پاپ کی ہنڈیا اب سرِ بازار پھوٹنے کو ہے

اس کے باوجود اس تسلیم شدہ دہشت گرد نریندر مودی کو نہ صرف بی جے پی نے اپنے انتخابی مہم کی تشہیر کا سربراہ بنایا بلکہ مسلمانوں کو رجھانے کی ذمہ داری بھی اسی بھیڑیئے کو سونپی گئی جس کے نوکیلے دانتوں سے ہنوز خونِ انسانی ٹپکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے تعلق سے’ ویژن ڈاکیومنٹ‘ تیار کرنے سے اگر یہ انسانی بھیڑیا یہ سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کے پر کئے گئے اس کے مظالم سے ملک چشم پوشی کرلے گا تواسے اس کی خام خیالی کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے؟۔ 
گجرات میں آگ اور خون کی سیاست فرما کر ریاست سے باہر نکل کر بی جے پی کا پرچم لہرانے کی تیاری میں مصروف نریندر مودی تشہیر کمیٹی کی کمان ملنے کے ساتھ ہی اپنی مہم بھی شروع کرچکے ہیں۔ لیکن عشرت جہاں انکاؤنٹر معاملے میں سی بی آئی کا شکنجہ ان کے گلے تک پہونچاہی چاہتا ہے۔ سی بی آئی عشرت جہاں انکاؤنٹر معاملے میں 4 جولائی تک چارج شیٹ دائر کرنے کا طئے کرچکی ہے جس میں کئی ایسی باتیں ہیں جو نریندر مودی کی مصیبتیں بڑھا سکتی ہیں۔ سی بی آئی ذرائع کی مانیں تو اس میں مودی کا نام بھی آ سکتا ہے۔ ساتھ ہی ان کے دائیں ہاتھ اورپارٹی کے جنرل سکریٹری امیت شاہ کا بھی اس میں پھنسنا طے مانا جا رہا ہے۔سی بی آئی نے اس معاملے میں کچھ پولیس والوں کے بیان دفعہ 164 کے تحت درج کئے ہیں۔ بیان دینے والے پولیس والوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس وقت کے ڈی آئی جی ڈی جی ونجارا اور آئی بی کے موجودہ ڈائریکٹر راجندر کمار کے درمیان کی گفتگو سنی تھی۔ بیان میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ونجارہ اور راجندر کمار کے درمیان عشرت جہاں انکاؤنٹر کو لے کر ہی بات چیت ہو رہی تھی۔ اس میں کہا جا رہا تھا کہ کالی داڑھی(امیت شاہ) اور سفید داڑھی(نریندر مودی) سے بات ہو گئی ہے۔ ان لوگوں نے اس کام کے لئے اجازت دے دی ہے۔ سی بی آئی کے پاس اس فرضی انکاؤنٹر کے الزام کوثابت کے لئے دستاویزی ثبوتوں کے علاوہ الیکٹرانک ثبوت بھی ہیں۔ اسی کی بنیاد پر آئی بی کے اسپیشل ڈائریکٹر راجندر کمار اور امت شاہ کو اہم منصوبہ ساز تا بتایا جائے گا۔اس معاملے میں جتنے ثبوت سی بی آئی کے پاس ہیں اس سے یہ صاف ہو گیا ہے کہ راجندر کمار اور امت شاہ نے عشرت جہاں سمیت چاروں کو فرضی انکاؤنٹر میں مار گرانے کی سازش رچی تھی۔ راجندر کمار نے نہ صرف فرضی الرٹ دلوایا بلکہ عشرت جہاں ودیگر تینوں کو گجرات پولیس کی حراست تک پہنچایا۔ یہی نہیں انہوں نے ان چاروں کو لشکر ۔ اے ۔ طیبہ کے دہشت گرد ثابت کرنے لئے اے کے 47 رائفل بھی دستیاب کروائی۔ انہوں نے یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی کہ وہ چاروں دہشت گرد تھے اور نریندر مودی کے قتل کرنا چاہتے تھے۔
نریندر مودی اینڈ کمپنی کے گرد سی بی آئی کاکستا شکنجہ جہاں مودی حکومت میں ہوئے تمام انکاؤنٹرس کے فرضی ہونے کے ثبوت کے طور پر سامنے آرہا ہے ، وہیں اس معاملے میں مودی کی بوکھلاہٹ بھی دیدنی ہوتی جارہی ہے ۔ ابتداء میں عشرت جہاں اور3دیگرلوگوں کو لشکرِ طیبہ کا رکن قرار دے کر انکاؤنٹر میں مارگرانے اورپورے ملک سے داد وصول کرنے والے مودی اب اسے اپوزیشن یعنی کہ کانگریس کی چال قرار دے رہے ہیں، جبکہ گجرات حکومت کے اعلی پولیس افسر پی پی پانڈے کے ذریعے ایک ایسی ریکارڈنگ بھی سامنے آئی ہے جو مودی اینڈ کمپنی کو اس معاملے میں مجرم ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔اس کے علاوہ اس معاملے میں جو تازہ ترین اپ ڈیٹ سامنے آئے ہیں اس کے مطابق مودی وامیت شاہ ودیگر کو عشرت جہاں کے بے قصور ہونے اور اس کے انکاؤنٹر کئے جانے کی اطلاع تھی اور ان کی ایماء پر عشرت جہاں و تین دیگر کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ گویا عشرت جہاں ودیگرکا انکاؤنٹر میں مارا جانا ایک منصوبہ بند عمل تھا جس میں مودی و اس کے تمام قریبی لوگ شامل تھے۔ اس انکشاف سے یہ امید اب مزید بڑھ گئی ہے کہ 4جولائی کوپیش کی جانے والی سی بی آئی کی چارج شیٹ میں نریندر مودی اور اس کے قریبی ساتھی امیت شاہ کا نام ضرور ہوگا ۔ یعنی کہ عشرت جہاں کا خون نہ صرف پکارنے لگا ہے بلکہ اب سرچڑھ کر بولنے بھی لگا ہے۔یعنی کہ پاپ کی ہنڈیا اب سرِ بازار پھوٹ رہی ہے۔
یہ ہمارے ملک عزیزکی روایت رہی ہے کہ جب کسی سیاستداں گرد قانونی شکنجہ تنگ ہونے لگتا ہے تو وہ اس کو سیاسی طور پر کیش کرنے کی کوششوں میں لگ جاتا ہے۔ عشرت جہاں کے معاملے میں بھی یہی ہورہا ہے ۔ نریندر مودی اسے کانگریس کی بدلے کی سیاست قرار دے رہی ہے۔ مودی اینڈ کمپنی کی سوچ یہ ہے کہ اس طرح کرنے سے سی بی آئی کی تحقیق کے رخ کو موڑا جاسکتا ہے اور اس کے اثرات کو ختم تو نہ سہی پر کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ عشرت جہاں معاملے میں سی بی آئی کے شکنجے میں آنے کے بعد ہی اس طرح کے الزامات سامنے آئے ہیں ، بلکہ جسٹس تمانگ اور ایس آئی ٹی کی تفتیش کے وقت بھی اسے کانگریس کی بدلے کی سیاست قرار دینے کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اب جبکہ یہ شکنجہ مودی اور امیت شاہ کی گلے تک پہونچ رہا ہے تو اس میں مودی کو براہِ راست کانگریس کا ہاتھ ہونا نظر آنے لگا ہے ۔ شاید یہی وجہ سے کہ مودی کانگریس پر یہ الزام لگارہے ہیں کہ وہ سرکاری اداروں کو اپنے مفاد کے تحت استعمال کررہی ہے۔ مودی کے مطابق کانگریس آئی بی کے مقابلے میں سی بی آئی کو کھڑا کررہی ہے ۔ سی بی آئی کا غلط استعمال کرکے ملک کے ڈھانچے کو ختم کر رہے ہیں ۔ ہمارے کانگریس کے دوست اس کو نہیں سمجھتے کیونکہ اس میں ان کے خود کے مفاد وابستہ ہیں۔کچھ دن پہلے ہی سی بی آئی کو’کانگریس بیورو آف انویسٹی گیشن‘ قرار دیتے ہوئے نریندر مودی نے الزام لگایا تھا کہ سی بی آئی اپنے سیاسی آقاؤں کے کہنے پر گجرات کے افسران اور وزراء کے خلاف سازش رچ رہی ہے۔(تفصیل کے لئے دیکھئے آج تک 27جون2013)
یہ ایک سیاسی حربہ ہے جس کے استعمال سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ تفتیش کو ہائی جیک کیا جاسکتا ہے ۔ مگر مودی یہ فاشسٹ حربہ استعمال کرتے ہوئے شاید یہ بات بھول رہے ہیں کہ سی بی آئی کو اس کیس کی تفتیش کی ذمہ داری کانگریس کی جانب سے نہیں بلکہ گجرات ہائی کورٹ کی جانب سے سونپی گئی ہے۔ اور سی بی آئی براہِ راست ہائی کورٹ کی ہدایت کے مطابق اس کی جانچ کررہی ہے۔لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ یہی وہ حربہ سے جس کے استعمال سے بارہا تفتیش کو ہائی جیک بھی کیا جاتا ہے اور غلط رخ پر موڑا بھی جاتا ہے۔ ورنہ آخر کیا وجہ سے کہ جسٹس تمانگ کی تفتیش کے بعد سے ہی مودی اینڈ کمپنی پر انگلیاں اٹھ رہی تھیں ، مگر ان پر ہاتھ ڈالنا تو دور اس معاملے میں خاطیوں کو حکومتی سطح پر مدد فراہم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے۔ نریندر مودی اس معاملے میں ونجارہ اور راجندر کمار سمیت تمام ملوثین کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ہیں ، مگر ان تمام کوششوں کے باوجود خون آخر خون ہے، اس نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا اور اب خود مودی کی گردن اس پھنستی ہوئی نظر آنے لگی ہے۔
جمہوری نظام کے تحت ہر کسی کو اپنی بات کہنے اور اپنا خیال ظاہر کرنے کا حق ہے ۔ نریندرمودی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ سی بی آئی کو کانگریس کی کٹھپتلی قرار دیں۔ مگر کیا ایک جمہوری نظام میں اس طرح کی فسطائی عمل کی بھی کوئی جگہ ہوسکتی ہے کہ ایک معصوم کو دہشت گرد بتاکر اس کا نہ صرف قتل کردیا جائے بلکہ اس پر دہشت گرد ہونے کا لیبل لگا کر اس کے اہلِ خانہ کو سماج میں مشکوک قرار دے دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی سوچ اور اس طرح کا عمل کسی بھی سماج میں قابلِ قبول نہیں ہوسکتا ۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ عشرت جہاں کے معاملے میں گجرات حکومت کارویہ قاتلوں کو بچانے کا رہا؟ جب جسٹس تمانگ کی رپورٹ میں یہ بات مکمل طو رپر سامنے آگئی تھی کہ عشرت جہاں و دیگر تین لوگوں کا انکاوَنٹر بوگس تھا تو پھر کہاں تھا حکومتی انصاف کہ اس معاملے میں خاطی لوگوں کے خلاف کارروائی کی جاتی؟ اگر نریندر مودی اس پورے معاملے میں بے قصور ہیں ، جیسا کہ بی جے پی کی جانب سے ظاہر کیا جارہا ہے تو پھر اس کے فرضی ہونے کے ثبوت منظرِ عام پر آنے کے بعد انہوں نے اس کے خلاف کارروائی کے احکامات کیوں نہیں دئے؟حقیقت یہ ہے کہ عشرت جہاں کے قتل کی طرح بی جے پی کی جانب سے دی جانے والی تمام دلیلیں بھی فرضی ہیں۔
نریندر مودی جس فکری اسکول سے تعلق رکھتے ہیں وہاں فاشزم ایک مستحسن حکمتِ عملی کے طور پربرتا جاتا ہے۔بی جے پی کی جانب سے انہیں ممکنہ وزیراعظم بنائے جانے کے پسِ پشت یہی مستحسن حکمتِ عملی کارفرما ہے کہ جس طرح انہوں نے گجرات کی مخالف ومتضاد سیاسی فضاء میں تین بار پارٹی کو جیت دلائی ہے ، اسی حکمتِ عملی سے وہ بی جے پی کو بھی دہلی تک پہونچا دینگے۔ مگر فاشزم پر مبنی یہ حکمتِ عملی اب سیاسی بازار میں اپنا قدر کھوچکی ہے ۔ خود آر ایس ایس جو فاشزم کا سب سے بڑامنبع ہے، محض بی جے پی کی اندرونی بغاوت کو فرو کرنے کی غرض سے مودی کو پارٹی کی تشہیری کمیٹی کا سربراہ بنانے پر راضی ہوا ہے ۔ وگرنہ اس حکمتِ عملی کے تحت گجرات میں بی جے پی کو حاصل شدہ ووٹ نصف فیصد سے کہیں زیادہ کم ہیں، جن کی بنیاد پر بی جے پی تین بار ریاست میں برسرِ اقتدار آئی ہے۔اس لئے یہ بات نہایت ذمہ داری کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مودی کی فاشزم اب اپنا اثر کھوچکا ہے اور اس بات کو آر ایس ایس کے لوگ بھی بخوبی واقف ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ عشرت جہاں کے قاتلوں کو بچانے کی مودی کی فسطائی حکمتِ عملی اب سی بی آئی کی تفتیش کے سامنے اپنا اثر کھوچکاہے۔ یہاں ہم یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ سی بی آئی بھی اس معاملے میں کوئی دودھ کی دھلی نہیں ہے۔یہ سی بی آئی کا تجاہل ہی تھا کہ اس نے عشرت جہاں کے معاملے میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہونچنے والے آدھے درجن سے زائد پولیس اہلکاروں کے خلاف متعینہ مدت میں چارج شیٹ پیش نہیں کرسکی ، جس کا سہارا لے کر تمام گرفتار شدہ ملزمین جیل سے باہر آگئے۔ پھر بھی گجرات ہائی کورٹ کی ایماء پر جاری یہ تفتیش اب اپنے منطقی انجام پر پہونچنے ہی والی ہے ، جس میں مودی ، امیت شاہ وان کے دیگر ساتھی واضح طور پر پھنستے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

«
»

اخوان کوابھی اوربڑی قربانی کی ضرورت ہے!

صلیبی انجام کی جانب بڑھتا اسرائیل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے