اس سے بھی زیادہ عدالت و انصاف کی دنیا میں’’25جولائی 2013کے ساکیت کورٹ کے فیصلے‘‘ نے ظلم و ناانصافی کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور ایک ایسے شخص کو مجرم بنادیا جس کی بے گناہی و معصومیت کے ثبوت چیخ چیخ کر اپنے وجود کا احساس دلا رہے ہیں ۔بڑے بڑے سیاسی لیڈر اور سماجی کارکن نیزاخبارات و حقائق اسے متعدد بار ’فرضی انکاؤنٹر‘ثابت کرچکے ہیں۔شاید ہی کو ئی ایسا کیس ہوگا جس میں بے گناہی کے اتنے اور واضح ثبوت ہوں گے مگرحکمراں جماعت کو ان پر بالکل یقین نہیں آیا ۔وہ پولیس کی غلط بیانی کو ہی حقیقت سمجھتی رہی اور قاتل پولیس والوں کواعزاز اور تمغوں سے نوازتی رہی۔اس میں دہلی حکومت اور مرکزی حکومت دونوں کی ساز باز تھی ۔چنانچہ حالیہ فیصلہ آنے کے دہلی کی وزیر اعلا شیلا دکشت نے ایک ہندی اور فرقہ پرست اخبار کو انٹر یو دیتے ہو ئے پرانے بیان کو دہراتے ہو ئے اس انکاؤنٹر میں کام آنے والے پولیس انسپکٹر کی تعریف کر تے ہو ئے کہا ہے کہ’’موہن چند شرما ایک بہادر انسان تھے انھوں نے ’آتنکیوں‘ سے سنگھرش کر تے ہو ئے بلدان دیا‘ہمیں اس پر گرو وَہے ۔ میری دہلی ایسے ہی لوگوں کے بلدان پر بنی ہو ئی ہے ……‘‘
شیلا دکشت نے جو کہا سو کہا اس سے بھی زیادہ شرمناک رویہ مرکزی حکومت کا تھا چنانچہ مذکورہ اخبار میں رائے زنی کر تے ہو ئے کانگریس کے جنرل سکریٹری دگ وجے سنگھ میں بر ملا کہا ہے: ’’میں مانتا ہوں کہ بٹلہ ہاؤس مٹ بھیڑفرضی تھی لیکن پردھان منتری و گرہ منتر ی(پی چدمبرم )نے اسے جائز مانا ہے اس لیے ہمیں اپنی جانچ کی مانگ کو چھوڑنا پڑا۔‘‘…..تصویرکا دوسرا رخ دیکھیے!سلمان خورشید روایت کر تے ہو ئے کہتے ہیں کہ ’’جب بٹلہ ہاؤس مٹ بھیڑ کی تصویر یں سونیا جی کو دکھا ئی گئیں تو وہ روپڑیں۔‘‘
مذکورہ بالا تینوں بیانات ملاحظہ کیجیے اور معاملے کی سنجیدگی کا احساس کیجیے ‘سرکاری لوگ کس طر ح زمین و آسمان ملاتے ہیں ‘آگ وپانی کو یکجا کر تے ہیں اور چاند و سورج کو ایک ساتھ طلوع کر تے ہیں ۔کہاں بجلی اور کہاں آشیانہ‘کہاں طوفان اورکہاں بستیاں ‘کہاں تباہی اور کہاں آبادیاں…..اجالے اندھیرے بھی ایک دوسرے سے بہت دور ہیں ۔جھوٹ اور سچ کبھی ایک نہیں ہو ئے ……لیکن کانگریس ….بد عنوان کانگریس کے راج میں یہ سب ممکن ہے جو اس نے کر کے دکھایا اور ببانگ دہل کر کے دکھایا۔یہ پارٹی حکومت کے تخت پر بھی سیاست کررہی ہے ‘وزارتوں کی کر سیوں پر بھی اس کے ارکان کی سیاسی چالیں اور جوڑ توڑ کے گورکھ دھندے نہیں گئے۔انھیں اب تک احساس نہیں ہوا کہ اب ہم پارٹی کی سطح سے اٹھ کر حکمران ہیں اور حکمران فرقہ پرستی سے بہت اوپر اٹھ کر حکومت کرتے ہیں ۔حکومتوں میں مسلم ‘ہندو ‘عیسائی ‘سکھ ‘پارسی ‘انسان ‘جانور ‘جنگلات ‘پانی ‘سمندر ہزارو ں چیزیں ہوتی ہیں جو سب میں برا برتقسیم کی جاتی ہیں اسی طرح ’’انصاف ‘‘دینا حکمران کا فرض اولیں ہوتا ہے ……مگر یہ باتیں انھیں کیا سمجھ میں آئیں گی جن کی مدت حکمرانی پانچ سال ہوتی ہے اور ان کا مقصد مخالف جماعتوں کو نیچا دکھانا ہوتا ہے ۔
دل یہی کہتا ہے اور ضمیر کی آواز یہی ہے کہ ’ساکیت ’عدالت ‘چو نکہ دہلی میں واقع ہے اس لیے’دہلی پولیس ‘کے حق میں اس کا فیصلہ آیا اور شہزاد ’اعظم گڑھ‘کا ہے جسے یہ فرقہ پر ست عدالتیں اور لوگ ’آتنک گڑھ ‘کہتے ہیں اس لیے فیصلہ اس کے خلاف آیا ۔
