سرینگر: مرکزی سرکار کی جانب سے ملک میں مقیم پاکستانی شہریوں کی بے دخلی کے حکم کے چند روز بعد جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماؤں نے اس اقدام پر شدید تنقید کی ہے اور اسے غیراِنسانی قرار دیا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) کے سینئر رہنما اور کولگام ضلع سے ایم ایل اے ایم وائی تاریگامی نے کہا: ’’یہ بے دخلی مہم غیر انسانی ہے۔ یہ خواتین کشمیری مردوں سے شادی کے بعد یہاں آباد ہوئیں، یہاں خاندان بسائے اور پرامن زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ ہمیشہ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے معاشرے کا حصہ رہی ہیں۔ ان کی ملک بدری ان کے خاندانوں کو بکھیر دے گی اور شدید ذہنی اذیت کا سبب بنے گی۔‘‘
انہوں نے یاد دلایا کہ 2006 میں سی پی آئی (ایم) نے اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی تھی جس کا مقصد ان نوجوانوں کی واپسی کے لیے اقدامات کرنا تھا جو ایل او سی پار کر گئے تھے۔
اسی طرح، سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’ایکس‘‘ پر مرکز سے اس فیصلے پر نظرثانی اور ’’ہمدردانہ رویہ‘‘ اپنانے کا مطالبہ کیا۔ محبوبہ نے کہا: ’’حکومت کی حالیہ ہدایت کہ تمام پاکستانی شہریوں کو بھارت سے بے دخل کیا جائے، خاص طور پر جموں و کشمیر میں سنگین انسانی خدشات کو جنم دے رہی ہے۔ ان میں سے کئی خواتین وہ ہیں جو 30–40 سال پہلے یہاں آئی تھیں، بھارتی شہریوں سے شادی کی، خاندان بسائے اور برسوں سے ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ایسے افراد کی بے دخلی، جو دہائیوں سے پرامن زندگی گزار رہے ہیں، نہ صرف غیر اِنسانی ہے بلکہ ان کے خاندانوں کو شدید جذباتی اور جسمانی نقصان پہنچائے گی۔‘‘
وزارت داخلہ کی 25 اپریل کی ہدایت کے مطابق، تمام پاکستانی شہری جو بھارت میں غیرقانونی طور پر مقیم ہیں، انہیں 27 اپریل تک ملک چھوڑنے یا سخت قانونی کارروائی کا سامنا کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔
جموں و کشمیر حکومت کے حکام کے مطابق، بے دخلی کے خطرے سے دوچار 60 افراد میں خواتین اور بچے شامل ہیں جو اپنے کشمیری شوہروں کے ساتھ 2010 کی باز آبادکاری پالیسی کے تحت واپس آئے تھے۔ ان میں 36 سرینگر، بارہ مولہ اور کپوارہ کے نو نو، چار بڈگام اور دو شوپیاں کے رہائشی ہیں۔ 2010 میں عمر عبداللہ حکومت کے دوران شروع کی گئی یہ پالیسی اُن کشمیری نوجوانوں کی واپسی کے لیے متعارف کرائی گئی تھی جو ہتھیاروں کی تربیت کے لیے پاکستان چلے گئے تھے، لیکن بعد میں شدت پسندی ترک کر کے عام زندگی کی جانب واپس لوٹنا چاہتے تھے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ایسے 4,587 افراد میں سے صرف 489 واپس آئے، جن میں سے اکثر نیپال کے ذریعے بھارت لوٹے۔ گزشتہ روز ایسی افواہیں گردیش کرنے لگیں، کچھ ویڈیوز بھی وائرل ہوئے جن میں دعویٰ کیا کہ بے دخل کیے جانے والوں میں بارہ مولہ میں 2022 میں ایک تصادم کے دوران ہلاک ہونے والے بہادر سپاہی مدثر احمد شیخ کی والدہ شمیمہ اختر بھی شامل ہیں، جنہیں شوریہ چکر سے نوازا گیا تھا، تاہم جموں کشمیر پولیس نے ایسی خبر کی سختی سے تردید کی۔