کیا ہر کشمیری دہشت گرد ہے؟ محبوبہ مفتی کا ہزاروں کشمیریوں کی گرفتاری پرسخت ردعمل، ایل جی سے کی بے گناہوں کو رہا کرنے کی اپیل

 جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سیکوریٹی ایجنسیوں سے تحمل برتنے کی اپیل کرتے ہوئے بے قصور شہریوں کے قتل کی مذمت کی ہے۔ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ ’’پہلگام حملے کے خلاف کشمیری عوام نے نہ صرف بڑے پیمانے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا، بلکہ معاملہ کی تحقیقات میں سیکوریٹی ایجنسیوں اور حکومت کا بھرپور ساتھ بھی دیا، تاہم اس کے باوجود  جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سیکوریٹی ایجنسیوں سے تحمل برتنے کی اپیل کرتے ہوئے بے قصور شہریوں کے قتل عام کی مذمت کی ہے۔ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ ’’پہلگام حملے کے خلاف کشمیری عوام نے نہ صرف بڑے پیمانے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا، بلکہ معاملہ کی تحقیقات میں سیکوریٹی ایجنسیوں اور حکومت کا بھرپور ساتھ بھی دیا، تاہم اس کے باوجود یہاں لوگوں کو نہ صرف ہراساں کیا جاتا ہے بلکہ خون بھی بہایا جاتاہے۔‘‘

پہلگام میں حالیہ دہشت گرد حملے کے بعد وادی کشمیر میں سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے جاری گرفتاریوں اور کریک ڈاؤن پر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے منگل کے روز لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کو ایک تحریری خط ارسال کیا، جس میں انہوں نے موجودہ سیکیورٹی کارروائیوں کو "اندھا دھند اور بے سمت کریک ڈاؤن” قرار دیا۔

محبوبہ مفتی نے خط میں انکشاف کیا کہ اب تک 3,000 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور قریب 100 افراد کے خلاف سخت پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ انہوں نے ان اقدامات کو اجتماعی سزا سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ "یہ رویہ نہ صرف کشمیری خاندانوں اور برادریوں کو بدظن کر رہا ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ ہم اس راستے پر جا کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟”

پی ڈی پی سربراہ نے ایل جی سنہا سے اپیل کی کہ بے گناہ افراد کی رہائی کو یقینی بنایا جائے، خاص طور پر امرناتھ یاترا سے قبل اس قسم کی کارروائیاں فوری بند کی جائیں تاکہ امن و امان قائم رہے۔
 محبوبہ مفتی نے پہلگام حملے کے بعد سیکوریٹی ایجنسیوں کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ’’کشمیر کے باشندوں کو پولیس اسٹیشن بلا کر گھنٹوں تک بٹھایا جاتا ہے اور کشمیری اس میں ایجنسیوں کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں لیکن  افسوس کی بات ہے کہ بانڈی پورہ اور کولگام میں دو حادثے رونما ہوئے، جو کئی سوالات کو جنم دیتےہیں۔‘‘
  محبوبہ مفتی نے پہلگام میں ایک عوامی وفد سے ملاقات کے دوران  یہ باتیں کہیں ۔ محبوبہ مفتی نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’بانڈی پورہ میں الطاف لالی نامی ایک شہری کو ہمشیرہ سمیت تھانے بلایا گیا اور دو دنوں بعد الطاف لالی کی لاش برآمد ہوتی ہے، جنوبی کشمیر کے ٹنگ مرگ، کولگام میں امتیاز کو فوج پکڑ کر لے جاتی ہے، اگلے روز اس کی لاش دریا سے برآمد ہوتی ہے۔‘‘ 
 محبوبہ نے ان دونوں واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ’’یہاں کے لوگ سیکوریٹی ایجنسیوں کو پوچھ تاچھ میں ہر طرح کا تعاون دیتے ہیں، افسوس ہے کہ ان شہریوں کی لاشیں بھیج دی جاتی ہیں، جب لوگ اپنا تعاون دینے کے لئے آگے قدم بڑھا رہے ہیں تو انہیں اپنانے کے بجائے ان پر سختی کیوں کی جا رہی ہے؟‘‘
 سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ الطاف لالی کا  جنگجوئیت کی آڑ میں انکاؤنٹر کردیاگیا جبکہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا  تھا، اس کے گھر میں دو بچے ہیں، ان کے بچوں کی دیکھ بال اب کون کرے گا؟ کولگام میں مارے جانے والا رئیس ماگرے ایک غریب مزدور تھا اس کا ایک چھوٹا بھائی ہے اس کی کفالت کون کرے گا؟
 پی ڈی پی سرپرست نے سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ’’کیا دوریاں مٹانے کا یہی طریقہ ہے، کیا ہر کشمیری کو دہشت گرد کی نظر سے دیکھا جائے گا؟‘‘ محبوبہ کا کہنا ہے کہ یہاں کے سب لوگ  حسین عادل شاہ کے مانند ہیں جس نے سیاحوں کو بچانے کیلئے اپنی جان دے دی۔
 انہوں نے مزید کہا کہ ’’کشمیریوں نے اس بار دہشت گردی کے خلاف متحد ہو کر قدم اٹھایا اور ملک کے ساتھ جڑے رہے۔ سرکار کو اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہئے، اگر عوام ایک قدم بڑھاتے  ہیں  تو سرکار کو دو قدم آگے بڑھنا چاہئے، خون خرابہ، پکڑ دھکڑ بند کرنی چاہئے اور انکاونٹر کے نام پر لوگوں کو لاشیں دینا بند کریں۔‘‘

یہاں لوگوں کو نہ صرف ہراساں کیا جاتا ہے بلکہ خون بھی بہایا جاتاہے۔‘‘
 محبوبہ مفتی نے پہلگام حملے کے بعد سیکوریٹی ایجنسیوں کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ’’کشمیر کے باشندوں کو پولیس اسٹیشن بلا کر گھنٹوں تک بٹھایا جاتا ہے اور کشمیری اس میں ایجنسیوں کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں لیکن  افسوس کی بات ہے کہ بانڈی پورہ اور کولگام میں دو حادثے رونما ہوئے، جو کئی سوالات کو جنم دیتےہیں۔‘‘
  محبوبہ مفتی نے پہلگام میں ایک عوامی وفد سے ملاقات کے دوران  یہ باتیں کہیں ۔ محبوبہ مفتی نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’بانڈی پورہ میں الطاف لالی نامی ایک شہری کو ہمشیرہ سمیت تھانے بلایا گیا اور دو دنوں بعد الطاف لالی کی لاش برآمد ہوتی ہے، جنوبی کشمیر کے ٹنگ مرگ، کولگام میں امتیاز کو فوج پکڑ کر لے جاتی ہے، اگلے روز اس کی لاش دریا سے برآمد ہوتی ہے۔‘‘ 
 محبوبہ نے ان دونوں واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ’’یہاں کے لوگ سیکوریٹی ایجنسیوں کو پوچھ تاچھ میں ہر طرح کا تعاون دیتے ہیں، افسوس ہے کہ ان شہریوں کی لاشیں بھیج دی جاتی ہیں، جب لوگ اپنا تعاون دینے کے لئے آگے قدم بڑھا رہے ہیں تو انہیں اپنانے کے بجائے ان پر سختی کیوں کی جا رہی ہے؟‘‘
 سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ الطاف لالی کا  جنگجوئیت کی آڑ میں انکاؤنٹر کردیاگیا جبکہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا  تھا، اس کے گھر میں دو بچے ہیں، ان کے بچوں کی دیکھ بال اب کون کرے گا؟ کولگام میں مارے جانے والا رئیس ماگرے ایک غریب مزدور تھا اس کا ایک چھوٹا بھائی ہے اس کی کفالت کون کرے گا؟
 پی ڈی پی سرپرست نے سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ’’کیا دوریاں مٹانے کا یہی طریقہ ہے، کیا ہر کشمیری کو دہشت گرد کی نظر سے دیکھا جائے گا؟‘‘ محبوبہ کا کہنا ہے کہ یہاں کے سب لوگ  حسین عادل شاہ کے مانند ہیں جس نے سیاحوں کو بچانے کیلئے اپنی جان دے دی۔
 انہوں نے مزید کہا کہ ’’کشمیریوں نے اس بار دہشت گردی کے خلاف متحد ہو کر قدم اٹھایا اور ملک کے ساتھ جڑے رہے۔ سرکار کو اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہئے، اگر عوام ایک قدم بڑھاتے  ہیں  تو سرکار کو دو قدم آگے بڑھنا چاہئے، خون خرابہ، پکڑ دھکڑ بند کرنی چاہئے اور انکاونٹر کے نام پر لوگوں کو لاشیں دینا بند کریں۔‘‘

کیا مودی کو تین دن پہلے انٹیلی جنس رپورٹ ملی تھی؟ پہلگام دہشت گردانہ حملے پر ملکارجن کھرگے کا بڑا الزام

ہند پاک کشیدگی ، کل 07 مئی کو کرناٹک کے تین اہم شہروں میں ماک ڈرل