یہ کو ئی ایک دو مرتبہ کا واقعہ نہیں ہے بلکہ متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ عدالتیں اپنے ’’فرض انصاف گیری‘‘سے بہکی ہیں ‘متعدد بار انھوں نے غلط اور غیر منصفانہ فیصلے دیے اور ملزمین قید و بند کے چنگل میں چلے گئے۔ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکے ہوں یا26/11 کے حملے ۔اسی طرح گودھر ا فسادات ‘حیدرآباد فسادات ہوں یا لکھن�ؤ و وارانسی فرقہ وارانہ فسادات ۔گوپالگڑھ کے دل دو ز حادثے ہوں یا بھیونڈی کی آتش زنی …..ہر جگہ نام نہاد ’عدالتوں ‘نے غلط فیصلے کیے اور ’ ’انصاف کی آبرو‘‘کو پامال کیا۔
دہلی پولیس عاطف اور ساجد کا خون پی کر ’شہزاد‘کا خون بھی پینا چاہتی ہے ۔موہن چند شرما کو اپنے ہاتھوں قتل کرکے اس کا الزام‘ معصوموں پر تھوپ رہی ہے ۔یہ وہی دہلی پولیس ہے جو اس سے پہلے بھی بے گناہوں کو اپنے گھناؤ نے جال میں پھانس چکی ہے گو اسے منہ کی کھانی پڑی ہو لیکن اس کا زہر تو پھیل گیا ۔لیاقت حسین کو فرضی ثبوت اور ڈاکیو منٹ کے ساتھ جامع مسجد کوبدنام کر نے کے لیے قریب کے ہوٹل سے پکڑنے کا ڈھونگ رچا یا ‘پھر لیاقت کاحق غالب آیا اور دہلی پولیس کا باطل چورچور ہو گیا ۔اس سے قبل معروف صحافی اور بیباک قلم کار جناب احمد کاظمی کو ’اسرائیلی سفارت کار‘ کی گاڑی پر حملہ کر نے کے الزام میں گر فتار کیا اور تقریباً 11مہینے بعد جب حق آیا تو دہلی پولیس اپنا سا منہ لے کر رہ گئی ۔اتنی ناکامیوں کے باجود دہلی پولیس کی ضد ہے کہ اس کا جھوٹ سچ مانا جائے اور اس کی باتوں پر یقین کیا جائے۔چنانچہ دہلی میں ایسی فرقہ پرست عدالتیں موجود ہیں ہی جو دن کو رات اور سیاہ کو سفید کہنے کو ہر وقت تیار رہتی ہیں ۔
یہ ہیں وہ دہلی پولیس اور دہلی کی عدالتیں جن کے کارناموں اور فیصلوں نے دنیا ئے انسانیت کو شرمسار کر دیا اور ظلم و ناانصافی کی ایسی نظریں قایم کیں جن کی دنیا میں مثال نہیں ہے۔یہ ’عدالت‘ نہیں بلکہ عدالت کے نام پر دھبہ ہیں …..عدالت تو وہ ہوتی ہے جہاں سچے فیصلے ہوتے ہیں اور مجرم خود اپنے گناہوں کا اقرار کر تا ہے ۔یہاں گناہ اگلوانے کے لیے ٹارچر کیا جاتا ہے اور ملزم کی اس قدر تو ہین کی جاتی ہے کہ اسے زندگی سے موت بہتر معلوم ہوتی ہے۔
آئیے! میں ان نام نہاد عدالتوں اور فرقہ پر ست ججوں کو ایک واقعہ سناؤں جو’’ انصاف کی آبرو‘‘کامنہ بولتا ثبوت ہے:
’’حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دربار میں بنی نجار کی ایک عورت آئی اور بھری مجلس میں اس نے کہا :’ ’امیر المومنین !میں انصاف کے لیے آئی ہوں !‘‘…..’’تمہارے ساتھ کیا ناانصافی ہو ئی ہے اے خاتون !‘‘ آپ کے بیٹے نے میرے ساتھ بد کاری کی ہے اور اب میں اس کے بچے کی ماں بننے والی ہوں ….‘‘عورت نے دونوں ہاتھوں میں منہ چھپاکر کہا۔….’’اچھا ! ابھی تم جاؤ اور جب بچہ پیدا ہو جا ئے اور اس قابل ہوجائے کہ بولنا چالنااور کھانا پینا سیکھ لے تو پھر آنا تمہارے ساتھ ضرور انصاف کیا جائے گا ….‘‘حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس طرح کہا کہ عورت سرور اطمینان سے جھومتی ہو ئی آگئی ……بچہ پیدا ہوا ….بڑا ہوا کھانا کھانے لگا تو عورت بچے کے ساتھ پھر آئی اور انصاف کی گہار لگائی۔حضرت عمر نے فوری طور پر اپنے بیٹے کو بلایا ،مدعیہ کا الزام اس کے سامنے پیش کیا ‘اس نے بلا جھجک گناہ قبول کر لیا…… پھر انصاف عمر ہوا جسے دنیا دیکھتی رہ گئی …..بیٹے کو قرارواقعی سزا دی ‘اور مزنیہ کو بھی کیفر کر دار تک پہنچایا…..‘‘(تاریخ اسلام ۔ج2ص22)
ساکیت کورٹ جیسی عدلتوں کے فیصلوں پر میں بس یہی کہوں گا….
قانون دے رہا ہے گواہی پہ فیصلہ
انصاف روپڑا بڑی بیبسی کے ساتھ
جواب دیں