مودی سرکار کے جشن میں تھوڑا رنگ میں بھنگ دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلہ سے پڑگیا جس میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کے وزیر یا ممبر پارلیمنٹ یا کسی بھی افسر یا ملازم کو کجریوال کی حکومت اگر بھرشٹاچار کرتا ہوا پائے تو اسے گرفتار کراکے اس کے خلاف مقدمہ چلوا سکتی ہے۔ اور مودی صاحب نے فرمان جاری کیا تھا کہ ان کے کتےّ یا بلیّ کو بھی کجریوال اس لئے گرفتار نہیں کرسکتے کہ وہ ملک کے بادشاہ سلامت کے پروردہ ہیں۔ اس فیصلہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ کجریوال کے خیمہ میں ہر وزیر اور ممبر کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور عالم پناہ نریندر مودی کے چہرے پر سرخی اور لکیریں۔ وہ یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ اچھے دن آگئے۔ بس یہ کہہ رہے تھے اور کہلا رہے تھے کہ برے دن چلے گئے اور سامنے بیٹھے غریبوں کو ڈانٹ رہے تھے کہ کہو برے دن گئے۔ زور سے کہو برے دن چلے گئے۔ اور جن سے کہلانا چاہ رہے تھے وہ 70 روپئے کلو کی دال/ 110 روپئے کلو خریدنے کی وجہ سے ہلکے سے بھی نہیں کہہ پارہے تھے کہ برے دن چلے گئے۔ شری مودی نے ڈانٹا ہڑکایا اور مجمع نے دیکھا کہ ہزاروں کی تعداد میں پولیس کھڑی ہے تو وہ ڈر کی وجہ سے چیخ پڑے کہ برے دن گئے۔ بیشک گئے اور بہت دور گئے۔
شری نریندر مودی کی حکومت کے ایک سال میں ہمارے نزدیک سب سے بڑا کام یہ ہوا ہے کہ اب تک مسلمان لڑکے اور لڑکیاں اُن کے کہنے کے مطابق انہیں قتل کرنے کے لئے پاکستان سے آتے تھے۔ ان میں اکثر لشکر طیبہ بھیجتا تھا یا جیش محمد۔ اور وہ احمد آباد میں ان کے کہنے کے مطابق مار دیئے جاتے تھے۔ ہمیں تو یاد نہیں لیکن امت شاہ کو ضرور یاد ہوگا کیونکہ مودی کی حفاظت کی ذمہ داری ان ہی کی تھی کہ کتنے لڑکے مارے گئے اور کتنی لڑکیاں؟ یہ پہلا موقع ہے کہ خبروں کے مطابق ایک ہندو لڑکے نے متھرا میں انہیں مارنے کی دھمکی دی ہے لیکن یہ خبر نہیں آئی کہ اسے اس کے ساتھیوں کے ساتھ مار دیا گیا؟ اب تک کیا ہوا اور اب کیا ہوگا؟ یہ وہی بتاسکتے ہیں اس لئے کہ حکومت ان کے ہاتھ میں ہے۔
ہم تو بات کررہے تھے برے دن کے جانے کی۔ تو مودی صاحب نے کہلاکر چھوڑا۔ اس واقعہ سے یاد آیا کہ پاکستان سے اب ڈر کی وجہ سے دہشت گرد تو آتے نہیں لیکن لطیفے برابر آرہے ہیں اور وہ غیرقانونی نہیں ہیں اس لئے انہیں سرحد پر کوئی روکتا بھی نہیں ہے۔ ہماری خشک اور سنجیدہ تحریروں سے آپ بھی بوجھل ہوگئے ہوں گے اس لئے ایک لطیفہ سن لیجئے۔ بتایا گیا ہے کہ ایک شیخ کا پالتو ہاتھی جنگل میں گم ہوگیا۔ انہوں نے اس کی تلاش کے لئے کئی ملکوں کی پولیس کی باری باری خدمات حاصل کیں۔ ہر ملک کی پولیس جنگل میں جاتی اور ناکام واپس آجاتی۔ آخرکار پاکستان پولیس کی خدمات حاصل کی گئیں۔ پولیس کا ایک انسپکٹر اپنے چند سپاہیوں کے ساتھ جنگل میں گیا اور ایک گھنٹہ کے بعد ہی ایک بارہ سنگھے کو باندھ کر لے آئے۔ سپاہی بارہ سنگھے کی چھترول کررہے تھے اور چلاّ چلاّ کر کہہ رہا تھا کہ ہاں ہاں میں ہی شیخ کا ہاتھی ہوں۔
کل سے اب تک جو کچھ سنایا پڑھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ مودی سرکار کا ایک سال ان کی بدقسمتی کا سال ثابت ہوا۔ اس کی وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ وہ ایک سو پچیس کروڑ کے ملک کو چھ کروڑ کے گجرات کی طرح چلانا چاہتے ہیں۔ جو پرانے صحافی ہیں یا جو بکے ہوئے چینل نہیں ہیں وہ کسی کے مخالف نہیں ہوتے۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ ان کے اکثر وزیر ان کی ٹیم کی طرح کام نہیں کرپارہے ہیں اس لئے کہ ان کو کسی پر اعتماد نہیں ہے۔ مودی صاحب نے وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد تمام اہم سکریٹریوں سے ملاقات کی تھی۔ ان کا یہ کہنا کہ آپ لوگ کسی وزیر سے ڈریئے گا نہیں۔ اگر کوئی وزیر آپ کے نزدیک غلط کام کرانا چاہے تو مجھے فون کردیجئے گا۔ ہوسکتا ہے ہر وزیر اعظم حکومت کے سکریٹریوں سے ایسی بات کہتے رہے ہوں لیکن ہم نے کبھی نہیں سنا کہ 80-70 سکریٹری لائن میں کھڑے ہوں اور وزیر اعظم ان سے اس طرح ملاقات کررہے ہوں جیسے دوسرے ملک کے وزیروں کا تعارف کرایا جاتا ہے اور اس انداز سے ان سے بات کی ہو کہ جیسے آپ لوگ تجربہ کار اور قابل اعتماد ہیں اور وزیر ناتجربہ کار اور ناقابل بھروسہ۔
جن لوگوں نے متھرا کی تقریر سنی ہوگی انہوں نے اندازہ کرلیا ہوگا کہ وہ گھوم پھر کر ماں بیٹے کی سرکار کے گرد ہی گھوم رہے تھے جیسے ایک سال پہلے الیکشن میں گھوما کرتے تھے۔ انہوں نے ہر اسکیم کے متعلق بتایا لیکن کسی کے متعلق یہ نہیں کہا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ صرف بی جے پی کے لوگ وہ کہہ رہے ہیں جو مودی کہلا رہے ہیں ورنہ ہر زبان سے ان کا کسان مخالف اور غریب مخالف ہونا نکل رہا ہے۔ ہم دوسروں کی کیا بات کریں خود ہم نے ان کی باتوں سے یہ اندازہ کیا تھا کہ وہ ملک کے اس ڈھانچہ کو بدلیں گے جو نہرو نے ماؤنٹ بیٹن کی محبت اور یوروپین کلچر کی عظمت کی وجہ سے بنایا تھا لیکن دکھانے کو انہوں نے آدھی آستین کا کرُتہ پہن کر اپنی کفایت شعاری دکھائی اور کروڑوں کے سوٹ کا تحفہ قبول کرتے وقت ان کے ہاتھ نہیں کانپے۔
یوں تو وہ گاندھی گاندھی بھی کرتے ہیں اور ایک مثالی شخصیت دین دیال اُپادھیائے کی چوکھٹ پر ماتھا بھی ٹیکنے پہونچ گئے۔ جنہوں نے اپنے عروج کے زمانہ میں بھی کبھی سوٹ نہیں پہنا۔ لیکن مودی پہلے ہندی بولوں گا سے ہٹے پھر بند گلے کے کوٹ کو بھی نمستے کہا اور اب تھری پیس سوٹ بھی شروع کردیا۔ جبکہ پہلے وزیر اعظم اور پہلے صدر جمہوریہ سے لے کر چودھری چرن سنگھ تک شیروانی اور چوڑی دار پائجامہ کو ہندوستان کی تہذیب مانتے رہے ہیں۔
کل یہ صاف محسوس ہورہا تھا کہ مودی اپنی ناکامیوں کے بوجھ میں دب کر اپنی صفائی دے رہے تھے اور اپنی فطرت اور عادت کے مطابق منھ زوری کررہے تھے۔ اس کے برعکس کجریوال کامیابیوں کی پھلجھڑیاں چھوڑ رہے تھے اور سیسودیہ ثابت کررہے تھے کہ انہیں کجریوال نے اپنا دست و بازو بناکر غلط نہیں کیا۔ جشن دو تھے لیکن بڑا جشن رسم محسوس ہورہا تھا اور چھوٹا حقیقی جشن۔ دعا ہے کہ دونوں اب منائیں تو رسم نہ ہو جشن ہی ہو۔
جواب دیں