مکھوپادھیائے نے اسی سال شائع اپنی کتاب’نریندر مودی: دی مین، دی ٹائمز‘ میں ایک رپورٹر کے حوالے سے لکھا ہے کہ’ اگر آپ ان کے(مودی) خلاف تنقیدی رپورٹیں لکھتے ہیں تو مودی بدلہ لینے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اب انتخاب آپ کا ہے، ہمارا ہے اور پورے ملک کا ہے کہ 2014کے پارلیمانی انتخابات میں کیا گجرات کا تجربہ پورے ملک میں دہرانے اور فرضی انکاؤنٹر میں بے قصوروں کو قتل کرنے کے لئے بی جے پی ، مودی اور سنگھ کو کھلا موقع عنایت کریں یا اس جھوٹ سے ملک کو آگاہ کریں کہ گجرات کی ترقی کا دعوی ایک دھوکہ محض ہے۔

«
»

مسلم مجاہدین آزادی کی خدمات کا اعتراف ضروری

رکھتے ہیں عذر سب تو خطاکار کون ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے