ڈاکٹر سراج الدین
چیرمین ملت اکیڈمی
ملک میں منشیات کے بڑھتے استعمال نے ہر کسی کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔اعدادو شمار پر بھروسہ کریں تو بھارت میں فی خاندان ایک آدمی نشہ آور اشیاء کا استعمال کررہا ہے ،خواہ اس کی شکل گٹکا،پان والا تمباکو،حقہ ،بیڑی ،اور کھینی چینی ہی کیوں نہ ہو ۔اس کے علاوہ شراب ،افیم ،گانجہ اور چرس کا استعمال بھی پہلے کے مقابلے کئی گنا بڑھ گیا ہے ۔ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اب نشہ کے لیے ایسی چیزیں استعمال کی جانے لگی ہیں جن کو عرف عام میں نشہ آور نہیں کہا جاسکتا ۔مثلاً ٹائر پنکچرجوڑنے والا لوشن،انک کو مٹانے والا وہائٹنر وغیرہ ۔اسی کے ساتھ قابل افسوس امر یہ ہے کہ حکومتیں آبکاری ٹیکس وصولنے کے چکر میں اس جانب سنجیدگی سے متوجہ نہیں ہیں ۔
نشہ کیا ہے؟ہر وہ حالت جس میں انسان صحیح اور غلط کی تمیز کھودیتاہے ۔چاہے وہ شراب پی کر ہو یا کسی اور ذریعہ سے ۔دماغی توازن کو خراب کرنے والی اشیاء نشہ آور ہیں ۔عربی زبان میںخمر ہر اس شے کو کہتے ہیں جو عقل کو ڈھانپ لے، خواہ وہ کسی بھی شے سے بنی ہو۔ احادیث میں خمر کے بارے میں حکم ہے:۔ کُلُّ مُسْکِرٍ خَمْرٌ وَکُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ’’(ہر نشہ آور شے خمر ہے اور ہر خمر حرام ہے۔)بعض لوگ کہتے ہیں کہ جو لوگ شراب کے عادی ہوتے ہیں انھیں شراب پی کر نشہ نہیں ہوتا اور ان کا دماغی توازن برقرار رہتا ہے اس لیے وہ چیز ان کے کیوں کر ممنوع ہوسکتی ہے ۔اول تویہ بات سو فیصد درست نہیں ہے اور اگر بالفرض تسلیم بھی کرلیا جائے کہ بعض لوگوں کو شراب یا تمباکو کا نشہ نہیں ہوتا ،لیکن اس کے نقصان دہ ہونے پر تو ساری دنیا کے اہل عقل و فہم متفق ہیں ۔اگر ایسا نہیں ہے تو سگریٹ اور گٹکوں کے پیکٹ پر وارننگ کیوں درج کی جاتی ہے ۔شراب کے خلاف اشتہار بازی پر رقم کیوں خرچ کی جارہی ہے ،نشہ مکت کیندر کیوں قائم کیے جارہے ہیں ۔اسلام میں حرام اشیاء میں قلت و کثرت کی قید نہیں ہے بلکہ جس کا کل حرام ہے اس کا جز بھی حرام ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے UNODC کی 2020 ورلڈ ڈرگ رپورٹ کے مطابق، 35 ملین سے زیادہ لوگ منشیات کے استعمال کے نتائج سے دوچار ہوئے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا میں تمباکو کے استعمال سے ہر سال 8 ملین سے زیادہ لوگ مرتے ہیں جن میں سے 1.2 ملین اموات صرف غیر فعال تمباکو نوشی سے ہوتی ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک اور رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں دس لاکھ سے بھی زیادہ افراد ہیروئن کے عادی بن گئے ہیں۔ملک کے مختلف حصوں میں تمباکو،بھنگ، چرس،گانجا، ہیروئن، سفید پاؤڈر، براؤن شوگر، افیون، نشہ آور پکوڑے، بھنگ کے پاپڑ اور اس کے علاوہ نشہ آور ادویات سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی چیزیں ہیں جن میں کوریکس، نشہ آور انجیکشن اور نشہ آور گولیاں بھی شامل ہیں۔ یہ مادے کئی طرح سے لئے جاتے ہیں، کچھ کو کھایا جاتا ہے کچھ کو سونگھ کر لیا جاتا ہے اور کچھ انجیکشن کے ذریعے نس میں چڑھایا جاتا ہے۔ آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (ایمس) کے ذریعے کیے گئے ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں تقریباً 8,50,000 بچے انجیکشن کے ذریعے منشیات لیتے ہیں، قریب 4,60,000 بچے اور 18,00000 بالغ سونگھ کر نشیلی ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔شراب پینے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اورتمباکو کا استعمال اس قدرعام ہو گیاہے کہ بھارت جیسے ملک میں اس کے استعمال کنندگان کا شمار ہی ممکن نہیں ہے۔
منشیات کے کثرت استعمال میں کارفرما سب سے اہم عنصر یہ ہے کہ کم قیمتوں پر منشیات تک رسائی آسان ہے،شراب کے اڈوں کو تو حکومت کی جانب سے لائسنس عطا کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی اصول، منشیات کے اڈوں کاآبادیوں میں وجود ، بے روزگاری اور معاشی بدحالی، خاندان کے اندر اور تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال سے متعلق آگاہی کا فقدان وغیرہ ایسے عناصر ہیں جنھوں نے منشیات کو فروغ دیاہے۔ ایک جائزہ سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ اضطراب، افسردگی، غصہ، جرم، غم، خود اعتمادی میںکمی، مایوسی، تجسس اور تجربہ کرنے کی ترغیب، میڈیا کی تصویر کشی کا اثر، ساتھیوں کا دباو، والدین، خاندان اور برادری کی جانب سے تعاون کی کمی جیسی وجوہات سے طلباء اور نوجوانوںمیں منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ زیادہ تر نوجوان عام طور پر ہلکی منشیات جیسے سگریٹ، چھالیہ، گٹکا، نسوار اور پان سے شروع کرتے ہیں اور پھر ہیروئن، افیون، کوکین وغیرہ جیسی سخت نشہ آور ادویات کی طرف چلے جاتے ہیں۔
منشیات کا نقصان صرف فرد واحد کو ہی نہیں ہوتا بلکہ سماجی تانا بکھرجاتا ہے ،ملک زوال اور پستی میں چلاجاتا ہے۔جو شخص نشہ کرتا ہے وہ اپنی یا اہل خانہ کی کمائی کا ایک بڑا حصہ نشہ میں اڑا دیتا ہے ۔جس سے گھر کا بجٹ بگڑ جاتا ہے ۔وہ فیملی جس کا صرف ایک فرد نشہ کرتا ہے ہر وقت اضطراب میں مبتلا میں رہتی ہے ۔اس گھر کے باقی بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے ،وہ اپنے بیماروں کا علاج بھی نہیں کراپاتی ۔نشہ کرنے والا کبھی کبھی ایسی غیر اخلاقی حرکت کر بیٹھتا ہے کہ پورے خاندان کی ناک کٹوا دیتا ہے اور پولس تھانے اور عدالت کے چکر لگوادیتا ہے ۔جس سماج کے ہر گھر میں ایک نشہ کرنے والا موجود ہو آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہ سماج کس پستی کی جانب سفر کررہا ہے ۔نوجوان جو ملک کا مستقبل ہیں جب نشہ کے عادی ہوجاتے ہیں تو ملک کے لیے کوئی قابل ذکر خدمات انجام نہیں دے پاتے ۔اس طرح ملک اپنے قیمتی سرمایہ سے محروم ہوجاتا ہے ۔نشہ کا عادی دنیا سے جلد رخصت ہوجاتا ہے اور اپنے پیچھے بیوہ اور یتیم و بے سہارا بچوں کو چھوڑ جاتا ہے ۔
ان تباہ کن نقصانات کے باعث دین اسلام میںہر نشہ آور شئی حرام ہے ۔نزول قرآن کے وقت کے انسانی معاشرے میں شراب نوشی کو ہی نشہ کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے شراب کو ”ام الخبائث’’کہہ کر اس کا استعمال حرام قرار دے دیا ہے، معاشرے میں نشہ آور چیزوں سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو روکنے کے لیے اس کا استعمال کرنے والے، اس کے کاروبار میں ملوث افراد پر حدیں مقرر کر دی ہیں۔ اسلام نے ہر اس چیز کو جو کسی بھی صورت میں نشہ کا سبب بنتی ہو اس پر حرام کی مہر لگا کر اس کے استعمال کو ممنوع قرار دے دیا۔
نسائی کی روایت میں شراب کو ’’ام الخبائث‘‘(یعنی تمام جرائم کی ماں ) اور ابن ماجہ کی حدیث رسولﷺ نے اسے ’’اُم الفواحش‘‘( بے حیائیوں کی جڑ) قرار دیا ہے۔ ایک موقع پرآپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جیسے درخت سے شاخیں پھوٹتی ہیں، اسی طرح شراب سے برائیاں۔ (سنن ابن ماجہ) اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںشراب نوشی کو شیطانی عمل سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا:’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے (یہ سب) ناپاک کام ہیںاور شیطانی اعمال میں سے ہیں۔ اس لیے ان سے بچو، تاکہ نجات پاجائو۔‘‘(المائدہ۔90)
نشہ کا ایک نقصان یہ ہے کہ اس کے ذریعہ افراد کے درمیان عداوت اور دشمنی پیدا ہوتی ہے۔یہ دشمنی جان لیوا بھی ثابت ہوتی ہے ۔ اس جانب قرآن پاک میں ان لفاظ میں اشارہ کیاگیا ہے ۔’’شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہارے درمیان دشمنی اور رنجش ڈلوا دے اور تمہیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو تم کو (ان کاموں سے) باز رہنا چاہیئے۔’’(المائدہ:91)
دور رسالت میں شراب کے علاوہ بعض دوسری اقسام کی نشہ آور اشیاء بھی پائی جاتی تھیں ۔آپ ؐ نے سب کو حرام قرار دیا۔ام المومنین عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ سے شہد کی نبیذ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’ہر شراب جو نشہ پیدا کر دے وہ حرام ہے۔‘‘(ترمذی)حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص یمن سے آیا اور رسول اکرم ؐسے ایک شراب کے بارے میں پوچھا جو ایک اناج سے نکالی جاتی تھی اور جسے وہ اپنے ملک میں پیتے تھے۔ رسول ؐاللہ نے ان سے پوچھا کہ کیا اس میں نشہ ہے؟ تو اس نے جواب دیا، ہاں رسول اللہ نے فرمایا ’’ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ ‘‘(ابن ماجہ )
نشہ صرف ایک گناہ نہیں ہے بلکہ یہ دیگر گناہوں کا سبب ہے ۔ رسول اکرم ؐنے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک خوبصورت عورت نے اپنے پاس شراب رکھی اور ایک بچہ کو رکھا اور ایک شخص کو مجبور کیا کہ وہ تین میں سے کم از کم ایک برائی ضرور کرے، یا تو وہ اس عورت کے ساتھ بدکاری کرے، یا اس بچہ کو قتل کر دے، یا شراب پئے، اس شخص نے سوچا کہ شراب پینا ان تینوں میں کمتر ہے،چنانچہ اس نے شراب پی لی،لیکن اس شراب نے بالآخر یہ دونوں گناہ بھی اس سے کرالیے۔ (نسائی)
اس لعنت سے خود کو اور اپنی نسلوں کو بچانے کے لیے ہم سب کو میدان میں آنا چاہئے ۔حکومت سے شراب اور دوسری نشہ آور اشیاء پر مکمل پابندی کا مطالبہ کرنا چاہئے ۔اپنے آس پاس نشہ آور اشیاء کی فروختگی کے اڈوں کو ختم کرانا چاہئے ۔نشہ کرنے والوں کی صحیح کیفیت اور اسباب و علل معلوم کرکے ان کے تدارک کی کوشش کرنا چاہئے ،گھر کے ماحول کو خوش گوار بنانا چاہئے ۔اگر ہم یہ دیکھیں کہ ہمارا بیٹا کسی غلط صحبت میں گرفتار ہورہا ہے تو اسے نرمی سے سمجھانا چاہئے اور اس کے دماغ کو دوسرے مفید کاموں کی طرف لگانا چاہئے۔ہماری سیاست نے نشہ کے اضافہ میں اہم رول ادا کیا ہے ،ہر انتخاب کے وقت خوب شراب پلائی جاتی ہے ۔خود مسلمان امیدوار بھی یہ کار حرام کرتے ہیں اس پر قدغن لگانا چاہئے۔ملی تنظیموں کو نشہ کے خلاف مہم چالانا چاہئے ۔ائمہ و خطباء کو مساجد کے ذریعہ عوام میں نشہ کے خلاف بیداری پیدا کرنا چاہئے ۔مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر برائی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ۔نہی عن المنکر ان کا فرض منصبی ہے ۔افسوس اس بات کا ہے کہ برائی دور کرنے والوں کی بھی اچھی خاصی تعداد اس برائی میں ملوث ہے۔