وقف قانون کو چیلنج کرنےو الی عرضیوں پر سپریم کورٹ میں 16 اپریل کوہوگی سماعت

سپریم کورٹ میں 16 اپریل کو وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف دائر تقریباً 15 عرضیوں پر سماعت متوقع ہے، جن میں اس قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔ ان عرضیوں میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون آئین کے آرٹیکل 14، 15، 21، 26، 29، 30 اور 300-A سمیت کئی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے اور مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر ضرب لگاتا ہے۔

وقف ترمیمی قانون پر پارلیمنٹ میں بحث کے دوران اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو اور وزیر داخلہ امت شاہ نے بارہا واضح کیا کہ اس قانون کا اطلاق سابقہ تاریخوں سے نہیں ہوگا اور یہ صرف قانون بننے کے بعد کے معاملات پر لاگو ہوگا۔ 9 اپریل کو صدر کی منظوری کے بعد جاری ہونے والے گزٹ نوٹیفکیشن میں بھی یہی بات کہی گئی۔

تاہم، قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے وکیل عباد الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اس قانون میں کچھ پیچیدگیاں ایسی ہیں جن کی بنیاد پر یہ پرانے معاملات پر بھی لاگو ہو سکتا ہے، خاص طور پر ان جائیدادوں پر جن کے وقف ہونے کے کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہیں۔

یہ نیا قانون سپریم کورٹ کے اس اصول سے متصادم ہے جو ’وانس اے وقف، آلویز اے وقف‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس اصول کے مطابق جو جائیداد ایک بار وقف ہو گئی، وہ ہمیشہ کے لیے وقف رہے گی۔ یہ اصول عدالت نے 1954 میں رتی لال پنچاند گاندھی بمقابلہ ریاست بمبئی کے فیصلے میں بیان کیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتِ ہند کے تحت قائم محکمہ ’وقف اثاثہ جات منیجمنٹ سسٹم آف انڈیا‘ جس کا کام ملک بھر کی وقف جائیدادوں کا ڈیٹا محفوظ رکھنا ہے، اسی اصول کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہے۔

اس وقت سپریم کورٹ میں جن عرضیوں پر سماعت ہونی ہے، ان میں سیاسی رہنما، مذہبی تنظیمیں اور شہری حقوق کے ادارے شامل ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ اس قانون کی مخالفت کس قدر وسیع ہے۔ عرضی گزاروں کی پہلی کوشش یہی ہے کہ عدالت اس قانون کے اطلاق کو فوری طور پر معطل کر دے۔ ان میں بہار کے کشن گنج سے کانگریس کے رکنِ پارلیمان محمد جاوید بھی شامل ہیں۔ ان کے وکیل انس تنویر کے مطابق وہ پہلی ہی سماعت میں حکمِ امتناعی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ تاہم وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا کرنا آسان نہیں کیونکہ قانونی اصول یہ ہے کہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ قانون کو آئینی تصور کیا جاتا ہے جب تک کہ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ اسے خلافِ آئین قرار نہ دے۔

تنویر نے مزید بتایا کہ حکومت نے مقدمے کے آغاز میں ہی کیویٹ (اعتراض کی درخواست) دائر کر دی ہے تاکہ عدالت یکطرفہ طور پر کوئی فیصلہ نہ دے۔ ان کے مطابق ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے جب حکومت اتنی پیشگی احتیاط برتے۔

سپریم کورٹ عمومی طور پر اس اصول پر عمل کرتی ہے کہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ قانون آئینی ہوتا ہے، جب تک کہ اسے غیر آئینی قرار دینے کے لیے ٹھوس شواہد پیش نہ کیے جائیں۔ کامیاب چیلنج کے لیے عرضی گزار کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ قانون نے واضح طور پر کسی بنیادی حق یا آئینی دفعہ کی خلاف ورزی کی ہے۔

ماضی میں سپریم کورٹ نے کئی قوانین کو آئینی بنیادوں پر چیلنج سنا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 13 اس کی اجازت دیتا ہے کہ اگر کوئی قانون بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ غیر آئینی قرار دیا جا سکتا ہے۔

دو اہم مثالیں یہاں پیش کی جا سکتی ہیں: پہلی، شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) 2019 جس پر ملک گیر احتجاج ہوا اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ حکومت نے اس قانون کی عمل آوری کا نوٹیفکیشن پانچ سال بعد 2024 میں جاری کیا۔

دوسری مثال 2020 میں لائے گئے زرعی قوانین کی ہے، جن پر زبردست احتجاج ہوا۔ سپریم کورٹ نے ان معاملات میں مداخلت کی اور ان پر عارضی پابندی لگا دی۔

وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف دائر عرضیوں میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے مذہبی اداروں اور وقف جائیدادوں کے انتظامی حقوق کو مجروح کرتا ہے۔ عرضی گزاروں کے مطابق یہ قانون فرقہ وارانہ نوعیت رکھتا ہے اور شریعت کے اصولوں سے متصادم ہے۔ خاص تشویش اس بات پر ہے کہ قانون کے تحت ہر جائیداد کی تفصیل آن لائن اپلوڈ کرنا لازم قرار دیا گیا ہے، جو اُن تاریخی وقف جائیدادوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے جن کے دستاویزات موجود نہیں۔

عرضی گزاروں کی فہرست میں کئی ممتاز شخصیات اور ادارے شامل ہیں:

– محمد جاوید، کشن گنج سے کانگریس ایم پی، وقف بل پر قائم مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے رکن

– اسدالدین اویسی، سربراہ اے آئی ایم آئی ایم و حیدرآباد سے ایم پی

– امانت اللہ خان، دہلی کے اوکھلا سے عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے

– ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس

– مولانا ارشد مدنی، جمعیۃ علماء ہند کے صدر

– سمست کیرالہ جمعیۃ العلماء، کیرالہ کی سنی تنظیم

– اے راجہ، ڈی ایم کے کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری اور ایم پی

– عمران پرتاپ گڑھی، کانگریس کے راجیہ سبھا ایم پی

– آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

– منوج جھا، راشٹریہ جنتا دل کے راجیہ سبھا ایم پی

– فیاض احمد، آر جے ڈی رہنما

– انجمن قادری، سماجی کارکن

مزید کچھ افراد اور ادارے بھی ہیں جنہوں نے عرضیاں دائر کی ہیں لیکن ان کے نام منظرِ عام پر نہیں آئے ہیں۔

چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے 7 اپریل کو کہا تھا کہ عدالت اس اہم معاملے پر جلد سماعت کرے گی، جس کے بعد 16 اپریل کی تاریخ طے کی گئی۔ اب سب کی نظریں اس بات پر لگی ہیں کہ عدالت اس قانون کو آئینی تسلیم کرتی ہے یا بنیادی حقوق کے منافی قرار دے کر کالعدم کرتی ہے۔

وقف پر سرکاری شکنجہ؟ امیر شریعت نے اٹھائے سخت سوال، گنائیں ۴۴ بڑی خامیاں

وقف قانون مخالف تحریک مفاد پرستوں کے نشانے پر