تمل ناڈو: تاریخ میں پہلی بار گورنر یا صدر کی منظوری کے بغیر ۱۰؍قوانین کا نفاذ

چنئی – ہندوستان کی سیاست میں ایک منفرد اور تاریخی باب کا اضافہ اُس وقت ہوا جب تمل ناڈو حکومت نے سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کی روشنی میں دس قوانین کو گورنر کی رسمی منظوری کے بغیر نافذ کر دیا۔ ریاستی حکومت نے ان قوانین کو سرکاری گزٹ میں شائع کرتے ہوئے ان کے فوری نفاذ کا اعلان کیا، جس سے ملک میں آئینی عمل اور گورنری کردار کے درمیان جاری کشمکش کو ایک نئی جہت ملی ہے۔

یہ پہلا موقع ہے جب کسی ریاست نے محض عدالتِ عظمیٰ کے حکم کی بنیاد پر قانون کو نافذ کیا ہے، بغیر اس کے کہ ان پر گورنر یا صدر جمہوریہ کے دستخط موجود ہوں۔ ان میں سے زیادہ تر قوانین کا تعلق ریاستی یونیورسٹیوں کے انتظامی ڈھانچے سے ہے، جن کے ذریعے گورنر کو چانسلر کے منصب سے ہٹا کر وہ اختیارات ریاستی حکومت کو منتقل کیے گئے ہیں۔

یہ تمام بلز 2020 سے 2023 کے درمیان ریاستی اسمبلی سے پاس ہوئے تھے، لیکن گورنر آر این روی نے انھیں منظوری دیے بغیر طویل عرصہ التوا میں رکھا۔ ریاستی حکومت نے اس عمل کو جمہوری نظام کے خلاف قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔

سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ، جس میں جسٹس جے بی پاردیوالا اور جسٹس آر مہادیون شامل تھے، نے آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت اپنے غیر معمولی اختیارات استعمال کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ جن بلز کو اسمبلی نے دوبارہ منظوری دے کر گورنر کو بھیجا، انہیں اسی دن سے قانونی حیثیت حاصل ہوگی، جس دن وہ واپس بھیجے گئے تھے۔

عدالت نے واضح طور پر کہا کہ گورنر کا کردار محض ایک رسمی ذمہ داری ہے، اور وہ عوام کے منتخب ادارے یعنی اسمبلی کے فیصلے کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ عدالت نے گورنروں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے عہدے کی آئینی حیثیت کو سمجھیں اور پارلیمانی جمہوریت کے احترام کو ترجیح دیں۔

ڈی ایم کے سے تعلق رکھنے والے ممتاز وکیل اور رکن پارلیمنٹ پی ولسن نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ہندوستان کی جمہوری تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب سپریم کورٹ کے حکم پر ایسے قوانین نافذ کیے گئے جن پر گورنر یا صدر کے دستخط نہیں تھے۔ ان کے مطابق، "یہ عدلیہ کی بالادستی اور ریاستی خودمختاری کی جانب ایک فیصلہ کن قدم ہے۔”

یہ اقدام نہ صرف دیگر ریاستوں کے لیے نظیر بن سکتا ہے بلکہ گورنروں کے کردار پر جاری بحث کو بھی ایک نئے زاویے سے پیش کرتا ہے۔ کیا دیگر ریاستیں بھی اس نظیر کو اپنائیں گی؟ اور کیا مرکزی حکومت آئندہ ایسے معاملات میں کوئی واضح آئینی پوزیشن اختیار کرے گی؟ وقت ہی اس کا جواب دے گا، لیکن تمل ناڈو نے ایک نئی راہ ضرور ہموار کر دی ہے۔

وقف قانون میں نئی ترمیمات دستور ہند سے متصادم ہیں

وقف پر سرکاری شکنجہ؟ امیر شریعت نے اٹھائے سخت سوال، گنائیں ۴۴ بڑی خامیاں