تحریک انتفاضہ :1987ء سے اب تک شہادتیں اور گرفتاریاں

انتفاضہ اول کے بعد سے 1994ء4 تک 2لاکھ 10 ہزار، 1994 سے ستمبر2000 میں انتفاضہ دوئم کے شروع ہونے تک ایک لاکھ اور انتفاضہ دوئم کے دوران اب تک 63 ہزار گرفتاریاں عمل میں لائی جا چکی ہیں۔
فلسطینی عوام کے حوصلوں کو پست کرنے اور ان کے ارادوں کو کمزور کرنے کے لئے قابض حکومت نے گرفتاریوں کے مختلف اسلوب اپنائے۔ مزاحمت کو جس قدر دبانے کی سازش کی گئی اس میں اتنا ہی اضافہ ہوا۔ فلسطینی عوام کا چوتھائی حصہ جیلوں اور قید خانوں کی سختیاں جھیل چکاہے۔ مگر فلسطینی عوام کو جھکایا نہ جاسکا۔ فلسطینی عوام اپنے حقوق سے پیچھے نہیں ہٹے۔ فلسطینی بالخصوص نوجوان گرفتاری کو اپنے لئے فخر اور میڈل سمجھتے ہیں۔ 
گرفتار شدگان نے جیلوں اور قید خانوں کو تعلیم و تربیت کے مراکز بنادیا ہے۔ جیلیں سکول،کالجز اور یونیورسٹیاں بن چکی ہیں۔ سینکڑوں فلسطینیوں نے جیلوں میں رہتے ہوئے تعلیم کے مراحل مکمل کئے ہیں۔ مثلاً ایک اسیر ناصر عبد الجواد نے جیل کے اندر رہتے ہوئے امریکہ کی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی ہے۔ انہوں نے اسلام میں غیر مسلموں سے رواداری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا تھیسسزلکھا۔ جیلوں میں ڈگریاں حاصل کرنے والوں نے ملک کے کونے کونے میں سیاسی اور تمدنی قیادت ہی نہیں کی بلکہ عسکری قیادت کے فرائض بھی سنبھالے۔ انہوں نے فلسطینی مزاحمت میں نیا ولولہ اور جذبہ پیدا کیا ہے۔
فلسطینی اسیران کے امور کی وزارت کے میڈیا ڈائریکٹر ریاض اشقر کے مطابق موجودہ حالات کی بہ نسبت انتفاضہ اول میں اسیران کے حالات انتہائی بدتر تھے۔ گرفتاریوں میں اضافے کے باعث اسرائیلی حکام کو نئی جیلیں بنانا پڑیں۔ تحریک انتفاضہ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے روزانہ گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔ جیلوں میں کھانا معیار ی نہیں ہے۔ موسم کے لحاظ سے مناسب لباس نہیں دیا جاتا۔
ادنی ضروریات زندگی کی کمی ہے۔ متعدد جیلوں میں ملاقاتیں نہیں ہونے دیتے۔ اسیران کے اہل خانہ، رشتہ دار، دوست احباب کوئی ان سے نہی مل سکتا۔ صحراء4 نقب میں موجود جیل کتسیعوت کاافتتاح 1988ء4 میں کیاگیاتھا۔ اب تک وہاں پر قیدیوں سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ صرف 1991ء4 کے آخری چند ماہ میں قیدیوں سے ملاقات کی اجازت دی گئی تھی۔ پھر یہ سلسلہ روک دیا گیا۔
صحراء4 نقب کی جیل سب سے بڑی اسرائیلی جیل ہے۔ اس جیل میں ایک لاکھ سے زائد اسیران کو بند کیاگیاہے۔ اسرائیلی حکام گرفتار شدگان پر تشدد اور ان کی تذلیل کرنے کے لیے طرح طرح کے طریقے اختیار کرتے ہیں۔ پولیس اہلکار قیدیوں کے درمیان امن وامان قائم رکھنے کے بہانے آدھی رات کے بعد ان کے کمروں میں داخل ہوتے ہیں اور انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ جیل انتظامیہ موسم کی کوئی پرواہ نہیں کرتی۔ صحراء4 نقب میں سخت سردی پڑتی ہے۔ سردیوں کے موسم میں اسیران کو مناسب رضائیاں، کمبل اور گرم کپڑے فراہم نہیں کئے جاتے۔ مریضوں کے علاج معالجے کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ جیل ڈاکٹر کے پاس تمام مریضوں کی دوا ’’اکامول‘‘ کی گولی ہے۔ وہ ہر قسم کے مریض کو اکامول کی گولیاں دے دیتاہے۔ 
ریاض اشقر کے مطابق انتفاضہ اولی کے دوران 43 اسیر شہید ہوئے، ان میں سے 23 اسیران نے تفتیش کاروں کے تشدد کے باعث شہادت پائی۔ علاج میں لا پرواہی کے باعث 11 اور جیل کے پہریداروں کی براہ راست فائرنگ سے 2 اسیر شہید ہوئے۔ اسیران جیل کے برے حالات کے خلاف احتجاج کررہے تھے کہ جیل گارڈز نے ان پر فائرنگ کردی جس سے اسعد الشواء4 اور بسام حمودی شہید ہوگئے جبکہ 7قیدیوں کو قتل کیاگیا۔
رپورٹ کے مطابق انتفاضہ اول کے 356 اسیر ابھی تک اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، جن کو اسرائیلی حکام نے اس دلیل سے رہا کرنے سے انکار کردیا کہ یہ لوگ یہودیوں کے قتل میں ملوث ہیں۔
ان میں سے 141 کا تعلق مغربی کنارے سے، 139 کا غزہ سے، 49 کا مقبوضہ بیت المقدس سے اور 22 کا 1948ء4 کے مقبوضہ فلسطین سے ہے جبکہ 5 عرب اسیر ہیں۔ مغربی کنارے کے اسیران میں سے قدیم ترین سعید العتبہ ہیں جو 1977ء4 سے قید میں ہیں۔ غزہ کے اسیران میں سے قدیم ترین سلیم الکیالی ہیں جو 1983ء4 سے پابند سلاسل ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس کے اسیران میں سے قدیم ترین فواد الرازم ہیں جو 1981ء4 سے پس دیوار زندان ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس کے اسیران میں سے قدیم ترین سامی خالد یونس ہیں جو 1983ء4 سے اسرائیلی قید کاٹ رہے ہیں جبکہ عرب اسیران میں سے قدیم ترین سمیر القنطار ہیں جنہیں 1979ء4 میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ ابھی تک رہائی نہیں پاسکے۔ 
اسرائیلی حکومت نے 1967ء4 سے اب تک 8 لاکھ فلسطینیوں کو گرفتار کیا جن میں 335 بچوں سمیت 11500 ابھی تک پس دیوار زندان ہیں۔ انتفاضہ کے دوران گرفتار کیے جانے والے بچوں کی کل تعداد 6500 سے زائد ہے۔ انتفاضہ کے دوران 670 خواتین کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 670 ابھی بھی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ 
ایک ہزار اسیران کو بغیر مقدمہ چلائے جیل میں رکھا گیا ہے۔ اسیران میں سے 1200 مریض ہیں جن میں بعض خطرناک بیماریوں کا شکار ہیں۔ ان کے علاج میں لاپرواہی اختیار کی گئی ہے۔
جیل حکام کے بے اعتنائی کے باعث مرض بیمار اسیران کے جسموں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ ان کی صحت روز بروز گر رہی ہے۔ حال ہی میں محمد اشقر کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے بعد اسیران شہداء4 کی تعداد 192 تک پہنچ گئی ہے۔ ان میں سے 70 اسیر تشدد کے باعث اور 46 علاج مہیا نہ ہونے کے باعث شہید ہوئے جبکہ 68 کو گرفتار کیے جانے کے بعد شہید کیا گیا۔ 
تمام اسرائیلی جیلوں، حوالاتوں اور تفتیشی مراکز میں فلسطینی اسیران اور اسیرات کے ہلاک کرنے کے لیے ایک منظم مہم جاری ہے۔ جبکہ عالمی برادری اسرائیلی حکام کے غیر انسانی سلوک پر خاموش ہے جس کے باعث قابض حکام مزید دلیر ہوتے جارہے ہیں۔ 
ان کی درندگی اور وحشیانہ رویے میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مختلف فلسطینی گروپوں نے انسانی حقوق کے اداروں کو فلسطینی اسیران کے مصائب کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے بلکہ الزام لگایا ہے کہ انسانی حقوق کے ادارے اور بین الاقوامی برادری اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ آج انسانی حقوق کے دعویدار ادارے آوارہ کتوں اور بلیوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے لیے خصوصی تنظیمیں اور ادارے 
قائم کرتے ہیں لیکن انہیں اسرائیلی جیلوں میں قید ان اسیران کا خیال نہیں آتا جن سے جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جارہا ہے۔

«
»

اخوان کوابھی اوربڑی قربانی کی ضرورت ہے!

صلیبی انجام کی جانب بڑھتا اسرائیل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے