آشفتہ سرکانوحہ

اولاً توعالم نقوی کی تحریریں پڑھ کر تعجب ہوتاہے کہ ایسے سنجیدہ اور فکرانگیز مضامین انہوں نے کسی روزنامے کے لیے کیسے قلم بند کرلئے کیونکہ اردوروزناموں میں صحافیانہ اندازاور رَوارَوِی میں وقتی نوعیت کے مضامین شائع کرکے کسی طرح اخبار کا پیٹ بھرناہوتاہے۔ایسے میں کوئی دیوانہ نہایت ذمہ داری سے قارئین کے شعور کی آبیاری کرنے لگ جائے، انہیں قومی وملی مسائل سے واقف کرائے اورعام قاری کوخواب غفلت سے جھنجھوڑ کربھولے ہوئے اسباق یاد کرانے لگے توایسے آشفتہ سرکی داد دینی چاہئے۔اچھاہی ہوا جومحنت اوردلسوزی سے لکھے ان مضامین کوکتابی شکل میں ترتیب دے کر اردو قارئین کے لیے ایک دستاویز کے طورپر محفوظ کرلیاگیا۔ورنہ ان فکری کاوشوں کا نہ جانے کیاحشرہوتا۔
ان کی کتاب’’بیسوی صدی کامرثیہ‘‘ماحولیات پر اردومیں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جس میں ماحولیات کے ضمن میں کی گئی ساری انسان دشمن پالیسیوں کابھرپور تجزیہ ہے۔اندھادھند صنعتی ترقی، ایٹمی اسلحے کی اندھی دوڑ کے نتیجے میں بنی نوع انسان کی بقا کے سنگین مسائل، دفاعی اخراجات میں ہرسال اضافہ اورکرۂ ارض پربچی کچھی زمین جنگلوں تالابوں اورمیدانوں کاانسانی ہوس کے ہاتھوں نیست ونابود ہونا، بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی معاشی آمریت، ماحولیات کی تباہی کے بدولت بے گھرہونے والے کروڑہاپناہ گزینوں کی حالت زار، یہ سب ایک عام انسان کی بے بسی اورلاچاری کانوحہ ہے جوبرسوں سے مردہ نظام کی لاش کوڈھوتے ڈھوتے بری طرح ٹوٹ چکاہے۔اوراب ہماری بے حسی ،خاموشی اوربے عملی نے ہمیں ایسی نوع میں بدل ڈالا ہے۔جہاں اپنی تباہی کے ہم خودذمہ دار ہوں گے۔ بقول عالم نقوی’’فی الحال ہم اتنا ہی کرسکتے ہیں کہ صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کی مختصر فہرست میں اپنانام درج کرالیں اور کل کی جواب دہی سے بچ جائیں، ورنہ ترقی کایہ عذاب توسب کچھ بلامبالغہ سب کچھ مٹادینے کے درپے ہے‘‘
ان کی دوسری کتاب’’اذان‘‘ صہیونیت کی سازشوں کو بے نقاب کرتی ہے۔اسرائیل کے قیام سے لے کر آج تک غاصب یہودیوں نے فلسطینیوں پرجومظالم روارکھے اور جس طرح اپنی ہی زمین سے بے دخل کرکے ان کی زمینوں پراپنی غیرقانونی بستیاں آباد کیں اورامریکہ ،برطانیہ اورفرانس کے ٹولے نے جس طرح دنیاکی آنکھوں میں دھول جھونک کرآج تک اپنی من مانی جاری رکھی،اس الم ناک کہانی کاایک ایک باب بڑی دردمندی سے تحریر کیاگیاہے جس کے لیے قارئین کوعالم نقوی کا ممنون ہوناچاہئے۔ 318صفحات پر پھیلے ہوئے سوسے زیادہ مضامین فلسطینیوں کی جدوجہد، صہیونی مقتدرہ کی ریشہ دوانیوں اورعالم اسلام کی بے حسی کی وہ داستان ہے جسے ہرحساس مسلمان کویاد رکھناچاہئے۔کیونکہ آج تاریخ کے ان بھولے ہوئے اسباق کودوہرانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ہماری رہنمائی ہوسکے۔ ویسے بھی اسرائیل ارض مقدس کوسب سے بڑے قبرستان میں تبدیل کرچکاہے، اقوام متحدہ کی آنکھیں نہتے فلسطینیوں پراسرائیلی دہشت گردی دیکھنے سے معذور ہیں، مسلم ممالک امریکی سامراج کواخلاقی حمایت اورمالی امداددینے میں عار محسوس نہیں کرتے، صہیونیت کاپروردہ مغربی میڈیا مسلمانوں کو دہشت گرد مشہور کرچکاہے، خود ہمارے ملک میں اسرائیلی سفارت خانے کے قیام سے لے کر قائدین کی اسرئیل یاترائیں اس بات کاثبوت ہیں کہ عام انسانوں کونہ فلسطینیوں کے کاز سے دلچسپی ہے ،نہ امت مسلمہ کے درد کااحساس ہے۔وہ توحزب اللہ اورحماس کی فتوحات تک فراموش کرچکے، انہیں تواپنے جائز حقوق کے لیے لڑنے والے نوجوانوں کی شہادت بھی یاد نہیں،وہ ان لاکھوں پناہ گزینوں کے دکھ سے بھی ناآشنا ہیں جوبرسوں سے اپنے وطن لوٹنے کی آرزومیں زندہ ہیں،انہیں صابرہ اورشیتیلہ کیمپوں کی دردناک بربادی بھی یاد نہیں،ایسے بے توفیق اوربے حوصلہ لوگ ظلم وستم کے خاتمہ اورعدل وانصاف کے قیام کے بارے میں کیوں کر سوچ سکتے ہیں۔ کاش وہ جان سکتے کہ فلسطین سے افغانستان تک اوربوسنیا سے گجرات تک کھیلاجانے والا کھیل صہیونی کھیل ہے اورہم ہیں کہ ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے ہیں، اس کے باوجود عالم نقوی مایوس نہیں ہیں،اسی موذن کی طرح جونہیں جانتاکہ اس کی اذان کا کیانتیجہ نکلے گااس آس پر کہ’’ اگرہم فتح یاب نہ ہوئے توہماری آئندہ نسل یااس کے بعدآنے والی نسل میں سے کوئی نہ کوئی نسل ضرور فاتح کہلائے گی‘‘ وہ دعاکئے جاتے ہیں۔ہم کم از کم ان کی دعا میں توشامل ہوہی سکتے ہیں۔

«
»

اخوان کوابھی اوربڑی قربانی کی ضرورت ہے!

صلیبی انجام کی جانب بڑھتا اسرائیل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے