نقی احمد ندوی
ریاض، سعودی عرب
جب آپ ایک سمت اور ایک جہت میں چلتے ہیں تو چاہے آپ آہستہ چلیں، مگر ایک نہ ایک دن آپ اپنی منزل پرضرور پہنچ جائیں گے۔ آپ نے کبھی کسی ایسی ٹرین یا پلین کا ٹکٹ لیا ہے جس کے بارے میں آپ پتہ نہیں کہ وہ کہاں جائے گی، مگر آپ نے ٹکٹ خرید لیا ہے، ہرگز نہیں۔تو پھر ہم زندگی کے سفر پر کیسے نکل سکتے ہیں اور ہمیں پتہ نہیں کہ سمندر کے کس ساحل پر یہ زندگی ہمکنار ہوگی، جب کوئی طالب علم اپنی زندگی کا ایک مقصد اور مشن طے کرلیتا ہے تو پھر اس کے اندر توانائی، حوصلہ، لگن، یکسوئی، وقت کے صحیح استعمال، حالات سے پنجہ آزمائی، طوفانوں سے مقابلہ آرائی اور ایک ایسا جوش و ولولہ پیدا ہوجاتا ہے جس کی بنیاد پر وہ غیر معمولی کارنامے اور حیرت انگیز کرشمے کردکھاتا ہے۔
اور ایسا ہی حیرت انگیزکرشمہ ویلما روڈولف (Wilma Glodean Rudolph) نے کردکھایا، ایک معمولی گھرانہ میں پیدا ہونے والی لڑکی جو پولیو کی وجہ سے چلنے سے معذور تھی، ڈاکٹروں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ کبھی چل نہیں پائے گی، جب وہ محض چار سال کی تھی تو اس کو پولیو ہوگیا اور اس کا بایاں پیر مفلوج ہوگیا، وہ اپنے ناتواں اور کمزور پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکتی تھی لہٰذا ڈاکٹروں نے اس کے پیرمیں Braceلگادیا تاکہ اس کے سہارے وہ چل سکے۔ جب وہ نو برس کی ہوئی تو ڈاکٹروں نے آرتھوپیڈک جوتے کے استعمال کی صلاح دی۔ ویلما کے پیر گرچہ کمزور تھے مگر ا س کے حوصلے انتہائی بلند تھے، وہ دوسرے بچوں کو دوڑتے بھاگتے دیکھتی تھی تو سوچتی تھی کہ وہ بھی دوڑنا چاہتی ہے، مگر اس کے کمزور پیر اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ایک روز ویلما نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ نہ صرف دوڑنا چاہتی ہے، بلکہ وہ دنیا کی سب سے تیز دوڑنے والی لڑکی بننا چاہتی ہے۔ ویلما نے یہ طے کیا کہ چاہے، جو کچھ بھی ہوجائے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوکررہے گی۔ اس عظیم الشان مقصد نے ویلما کے اندر ایک نئی روح اور ایک نئی جان پھونک دی، وہ تکلیف اور درد کے باوجود چلنے کی پریکٹس کرنے لگی۔ 1940ء میں پیدا ہونے والی لڑکی جو اپنے پیروں سے لاچار تھی، اپنی زندگی میں مخالف طوفان سے لڑنے نکل گئی تھی۔ اس نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا اور ایک دن ایسا آیا کہ وہ بغیر کسی سہارے کے چلنے لگی۔ 1952ء یعنی گیارہ سال کی عمر میں وہ دوڑنے لگی۔ ویلما کہتی ہے کہ ا سوقت میں اپنی گلی اور محلہ کے تمام لڑکوں اور لڑکیوں سے کودنے پھاندنے اور ریس کا مقابلہ کرنے لگی تھی۔
