تعلیمی اداروں کوبامقصد بنائیے

عموماًتعلیمی اداروں کا قیام لوگ اس لیے کرتے ہیں کہ بچوں کو معلومات فراہم کی جائیں یعنی صرف ڈگری کا حصول ان کا مقصودہوتا ہے تاکہ وہ اچھی پیشہ ورانہ زندگی گزار سکیں اور زیادہ سے زیادہ پیسہ کما سکیں چنانچہ طلبہ ہر وقت لکھنے پڑھنے میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی پوری توجہ اپنی قابلیت بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ نمبرات حاصل کرنے پر مرکوز رہتی ہے۔جن لوگوں کا مقصد محض حصول علم ہوتا ہے، ایسے لوگ سماج کے لیے زیادہ مفید ثابت نہیں ہوپا تے بلکہ بسا اوقات معاشرہ کے لیے نقصان کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس بے مقصد تعلیم کے سلسلہ میں اکبر الہ آبادی نے کہا تھا ؎
ہم کیا کہیں احباب کیا کار نمایاں کر گئے
بی، اے ہوئے ، نوکر ہوئے، پنشن ملی اور مر گئے
ایک انجینئر بلڈنگ کی تعمیر کراتے ہوئے اس کی پائیداری کے بارے میں کم اپنی جیب بھرنے کے بارے میں زیادہ سوچتا ہے۔اسی طرح ایک ڈاکٹر کو مریض کی بیماری سے زیادہ اس کی جیب سے پیسہ نکالنے کی فکر ہوتی ہے۔
ہمارے دینی تعلیمی ادارے جنہیں عموماً’’ مدارس اسلامیہ‘‘ کہاجاتا ہے وہاں بھی نصابی کتب کی تکمیل ، علوم کی صیانت و حفاظت اور اپنے مسلک کی ترجیح و برتری مقصود ہوتی ہے۔
ایک بار علی الصباح مفتی محمد شفیع عثمانی علیہ الرحمۃ،حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کمرے میں ان سے ملاقات کے لیے گئے تو دیکھا کہ علامہ بہت فکر مند بیٹھے ہیں۔ مفتی صاحب نے پوچھا ، حضرت آپ متفکر نظر آرہے ہیں،کیا معاملہ ہے ؟ علامہ نے فرمایا :۔’’مجھے اس بات کا غم ہے کہ ہم نے اپنی عمر ضائع کردی۔‘‘ مفتی صاحب نے کہا۔’’ حضرت آپ نے تو دین اسلام کی بڑی خدمت کی ہے ، علوم اسلامیہ کی ترویج واشاعت میں آپ کا بڑا رول ہے۔ آپ کے ہزاروںشاگرد پوری دنیا میں دین کی اشاعت و تبلیغ اور درس و تدریس میں مصروف ہیں۔‘‘علامہ نے فرمایا: ’’اصلاًجو کام کرنے کے ہیں ،ہم نے ان میں سے کوئی کام نہیں کیا ، ہم نے اپنی پوری صلاحیتیں ’’حنفیت‘‘کی ترجیح ثابت کرنے میں صرف کردیں۔‘‘
آج ہندوستان کے دینی مدارس میں قرآن و حدیت کوبھی مسلکی نقطہ نظر سے پڑھایا جاتا ہے۔ ہرمسلک والے اپنے اپنے مسلک کی ترجیح پر زور واستدلال صرف کرتے ہیں۔ تعلیمی نظام و نصاب میں بدلتے حالات کے پیش نظر معمولی تبدیلی بھی انھیں گوارا نہیں۔ یہ وہ صورت حال ہے جس کی وجہ سے ہمارے مدارس زندہ و متحرک قیادت پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔
جو مدارس یا اسکول بچوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت اور بدلتے حالات کے تناظر میں نصاب و نظام میں کوئی تبدیلی بھی کرتے ہیں تو ان کے سامنے بھی کوئی وژن اور بلند مقصد نہیں ہوتا ہے ،نہ ہی وسائل اس کے مطابق ہوتے ہیں۔ مقاصدو وسائل کا فقدان ان کی کوششوں کو بھی زیادہ نتیجہ خیز نہیں ہونے دیتے۔
تعلیمی اداروں کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کا مقصد (Vision) اس کے بانیان اور اساتذہ کے سامنے واضح ہو اوراسی کے مطابق وسائل بھی مہیا ہوں تاکہ اداروںکا معیار بھی بلند ہوسکے اور اس کے بہترنتائج ) Output ) بھی حاصل ہو سکیں۔
بعض ماہرین تعلیم نے جو مقاصد بیان کیے ہیں انھیں مختصراًیہاں بیان کیا جا رہا ہے۔
٭ارسطو کے نزدیک تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ انسان مخلصانہ نیکیاں کر کے مسرت و شادمانی حاصل کرے۔
٭ ڈیوڈسن (Davidson) کا ماننا ہے کہ تعلیم کا بنیادی مقصدشعوری ارتقاء ہے۔
٭ مانٹین (Mountain) کے بقول تعلیم ایک ایسا فن ہے جس کے ذریعہ ماہر خصوصی نہیں بلکہ انسان بنائے جاتے ہیں۔
٭ ہر مارٹ (Hermart) کے نزد یک تعلیم کا اعلیٰ مقصد اخلاق کی تعمیر ہے۔
٭فروبل (Frobel) کے نزدیک تعلیم کا مقصد انسان کو پرخلوص اور پاک صاف زندگی گزارنے کے قابل بنانا ہے۔
٭پین (Pen)کے بقول تعلیم کے ذریعہ مثالی انسان کی تکمیل ہے۔
ایڈیسن Edisan)) کے نزدیک تعلیم کی غرض وغایت یہ ہے کہ انسان کی روح کو اس طرح تراشا جائے جیسے پتھر کوتراش کر سنگِ مرمر تیار کیا جاتاہے۔
