بلکہ مصری آئین کو معطل کرکے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عدلی منصور کی سربراہی میں عبوری حکومت کے قیام کا اعلان بھی کیا ۔ فوج نے محمد مرسی حکومت کے خاتمے کا ارادہ تو بہت پہلے کرلیا تھا لیکن وہ کسی ایسے موقع کی تاک میں تھی جب اقتدار پر قبضے کے لیے اس کے پاس مناسب جواز دستیاب ہو اور حکومت پر قابض ہونے کے بعد اس کے خلاف اندرونی اور بیرونی دنیا میں کم سے کم انگلیاں اٹھائی جا سکیں۔ فوج کا اسلام پسندوں پر مشتمل مصری حکومت کے خلاف پیمانہ صبر چند دن پہلے اس وقت لبریز ہوگیاتھا جب محمد البرادی جیسے سیکولر اور مغرب نواز امریکی ایجنٹوں کی سرپرستی میں دو ڈھائی لاکھ لبرل اور سیکولر عناصر نے التحریر اسکوائر میں جمع ہو کر صدر مرسی کی حکومت کے خلاف احتجاج شروع کیا ۔ یہ احتجاج چونکہ مصری حکومت کے خاتمے کی غرض سے ایک منظم منصوبے اور ساز ش کے تحت شروع کیا گیا تھا اس لیے مظاہرین نے حکومت کی صبر اور برداشت پر مبنی پالیسی کو حکومت کی کمزوری پر محلول کر کے جہاں جاری احتجاج میں تشدد کا پہلو شامل کیا وہاں بعض ،ظاہرین نے اخوان المسلمین کے ہیڈ کوارٹر پر حملے اوروہاں جلاؤ گھیراؤ سمیت اخوان سے و ابستہ راہنما ؤں اور کارکنان پر قاتلانہ حملے بھی کیے گئے ۔ ان حملوں میں اخوان کے دو درجن سے زائد راہنما اور کارکنان جاں بحق کیے جا چکے ہیں۔ ان ہی حالات کو جواز بنا کر اقتدار پر قبضے سے محض 24گھنٹے قبل مصری افواج کے سربراہ جنرل الفتاح السیسی نے اپنے ایک نشری بیان میں حکومت کو جاری احتجاج ختم کرانے اور مظاہرین کے مطالبات ماننے کے لیے 48گھنٹے کا الٹی میٹم دیا تھا جس پر صدر مرسی نے سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے فوج کے اس بیان اور الٹی میٹم کو غیرآئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے نہ صرف مسترد کر دیا تھا بلکہ فوج کے حکومت کے خلاف کسی بھی ممکنہ اقدام کی سخت مزاحمت کا اعلان بھی کیا تھا ۔ صدر مرسی حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کا لب و لہجہ اور احتجاج کا طریقہ واردات دیکھ کر یہ بات واضح نظر آرہی تھی کہ نہ صرف دال میں کچھ کالا ہے بلکہ ان اندیشوں کو بھی واضح طور پر محسوس کیا جا رہا تھا کہ یہ احتجاج آگے جا کر کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے ۔ ایسے میں جب فوج کے سربراہ نے حکومت کو 48گھنٹے کا الٹی میٹم دے ڈالا تھا تو تب پھر ہر کسی کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی کہ مرسی حکومت اب دنوں نہیں بلکہ گھنٹوں کی مہمان ہے ۔بعد میں وہی ہوا کہ فوج نے اپنے 48گھنٹوں کے الٹی میٹم کی لاج رکھنا بھی ضروری نہیں سمجھا اور اگلے ہی دن یعنی 24گھنٹے بعد فوج کے چند پیادوں نے سرکاری ٹی وی اور ایوان صدر کا گھیراؤ کرتے ہوئے بھاری مینڈیٹ کی حامل ایک جمہوری حکومت کو اسی طرح چلتا کر دیا جس طرح کہ عموما تیسری دنیا بالخصوص مصر اور پاکستا ن جیسے ممالک میں ہوتا آیا ہے ۔مرسی حکومت پر فوج کے سربراہ نے وہی گھسے پٹے روایتی الزامات لگائے ہیں جو اس طرح کے آئین شکن اور جمہوریت کش اقدامات کے بعد فوجی ڈکٹیٹر ز منتخب جمہوری حکومتوں کے خلاف لگاتے آئے ہیں ۔ گو مصری افواج کے پاس صدر مرسی جیسے دیانتدار ، اہل ، باصلاحیت اور باہمت قائد کے خلاف چارج شیٹ بنانے کے لیے کوئی قابل ذکر مواد دستیاب نہیں تھا لیکن مرسی حکومت کی معزولی کے لیے کیا صدر مرسی کا یہ ایک قصورکم تھا کہ وہ اسلام کے اصولوں یعنی سماجی انصاف اور جمہوریت پر مبنی معاشرے کے قیام کے علمبردار تھے ۔ وہ فلسطینیوں کو ان کے جائز بنیادی حقوق دینے اور ایک آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے پشتیبان اور خواہشمند تھے ۔ وہ مصری معاشرے کو زنا ، شراب خوری او ر سودجیسی غیر اسلامی قباحتوں سے پاک کر کے ایک فلاحی اسلامی معاشرے کے قیام کے راستے پر گامزن تھے ۔ حیرت ہے کہ پاکستان کے بعض نام نہاد جمہوریت پسند دانشور مصر میں جمہوریت کے خلاف فوج کشی پر دکھلاوے کے ٹسوے تو بہا رہے ہیں لیکن یہی دانشور ایک ہی سانس میں مصر میں جمہوریت لپیٹے جانے کی ذمہ داری اقتدار کے بھوکے فوجی جرنیلوں اور ان سے بھی بڑھ کر عالمی صیہونی اور یہودی سازشوں کے سرخیلوں پر عائد کرنے کی بجائے اس جمہوریت کشی کاملبہ نوزائیدہ مرسی حکومت اور ان کے خلاف نام نہاد اور بے بنیاد الزامامت کو قرار دے کر اپنی دورنگی اور منافقت کا کھلا اظہار کررہے ہیں ۔ دانشوروں کایہ مفاد پرست اور مغرب سے مرعوب طبقہ ایک جانب صدر مرسی پر بے حکمتی اور غیر لچکداری کی بھپتی کستے ہوئے، کہتے ہیں کہ فوجی الٹی میٹم کے بعد جمہوریت بچانے کے لیے صدر مرسی کو اپنے اقتدار کی قربانی دے کرمستعفی ہوجانا چاہیے تھا ۔دوسری جانب یہ ٹولہ میاں نواز شریف پر جنرل مشرف کے خلاف نہ ڈٹنے اور جان کی امان کا معاہدہ کرنے کی بھپتیاں کسنے سے بھی دریغ نہیں کرتا جب کہ تیسری جانب یہی ٹولہ ذوالفقار علی بھٹو کی فوجی آمر کے خلاف نہ جھکنے اور جمہوریت کی خاطر پھانسی چڑھنے پر نہ صرف واہ واہ کرتا ہوا نظر آتا ہے بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کے جانشینوں اور سیاسی وارثوں نے اپنے کرتوتوں سے جمہوریت کی مٹی جس طرح پلید کی ہے لبرل فاشسٹوں کا یہ دانشور طبقہ ان وارداتو ں کو بھی بالعموم اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے مہمل الفاظ کے گورکھ دھندے میں گول کر جاتا ہے ۔ صدر مرسی کے پاس اپنی منتخب جمہوری و آئینی حکومت بچانے کے لیے سوائے مزاحمت کے اور کوئی آپشن تھا ہی نہیں ۔ ہاں ایک آپشن ان کے پاس ضرور موجود تھا کہ وہ امریکی اور اسرائیلی گٹھ جوڑ کے خلاف ہتھیار ڈال کر اپنی آئینی حکومت سے دستبردار ہوجاتے جس کا سیدھا سادھا مطلب یہی اخذ کیا جاتا کہ وہ لڑے بغیر ہی دشمن کی قید میں چلے گئے کسی جنرل یحی خان جیسے سپوت کے لیے تو ایسے کسی راستے کا انتخاب یقیناآسان ہوتا لیکن قربانیوں اور شجاعتوں کی امین اخوان المسلمون کے کسی تربیت یافتہ راہنما کے لیے ایسے تاریک راستے کا چناؤ نا ممکن تھا۔در اصل صدر مرسی اور اخوان سے بہتر یہ بات اور کون جان سکتا ہے کہ اگر بالفرض وہ ملک وقوم اور جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں اقتدار سے علیحدہ ہو بھی جاتے تو تب بھی بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت مرسی حکومت کے جانے اور اخوان کے گھیراؤ کا فیصلہ وہیں ہو چکا تھا جہاں بالعموم ایسے فیصلے ہوتے ہیں ۔ محمد مرسی جس واضح ایجنڈے اور رفتار کے ساتھ ترکی ، ایران اور فلسطین کے ساتھ اپنے دو طرفہ تعلقات استوار اور مستحکم کر رہے تھے اور غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملے کے خلاف مصر نے تاریخ میں پہلی دفعہ جس طرح کھل کر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کر کے فلسطینیوں کو باب الفتح کے سرحدی راستے کے ذریعے جس بڑے پیمانے پر غذائی امداد بہم پہنچائی دراصل یہی وہ جرائم تھے جو صدر مرسی اور ان کی حکومت کے خاتمے کا اصل سبب ہیں باقی محض باتیں اور فسانے یا پھر یکطرفہ اور من گھڑت الزمات ہیں۔ اس بغاوت میں فوج کے پیچھے امریکی ہاتھ کا اندازہ جہاں عبور ی حکومت کے سیٹ اپ اور فوج کی جانب سے جمہوریت کی بحالی کا کوئی ٹائم فریم نہ دینے کے اقدامات سے لگایا جا سکتا ہے وہاں آئین میں من مانی ترامیم جیسے اعلانات بھی اس جانب واضح اشارہ کرتے ہیں۔ حرف آخر یہ کہ فوج کا اقتدار پر قبضہ اگر ایک جانب مصری معاشرے اور بالخصوص اخوان
المسلمون کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش کا پیش خیمہ بن سکتا ہے تو دوسری طرف اس شب خون اور بغاوت کے بحیثیت مجموعی مشرق وسطی خاص کر فلسطین اور شام کی صورتحال پر بھی انتہائی گہرے اور منفی اثرات مرتب ہونے کے امکانات کو رد کرنا ممکن نہیں ہوگا ۔
جواب دیں