جموں کشمیر پولس نے دکانوں سے ضبط کی جماعت اسلامی کی کتابیں

جموں کشمیر پولیس نے جمعہ کو سری نگر کی کئی دکانوں سے اسلامی تحریک، جماعت اسلامی سے منسلک تقریباً ۶۶۸؍ کتابیں ضبط کیں، جن پر مبینہ طور پر ایک ’’کالعدم تنظیم‘‘ کے نظریے کو فروغ دینے کا الزام تھا۔ سری نگر پولیس نے اپنے ایکس پوسٹ میں کہا کہ ’’ایک کالعدم تنظیم کے نظریے کو فروغ دینے والے ادب کی خفیہ فروخت اور تقسیم کے حوالے سے معتبر انٹیلی جنس کی بنیاد پر، پولیس نے سری نگر میں تلاشی لی، جس کے نتیجے میں ۶۶۸؍ کتابیں ضبط کی گئیں۔ بی این ایس ایس کی دفعہ ۱۲۶؍ کے تحت قانونی کارروائی شروع کی گئی ہے۔
مکتوب میڈیا نے اپنی رپورٹ میں لال چوک میں کتابوں کی دکان کے ایک مالک کے حوالے سے بتایا ہے کہ ’’پولیس جمعرات کو تقریباً ساڑھے ۳؍ بجے پہنچی۔ انہوں نے ممنوعہ کتابوں کے بارے میں پوچھا اور پھر مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کی کتابیں ضبط کر لیں۔‘‘ ذرائع نے بتایا کہ سری نگر میں پولیس کی طرف سے ضبط کی گئی زیادہ تر کتابیں ایم ایم آئی پبلشرز کی طرف سے شائع کی گئی ہیں، جو دہلی میں مذہبی کتابوں کا ایک پبلشر ہے جس کی بنیاد ۱۹۴۸ء میں رکھی گئی تھی۔ یہ کتابیں بزرگ اسلامی اسکالر اور فلسفی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی سے منسلک ہیں، جنہوں نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ اس کی شاخ جموں کشمیر میں ۱۹۵۲ء میں قائم کی گئی تھی۔ پولیس کی طرف سے ضبط کی گئی کچھ کتابوں میں جماعت اسلامی جموں کشمیر کا اہم ادب بھی شامل ہے۔
یاد رہے کہ فروری ۲۰۱۹ء میں، غیر قانونی سرگرمیوں (روک تھام) ایکٹ کے تحت جماعت اسلامی جموں کشمیر پر پانچ سال کی پابندی عائد کی گئی تھی۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ جماعت عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے اور وہ ’’اپنی تخریبی سرگرمیوں میں اضافہ‘‘ کرے گی جس میں ہندوستان کی سرزمین سے اسلامک اسٹیٹ کو نکالنے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے)، ۱۹۶۷ء کے سیکشن ۳ (۱) کے تحت پابندی کو مزید پانچ سال کیلئے بڑھایا گیا تھا۔

کتابوں کی ضبطی کی مذمت کرتے ہوئے حزب اختلاف کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی لیڈر التجا مفتی نے الزام لگایا کہ کتابوں کو ضبط کرنا ’’پڑھنے کی آزادی‘‘ کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ’’سیکوریٹی کی آڑ میں کشمیریوں پر طرح طرح کے جابرانہ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اب تو معلومات کو پڑھنے اور استعمال کرنے کی آزادی کو بھی پامال کیا جا رہا ہے۔ کیا ہم صرف بھیڑیں یا مویشی ہیں جنہیں چرانے کی ضرورت ہے؟‘‘
اس ضمن میں سری نگر کے ایم پی آغا سید روح اللہ مہدی نے ایکس پر کہا کہ ’’کیا اب حکومت یہ حکم دے گی کہ کشمیری کیا پڑھتے، سیکھتے اور مانتے ہیں؟ یہ ایک ناقابل قبول حد سے تجاوز ہے۔ اگر ایسا کوئی حکم موجود ہے تو اسے فوری طور پر منسوخ کیا جانا چاہئے۔‘‘

«
»

جامعہ رحمانی مونگیر میں ختم بخاری شریف کا عظیم الشان اجلاس کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر

بندربخارسے لڑنے کے لیے کرناٹک حکومت کا اہم اقدام ، مفت علاج کی سہولیات دستیاب