اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کا معاشرتی کردار‎

آج کے دور میں اسلاموفوبیا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، جو نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری دنیا کے امن اور استحکام کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اسلاموفوبیا سے مراد اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں پھیلائی جانے والی منفی رائے اور غلط فہمیاں ہیں، جو میڈیا، سیاسی مفادات، اور مخصوص واقعات کی بنا پر پیدا ہوتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں کو دہشت گردی اور انتہاپسندی سے جوڑنے کی کوششیں تیز ہو گئیں، جس سے اسلاموفوبیا کو مزید فروغ ملا۔

میڈیا کا کردار اس مسئلے میں انتہائی اہم ہے۔ اکثر مغربی میڈیا نے اسلام کو ایک خطرناک مذہب کے طور پر پیش کیا، جس کے ماننے والے شدت پسند اور امن دشمن ہیں۔ یہ تصویر دنیا کے سامنے اس قدر شدت سے پیش کی گئی کہ بہت سے لوگ بغیر سوچے سمجھے اسلام سے خوفزدہ ہو گئے۔ سیاسی مقاصد کے لیے بھی اسلاموفوبیا کو استعمال کیا گیا تاکہ عوام میں خوف پیدا کر کے مخصوص مفادات حاصل کیے جا سکیں۔

اسلام کا حقیقی پیغام

اسلام کا حقیقی پیغام امن، انصاف اور بھائی چارے پر مبنی ہے، جسے اکثر غلط طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات اس بات کی گواہ ہیں کہ اسلام ہمیشہ انسانی حقوق، امن، اور عدل کی حمایت کرتا ہے۔ قرآن اور حدیث میں امن، محبت، اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی بارہا تاکید کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: "تم میں سے بہترین وہ ہے جو لوگوں کے لیے نفع مند ہو۔” لیکن بدقسمتی سے، موجودہ دور میں بعض عناصر اسلام کو ایک خطرہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

اسلاموفوبیا کا پھیلاؤ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ شاید ہم خود اپنے دین سے دور ہو چکے ہیں۔ ہم نمازوں، روزوں، اور دیگر عبادات میں غفلت برت رہے ہیں اور اپنے دین کی تعلیمات سے بے خبر ہیں۔ مسلمانوں کا فخر ان کی شریعت اور اسلامی اقدار میں ہے، لیکن جب ہم ان اقدار سے منہ موڑ لیتے ہیں اور مغربی فیشن اور کلچر کو اپنا لیتے ہیں تو پھر ہماری شناخت مٹنے لگتی ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کو مغربی طرز زندگی اپنانے کی ترغیب دی اور جب کوئی ہمارے دین یا رسول ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو ہماری زبانیں خاموش ہو جاتی ہیں۔

مسلمانوں کا معاشرتی کردار

اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کو اپنے معاشرتی کردار کو درست انداز میں پیش کرنا ہوگا۔ ایک مسلمان کا کردار صرف عبادات تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اسے اپنے عمل سے معاشرے میں ایک مثبت اور مفید فرد ثابت ہونا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں یہ مثالیں ملتی ہیں کہ آپ نے ہمیشہ انصاف، امن، اور دوسروں کی مدد کو ترجیح دی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیاں بھی اسی عملی اسلام کی بہترین مثالیں ہیں۔

آج کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نہ صرف دینی تعلیمات پر عمل کریں بلکہ جدید علوم، سائنس، اور ٹیکنالوجی میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔ مسلمان علماء، سائنسدان، اور مفکرین نے تاریخ میں دنیا کو ان گنت علمی اور سائنسی خدمات فراہم کی ہیں۔ مگر افسوس کہ آج ہم ان میدانوں میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمیں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کو دکھانا ہو گا کہ اسلام ایک ترقی پسند دین ہے، جو علم، تحقیق، اور انسانیت کی خدمت کا درس دیتا ہے۔

اسلاموفوبیا کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟

اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کو اجتماعی اور انفرادی سطح پر کام کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے کردار کو سنوارنا ہوگا تاکہ ہم عملی طور پر اسلام کی تعلیمات کا نمونہ پیش کر سکیں۔ ہمیں معاشرے میں امن، محبت، اور اخوت کو فروغ دینا ہوگا تاکہ غیر مسلموں کو اسلام کے حقیقی چہرے سے روشناس کرایا جا سکے۔

مزید برآں، ہمیں اپنی اگلی نسلوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم دونوں میں بہترین بنانا ہوگا۔ تعلیمی ادارے، مساجد، اور اسلامی تنظیمیں مل کر مسلمانوں کو اسلامی اقدار کے ساتھ ساتھ جدید دنیا کی ضروریات کے مطابق تیار کریں۔ سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر اسلام کا مثبت پیغام پھیلایا جائے تاکہ اسلاموفوبیا کی جڑوں کو کاٹا جا سکے۔ قارئین! اسلاموفوبیا ایک بڑا چیلنج ہے، لیکن اگر مسلمان اپنے دین کو سہی طور پر سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوں اور اپنے کردار کو درست کریں، تو اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں دنیا کو دکھانا ہوگا کہ اسلام امن، محبت، اور انسانیت کا دین ہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے معاشرتی کردار کو بہتر بنائیں اور دنیا میں اسلام کا حقیقی پیغام عام کریں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

«
»

ہماچل : کانگریس حکومت فرقہ پرستوں کو روکنے میں پوری طرح ناکام : فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ

وقف ترمیمی بل 2024  آئین کے ذریعہ پیش کردہ ’’آئیڈیا آف انڈیا‘‘کے خلاف :حضرت امیر شریعت