٭آرکٹ(Orcket)کہتا ہے کہ تعلیم کا مقصد قوت وصلاحیت کی تربیت کرنا ہے۔
٭کارل مارکس ( Karl Marx) اور اشتراکیوں کے نزدیک تعلیم کا مقصد انسان کو بے نفس خادم اور معاشی حیوان بناناہے۔
٭سرسید کے نزدیک تعلیم کا یہ مقصد تھا کہ معاشرہ کی دینی سطح بلند ہو اور معاشرتی و اقتصادی حالت بہتر سے بہتر ہو۔
٭ مولانا افضل حسین ؒکے نزدیک تعلیم کا مقصد انسان کو اللہ کا صالح بندہ بنانا ہے۔
مذکورہ مقاصد تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تعلیم کا مقصدانسانی جذبات واحساسات اور اخلاق و اعمال کی ایسی تربیت کرنا کہ وہ ایک مکمل انسان بن جائے جو خود اپنے لیے اور معاشرہ و ریاست کے لیے مفید ہواور وہ اپنی زندگی اللہ کے بندے کی حیثیت سے گزار سکے۔
تعلیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان کو اس کے مقصد وجود سے متعارف کرایا جائے ۔اپنے خالق سے اس کی شناسائی کرائی جائے ۔اسے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کون ہے ؟کہاں سے آیا ہے ؟اسے کیوں پیدا کیا گیا ہے ؟اس کے فرائض و اختیارات کیا ہیں ؟خالق کی جانب سے اس کی رہنمائی کا کیا نظم کیا گیا ہے ؟اوروہ کس کے سامنے جوب دہ ہے ؟طلبہ کواگر ان سوالوں کا جواب تشفی بخش دے دیا جائے توآپ دیکھیں گے کہ وہ طلبہ اپنی عملی زندگی میں تمام دنیا کے لیے خیر کا سرچشمہ ہوں گے ۔وہ گھر میں ایک اچھے بیٹے کا فرض نبھائیں گے ،وہ اپنی اولاد کے لیے نمونہ ہوں گے ۔وہ اپنے بھائیوں ،عزیزوں اور اپنے ہمسائیوں کے معاون و مدد گار ہوں گے ۔وہ مریضوں سے ہمدردی رکھنے والے ڈاکٹرس ہوں گے ۔وہ عوام کی فلاح چاہنے والے منتظم ہوں گے ،وہ ملک کی سالمیت ،اور اس کے استحکام کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے والے فوجی ہوں گے اور وہ اپنی رعایا کے سکھ ،چین کے لیے راتوں کو ان کی خبرگیری کرنے والے حاکم اور فرماں روا ہوں گے ۔اس لیے تعلیمی اداروں کو اپنے نظام تعلیم میں مذکورہ بالا سوالوں کے جوابات پر مشتمل نصاب تعلیم کا تعین کرنا چاہئے۔
موجودہ دور میں ساری دنیا میں بالعموم اور بھارت میں بالخصوص عوام اور حکام کے اندر کرپشن اور بدکرداری کے جو جراثیم پائے جاتے ہیں ان کی وجوہات میں سب سی بڑی وجہ تعلیمی نظام میں اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے والی درسیات اور ایسے اساتذہ کا فقدان ہے جو طلبہ کے لیے مثال اور نمونہ ہوں۔بھارت میں ہر بیس منٹ پر عصمت دری کا واقعہ ہورہا ہے اور ان میں سے بہت سے واقعات میں عصمت کے لٹیرے وہ ہیں جن کے پاس اعلیٰ تعلیمی اسناد ہیں ۔ڈاکٹرس اپنی نرسوں کے ساتھ ،اساتذہ اپنی شاگردوں کے ساتھ ،سرکاری بس ڈرائیور اپنے مسافروں کے ساتھ یہ گھنائونا جرم کررہا ہے ۔کلکتہ ریپ کیس تو محض ایک نمونہ ہے ،دیش میں نہ جانے کتنے حادثات ہیں جو رپورٹ تک نہیں ہوتے تازہ واقعہ ایک فوجی کی بیوی کا ہے جس نے خلاصہ کیا ہے کہ ایک پولس آفیسر نے اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے۔حد یہ ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ کے جج کی جانب سے ایک خاتون وکیل کے لیے غیر مہذب الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔جس کا سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا ہے ۔بدعنوانی ،ملاٹ و جمع خوری ،رشوت و کالابازاری جیسے جرائم کے بارے میں تو آج کوئی گفتگو تک نہیں کرتا اس لیے کہ بھارتی سماج ان سے بڑے جرائم میں ملوث ہے ۔
آج ضرورت ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام پر از سر نو غور کریں ۔اسکول اور کالج ہی وہ فیکٹریاں جہاں انسان ڈھالے جاتے ہیں ۔یہ فیکٹریاں ہی اگر خراب پارٹس بنانا شروع کردیں گی ،تو سماج کو اچھے انسان کہاں سے میسر آئیں گے ۔حکومت کو تمام عصبیتوں سے بالاتر ہوکر تعلیم کے شعبہ کی تطہیر کرنا چاہئے ۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ۔

«
»

انجمن حمایت اسلام مونگیر میں شعبہ دارالحکمت کا آغاز

کیا یہ ممکن ہے ! خواب میں لاش دیکھی اور پھر۔۔۔۔