اتراکھنڈ میں حالیہ دنوں میں حکام نے زائد از ۱۷۰؍ مدرسوں کو سیل کر دیا ہے۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ ادارے، اتراکھنڈ مدرسہ بورڈ یا ریاستی تعلیمی محکمہ کے ساتھ رجسٹریشن کئے بغیر فعال تھے۔ جبکہ مقامی مسلمانوں اور مدرسہ کے اماموں اور معلمین کا کہنا ہے کہ ریاست میں مسلم اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور یہ کارروائیاں اسی مہم کا حصہ ہیں۔
رپورٹس کے مطابق، ہلدوانی میں، ضلع انتظامیہ، میونسپل کارپوریشن اور مقامی پولیس کے حکام پر مشتمل ایک مشترکہ ٹیم نے اتوار کو مسلم اکثریتی علاقے بنبھول پورہ میں ایک خصوصی معائنہ مہم چلائی۔ ٹیم نے بتایا کہ اس نے اداروں کے مناسب رجسٹریشن اور دیگر ریگولیٹری تقاضوں کی تعمیل کی جانچ کی۔ معائنہ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ کئی مدرسے رجسٹرڈ نہیں تھے، جس کے نتیجے میں ۷ مدرسوں کو سیل کر دیا گیا۔
آل انڈیا مسلم جماعت کے صدر مولانا مفتی شہاب الدین رضوی بریلوی نے اتراکھنڈ اور مدھیہ پردیش میں مدارس کے خلاف ریاستی حکومتوں کی مہم کو ناانصافی پر مبنی قرار دیا ہے۔ انھوں نے مدارس کے خلاف کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے پیر کو کہا کہ یہ وہی مدارس ہیں جنہوں نے 1857 سے لے کر 1947 تک کی جنگ آزادی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کے دفتر سے جاری کئے گئے ایک بیان کے مطابق، ریاستی حکومت کی جانب سے بنائی گئی خصوصی سروے ٹیموں نے ان مدرسوں کی تحقیقات کیں جن کی رپورٹس کی بنیاد پر ضلع انتظامیہ نے یہ سخت کارروائی کی۔ دہرادون، ہری دوار، اودھم سنگھ نگر اور خاص طور پر بنبھول پورہ (ہلدوانی) جیسے علاقوں میں کئی مدرسے یا تو بند کر دیئے گئے ہیں یا ان کی تحقیقات جاری ہیں۔
مدارس کو نشانہ بناتے ہوئے، دھامی نے کہا کہ تعلیم کے نام پر بچوں کو شدت پسندی کی طرف لے جانے والے اداروں کو ریاست میں کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ دھامی نے مدرسوں کو سیل کرنے کی کارروائیوں کو "ایک تاریخی قدم” قرار دیا۔ واضح رہے کہ ملک میں سرگرم ہندو قوم پرست لیڈران اور ہندوتوا تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ مدارس شدت پسندی کیلئے تیاری کے مراکز ہیں۔
انتظامیہ کی جانب سے جن مدارس کو سیل کردیا گیا ہے وہ کئی دہائیوں سے فعال تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ریاست میں فی الحال فعال تقریباً ۵۰۰ مدارس کو آنے والے دنوں میں بند کیا جا سکتا ہے۔