ہفتے کو دار الحکومت قاہرہ میں مصری صدر محمد مرسی کی بحالی کے لیے جاری دھرنے کو طاقت سے ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نہتے مظاہرین پر فائرنگ کر دی آخری اطلاعات تک فوج کی فائرنگ سے 250 سے زاید مظاہرین شہید اور 4 ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ فوج نے پرامن اور نہتے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی اور ان کے سر اور سینوں کو نشانہ بنایا گیا، دو روز قبل مصری فوج کے سربراہ جنر ل عبدالفتاح السیسی نے عوامی مظاہروں سے پریشان ہو کر مصری عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ بھی فوجی انقلاب کے حق میں جمعہ کو مظاہرہ کریں، اس بیان کا مطلب یہ تھا کہ مصری فوج اپنے ناجائز اور عوام دشمن اقدام کو جائز قرار دینے کے لیے اپنی ہی قوم کو آپس میں باہم متصادم کر دینا چاہتی ہے۔ ویسے بھی امریکا اور اقوام مغرب کی ہر ملک کے بارے میں حکمت عملی یہی ہے کہ اگر ان کی ناپسندیدہ قوتیں یعنی ایسی سیاسی تحریکیں جو اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتی ہیں اگر وہ عوام کی رائے اور بیلٹ کی طاقت سے کامیاب ہو جائیں تو ان کی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کے لیے خانہ جنگی کرادی جائے اور اس مقصد کے لیے ہر مسلمان ملک میں ملت فروش خائنوں اور منافقوں کا طبقہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ تجربہ سب سے پہلے 1990 میں الجزائر میں ہوا۔ جہاں سب سے پہلے کوئی اسلامی تحریک انتخابات میں پہلی بار کامیاب ہوئی اور اسلامی تحریک کی کامیابی کو وہاں کی فوج اور سیکولر حکومت نے خانہ جنگی میں بدل دیا اور آج تک لاکھوں الجزائری مسلمان قتل کیے جاچکے ہیں، 1990 میں الجزائر میں اسلامی فرنٹ کی کامیابی کے بعد عالمی حالات میں بہت تیزی سے تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔ ان تجربات و واقعات نے ہر مسلمان ملک میں اسلام اور سیکولر ازم کی کش مکش کو تیز کیا ہے اور امت مسلمہ کے اس احساس میں پختگی پیدا ہوئی ہے کہ عالم کفر جس کا جدید نام سیکولر فوجی جمہوریت ہے اسلام کی سیاسی کامیابی کو کسی صورت میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ امریکا اور مغربی تہذیب جمہوریت کی دعویدار ہونے کے باوجود اسلامی تحریکوں کے خلاف فوج کی طاقت، وحشت درندگی کے اظہار اور عوام کے قتل عام کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن کسی بھی اسلامی تحریک کی حکومت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، چاہے وہ عوام کی کثیر رائے سے منتخب ہو کر سامنے آئے، مصری فوج کا گمان یہ تھا کہ چند دنوں میں اخوان المسلمون کی مزاحمت ختم ہو جائے گی، لیکن جنوری انقلاب کے بعد اخوان المسلمون نے حکمت و تدبر کے ساتھ مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ مصری فوج کی اپنے عوام کے خلاف تازہ بغاوت ابتدا ہی میں ناکام ہو گئی، جعلی اور مصنوعی طور پر یہ تاثر دیا گیا ہے کو فوج اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے صدر محمد مرسی کے خلاف عوامی جذبات کی نمائندگی کرنے کے لیے سامنے آئی ہے۔ لیکن مرسی کی معزولی اور فوجی بغاوت کے خلاف پورے مصر میں پرامن احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے، اور ایک ماہ گزر جانے کے باوجود نہ صرف مظاہرے جاری ہیں بلکہ قاہرہ میں رابعہ بصری کی مسجد کے میدان میں ایک ماہ سے دھرنا جاری ہے، جب محمد مرسی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جارہے تھے تو مرسی کے جمہوری اصولوں کے مطابق شہریوں کو احتجاج کا حق دیتے ہوئے مظاہرین کے قائدین کو مذاکرات اور بات چیت کی دعوت دی تھی، لیکن چونکہ یہ مظاہرے فوج کے اشارے پر ہوئے تھے اس لیے انہوں نے مذاکرات نہیں کیے جبکہ مغرب زدہ اور سیکولر اقلیت نے فوج کی طاقت سے اقتدار میں آنے کے بعد ایک منتخب جائز اور قانونی حکومت کی بحالی کے لیے احتجاج کرنے والوں کے خلاف وحشیانہ طاقت استعمال کی اور ہفتے کے روز مصری عوام کے قتل عام کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ ایک روز قبل مصر کے قانونی صدر محمد مرسی کے خلاف باقاعدہ فرد جرم عائد کر دی گئی ہے اور ان پر حماس سے مل کر سازش کرنے کا الزام لگایا گیا ہے جس کے بعد بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے اور معلوم ہو گیا ہے کہ مصر کی فوج اور اس کی طبقہ اشرافیہ اصلا اسرائیل کی محافظ ہے، فوج نے طاقت کے استعمال اور اخوان کو کچلنے میں ناکامی کے بعد مصر کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دینے کا فیصلہ کر لیا ہے، اس مقصد کے لیے فوج کی سرپرستی میں شرپسند افراد کے گروپوں نے سادہ لباس میں بھی نہتے مظاہرین پر فائرنگ کی ہے لیکن اخوان کی قیادت نے عزیمت اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے، اگر مصری فوج کی یہی روش برقرار رہی تو مصر میں غیر ملکی فوجی مداخلت کا خطرہ بھی سر پر کھڑا ہوا ہے۔
جواب دیں