ویلما جس اسکول میں پڑھتی تھی وہاں وہ کھیل کود میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی اس کے اسکول میں باسکٹ بال کھیلاجاتا ہے جس میں وہ دوسرے طلباء کے ساتھ کھیلتی تھی مگر ویلما کی ایک خوبی ایسی تھی جو دوسرے بچوں میں مفقود تھی، وہ دوڑتی بہت تیز تھی، اسکول کے کوچ نے ویلما کی اس خوبی کو نوٹ کیا اور اسے مشورہ دیا کہ باسکٹ بال کے بجائے وہ (Sprints) میں حصہ لے۔ اسپرنٹس مختصر فاصلے کے دوڑکے مقابلے کو کہا جاتا ہے۔ ویلما نے دوڑنے کی باقاعدہ ٹریننگ لینی شروع کی اور بہت جلد ہی نیشنل اور انٹرنیشنل مقابلوں میں حصہ لینے کے قابل ہوگئی۔ اسی درمیان آسٹریلیا کے میلبورن میں اولمپک کا مقابلہ ہونے والا تھا، ویلما نے اس میں حصہ لیا اور کانسہ کا تمغہ جیتا۔ یہ1956ء اولمپکس گیم تھا اور ویلما کی یہ پہلی جیت تھی، اس وقت ویلما کی عمر سولہ سال تھی۔ 1960ء کے اولمپک گیمس سے پہلے ہی ویلما نے دوسو میٹر کی ریس 22.9سیکنڈ میں جیت کر ورلڈ ریکارڈ قائم کردیا تھا، اور 1960ء میں روم کے اولمپکس ریس میں سو میٹر11.3سیکنڈ، دو سو میٹر23.2سیکنڈ اور 4×100میٹر کی ریس جس کی وہ ٹیم ممبر تھیں 44.4سیکنڈ میں جیت کر تین گولڈ میڈل جیت لیا۔اس طرح ایک معذور لڑکی امریکہ کی وہ پہلی خاتون کھلاڑی بن گئی جس نے ایک ہی اولمپک میں تین ریسوں میں لگاتار جیت کر تینوں گولڈ میڈل اپنے نام کیے تھے۔(1)
ایک معذور اور اپاہج لڑکی جس کو ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ کبھی چل نہیں پائے گی اپنے عزم و حوصلے کی ایسی کہانی لکھ رہی تھی جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئی۔ چنانچہ ویلما کو جہاں بہت سارے انعامات و اعزازات سے نوازا گیا وہیں امریکی حکومت نے ویلما کے نام سے ایک ایوارڈ کا آغاز کیا جو خواتین کھلاڑیوں کی شاندار کارکردگی پر دیا جاتا ہے۔ اس ایوارڈ کا نام ویلما روڈولف کریج ایوارڈ ہے۔
ویلما کی کہانی اس بات کا درس دیتی ہے کہ اگر عزم پختہ، حوصلہ جوان اور دل جیتنے کے جذبے سے معمور ہو اور سامنے ایک شاندار مقصد اور مشن ہو تو ایک انسان حیرت انگیز کارنامے انجام دے سکتا ہے۔ مارک ٹوین ایک مشہور امریکی مصنف، افسانہ نویس اور ناول نگار ہیں، جن کی ادبی تخلیقات امریکن کلاسیکل ادب میں ایک مایہ ناز مقام رکھتی ہیں، ان کا مشہور قول ہے”آپ کی زندگی میں دو دن ایسے ہیں جو بہت اہم ہیں۔ پہلا دن وہ جس دن آپ پیدا ہوئے، دوسرا دن وہ جس دن آپ کو یہ انکشاف ہوگیا کہ آپ کیونکر پیدا ہوئے۔“ َ اگر آپ بھی چاہیں تو کوی بھی مقصد حاصل کرسکتے ہیں مگر شرط یہ ہیکہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ حاصل کرنا کیا ہے اور زندگی کا مقصد کیا ہے۔ اس دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں، اس لیئے ہمت مت ہاریے اور جو کچھ آپ نے سوچا ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کیجیے، چاہے وہ آپ کا کوئی ذاتی مقصد ہو یا کوئی ملی اور سماجی مقصد بس ایک سمت میں چلتے رہیے ایک نہ ایک دن آپ اپنی منزل پر ضرور پہونچ جایں گے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں