تحریر : سید ہاشم نظام ایس ایم ندوی
ایڈیٹر انچیف فکروخبر
مذکورہ بالا انہی اوصاف وکمالات میں سے بعض وہ ہیں، جنھیں ذرا تفصیل سے نظرِ قارئین كرنے كی سعادت حاصل كر رہا ہوں، جو ان كی زندگی كی عملی تصویر تھی، تاكہ وہ مرحوم كی طرف سے ایك خاموش پیغام ثابت ہوں، ان شاء اللہ بہ توفیق الہی ان اوصاف سے میں سب سے پہلے اپنی ذات کو متصف کرنے کی کوشش کروں گا، جو آپ کے حق میں صدقۂ جاریہ ہوگا۔
دنیا سے بے اعتنائی اور قناعت و استغنا ء :۔
خواہش، مرضی، تمنا، طلب، حرص ان سب چیزوں سے ہٹ کر راہ پکڑنے کا نام فقیری اور درویشی ہے، اندیشہ سود وزیاں انسان کی فطرت میں موجود ہے، درویشوں کے یہاں محض تسلیم ورضا کی بات ہوتی ہے، ہمارے والدِ ماجد کی زندگی میں انقلاب اور تبدیلی آنے کے بعد یہی کیفیات غالب رہیں، سابق ناظمِ جامعہ اسلامیہ بھٹکل جناب ماسٹر شفیع حفظہ اللہ والدِ ماجد کے بارے میں کہتے تھے: ” اقبال کا شعر (یقیں محکم، عم پیہم، محبت فاتحِ عالم ) سب پڑھتے ہیں اوراس پر ناز بھی کرتے ہیں،مگر عملی زندگی میں لانا یہ سب کے بس کی بات نہیں ہوتی، آپ کے والد کو ہم نے پورے اس شعر کا مصداق پایا، انھوں نے اپنی امیرانہ زندگی چھوڑی، دولت کی قربانی دی، خاندانی زندگی چھوڑ کر درویشی کی زندگی اختیار فرمائی”۔
قناعت، استغنا، ایثار یہ الفاظ سننے میں بار بار آتے ہیں، والدِ ماجد میں یہ اوصاف آخری درجے میں پائے جاتے تھے، صحیح معنوں میں درویش صفت تھے، صبر وضبط فطرتِ ثانیہ بن چکےتھے، غیر اللہ سے بے تعلقی وبے نیازی زندگی کا جز بن چکی تھی، کئی بار کٹھن اوقات آئے ، مگر گھر والوں کو پتہ نہ چل سکا ، نہ اہلِ تعلق کو علم، نہ خاندان والوں کو احساس اور نہ ہی ساتھیوں کو خبر۔
احسان شناسی اور شکر گزاری :۔
کسی نعمت کے حصول پرجذبۂ تشکر سے لبریز ہو کر منعمِ حقیقی کا شکر اداکرنا جہاں مطلوب ہے وہیں بندوں کی طرف سے کیے گئے احسانات پر بھی شکریہ کے کلمات سے اظہار کرنا بھی ضروری ہے۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ ” جو بندوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا ہے وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ہو سکتا” ۔ لہذا ہر مسلمان کو اللہ تعالیٰ کا خوب شکر ادا کرنا چاہیے، شکر ادا کرنے والے کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں ۔
آپ کا ایک خاص وصف احسان شناسی بھی تھا، جس پر دسیوں واقعات گواہ ہیں کہ آپ اپنے محسنین کے ساتھ کس قسم کا سلوک فرماتے تھے، انھیں کس کس طرح نوازتے اورانھیں یاد فرماتے تھے، ان کی زندگی میں جب بھی کسی محسن کے انتقال کی خبر سنائی جاتی تو ان کی آنکھیں نم دیدہ ہوتیں، ان کے احسانات کو شمار کرتے، چھوٹی سے چھوٹی چیز کا ذکر کرتےاور ان کے لیے دعائیں دیتے۔چاہے وہ احسان آپ کے کسی خادم یا گھر کی کسی خادمہ کا اپنے گھر کے افراد کے ساتھ کیا ہوا ، چوں كہ احسان شناسی مومن كا وصف ہے ۔
ہمارے گھر ایک خادمہ مرحومہ رقیہ صاحبہ تھیں، جو ہمارے گھرکے ایک فرد کی حیثیت سے تھیں، ان کا انتقال بھی ہمارے گھر والد صاحب ہی کے سامنے ہوا تھا، ان کی خدمتوں کا اگر ذکر کیا جائے تو اس کے لیے کافی صفحات درکار ہوں گے، انھوں نے ہمارے دادجان اور دادی جان کی بھی خدمت کی تھی، ان كے بعد ہماری والدہ کے لیے بھی وہ بڑی مخلص رہیں۔اسی لیے ابو جان ان کی یاد وقتا فوقتا کرتے تھے، ان کی صفات بھی دہراتے تھے، جب مجھے اللہ تعالی نے پہلی پوتی عطا فرمائی اور فرزند مولوی سید احمد ایاد کو بیٹی ہوئی تو آپ نے اپنی پر پوتی کے لیے اسی نام کا انتخاب فرمایا اور بتایا کہ وہ ہمارے گھر کی ایک مخلص خادمہ تھیں، ان كا ذكر ہمارے خاندان میں جاری رہنا چاہیے۔
حتی كہ گھر میں اپنے بچوں ، نواسوں اور پوتوں وغیرہ كے ساتھ بھی یہی معاملہ فرماتے، كسی بھی كام كے كرنے پر شكریے كے رسمی الفاظ سے ہٹ كر ” جزاك الله خيرا” كہتے اور دوسروں كے كسی بھی احسان پر یہی اسلامی تعلیم بتاتے۔ خود ہمارے بچوںكا بیان ہے كہ دادا مرحوم عمر كے آخری سالوں میں كسی بھی كام كرنے یا رات میں آپ كے ساتھ جاگ كر ساتھ دینے پر ان الفاظ كو بہت دہراتے،بلكہ حد یہ ہوتی كہ كبھی كچھ زیادہ ساتھ دینے پر كہتے كہ بیٹے تمھیں تكلیف ہوئی، اللہ تمہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ سبحان اللہ؛ كیا كوئی آج كے اس دور میں اس حد تك اعلی اخلاق كی مثال پیش كر سكتا ہے۔
ضیافت اور مہمان نوازی:۔
مہمان نوازی ایک فن ہے اور ایک اعلی ذوق بھی، مہمان نوازی کے لئے امیری یا غریبی شرط نہیں ہے، کبھی ایک غریب شخص بھی بہت بڑا مہمان نواز ہوتا ہے جب کہ مالدار نہیں بن پاتا، ہمارے والد میں یہ وصف کمال کے درجہ تک پایا جاتاہے، مہمان نوازی میں آپ کی عمر کا ایک حصہ گذرا،آپ کے مہمانوں میں بڑے چھوٹے، امیر وغریب، خواندہ وناخواندہ سب رہتے ، مہمانوں کے ہر ذوق اور ہر سہولت کا خیال کرتے ، انھیں ہر طرح آرام پہنچاتے ، ان کی ہر ضرورت خود پوری کرنے میں سعادت محسوس کرتے ہیں،مہمانوں کو گھر بلانے میں تعداد کا خیال نہ کرتے ، جب دعوت کرتے تو مقررہ تعداد سے کچھ زیادہ ہی کو مدعو کرتے ،کبھی عین وقت پر اطلاع دیتے اور اکثر وبیشتربغیر اطلاع دیے اللہ پر بھروسہ کرتےاور کہتے کہ اللہ برکت دے گا؛ چوں کہ گھر والوں کو ان کی عادت کا علم رہتا، اس لیے گھر والے خود ہی پیش بندی کر لیتے۔
آپ مہمانوں کی آمد سے بے حد خوش ہوتے، چاہے وہ ہندو یا مسلمان، اپنا ہو یا غیر، بالخصوص دین دار مہمان ہو تو آپ کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی، ہمارے دور تعلیمی میں جامعہ اسلامیہ سے ہمارے دوست احباب كے آنے پر خود ہی بڑے مہمانوں كی طرح ان كی ضیافت كا اہتمام فرماتے۔ اسی طرح ہمیں وہ منظر اچھی طرح نظروں کے سامنے ہیں کہ آپ سلطانی مسجد سے نماز پڑھ کر جب نکلتے تو کسی مستحق کی ملاقات پر اسے ساتھ لاتے اور مہمان نوازی فرماتے۔
آپ کی مہمان نوازی یا شرافت کہئے یا خشیت وللہیت کہ جو اشیاء خوردنی معزز مہمانوں کے لئے تیار کرتے وہی خوراک اور پھل فروٹ عام ملازمین یا موجود فقراء یا مساکین کے لیے بھی رکھتے، بلکہ اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ کہ خود معزز مہمانوں کے ساتھ نہیں بیٹھتے بلکہ مساکین یا عام ملازمین کے ساتھ یا سب کے فارغ ہونے کے بعد اکیلے بیٹھتے، گھر میں مہمانوں کے دستر خوان کے لیے کوئی وقت مخصوص نہ رہتا، جب اور جس وقت جوبھی آجاتا بس مہمان نوازی شروع کر دیتے،پکوان، چائے اور مشروبات کے لیے مستقل ملازمہ مامور تھیں، اس دور میں اس حد تک مہمان نوازی اور اس میں بھی اصول وضوابط کی پابندی ڈھونڈنے ہی سے کچھ مل جائے گی۔
والدین اور ان کی خدمت:۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی عمر دراز کردے اور رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : "تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو تمھا ری اولاد تمھارے ساتھ حسن سلوک کرے گی”۔
ابو جان کی خوش قسمتی تھی کہ آپ کو والدین کی زندگی کے آخری ایام تک خدمت کرنے کا موقع ملا، دادا جان کے انتقال کے وقت میری عمر چھ سال کی تھی، اس لیے وہ ایام بہت زیادہ سامنے نہیں ہیں، البتہ اتنا یاد ہے کہ انتقال انہی کے سامنے اپنےہی گھر میں ہواتھا۔ البتہ دادی جان کی خدمت کے آخری کچھ سالوں کے نقوش ذہن میں محفوظ ہیں، آپ نے ان کی خوب خدمت کی، انھیں ہر سہولت فراہم کی، خوب دعائیں لیں، حتی کہ انتقال بھی آپ کے سامنے ہوا، ان کے انتقال پر والد صاحب شدید متاثر تھے، جو تاثر کئی دنوں تک باقی رہا اور ان دونوں کے ایصالِ ثواب کے لیے حسبِ توفیق کچھ نہ کچھ کرتے رہے۔ اللہ ہمیں اپنے والدین کی اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
در حقیقت والدین نسلِ انسانی کی کلیدہوتے ہیں، اولاد اور والدین کے مابين جو عظیم رشتہ ہے وہ دنیا كے ہررشتےسے بڑھ كر ہوتا ہے۔ تکلیف ایک کو ہوتو درد دوسرا محسوس كرتاہے۔ دکھ ایک کو پہنچے بے چین دوسرا ہوتا ہے۔ بچہ دنیا کے ایک کونے میں بیمار ہو تو والدین انجانے میں بھی دنیا کے دوسرے کونے میں تڑپ اٹھتے ہیں۔
لہذا اگر والدین بقیدِ حیات ہیں تو ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ برتیں، بعد وفات بھی انھیں فراموش نہ کریں، ان کی روح کو ایصال ثواب کرتے رہیں۔اولاد کی دعا ؤں سے والدین کے درجات بلند ہوتے ہیں، کیوں کہ محسن کو بھلایا نہیں جاتا، دلوں میں بٹھایا جاتا ہے، آنکھوں میں سجایا جاتا ہے، ماں باپ ہمارے بہت بڑے محسن ہیں، ہم ان کے ان گنت احسانات تلے دبے ہیں،زندگی بھر ان کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کرنے کے بعد بھی ہم ان کا بدلہ ہرگز نہیں چکا سکتے۔
گھریلو کام کاج اور احساسِ ذمے داری :۔
گھر میں خادموں کے ہونے کے با وجود گھر کےکچھ نہ کچھ کام خود ہی کیا کرتے تھے، جب تک اعضاء میں قوت رہی اپنے فارغ اوقات کو کسی نہ کسی کام میں گزارتے رہے، انھیں خالی بیٹھنا کبھی پسند نہیں تھا، خصوصا گھر کی صفائی ستھرائی کا پورا خیال رکھتے ، بچوں کو اس کے لیے مامور کرتے، سب کو اس کی تربیت کراتے ، خود غسل کرنے سے پہلے غسل خانے کی صفائی کرتے تھے۔ اسی طرح ہر چیز کو بالترتیب رکھتے، بڑی سے لے کر چھوٹی چیز کو مرتب انداز میں رکھتے تھے، تاکہ بوقت ضرورت ہر چیز بسہولت حاصل ہو سکے۔ آپ کے کھانے پینے کے اوقات بھی مرتب تھے، بے وقت ایک لقمہ بھی نہیں کھاتے ۔
سودا سلف لانے کے لیے خود بازار جاتے تھے، اس میں صرف اپنے گھر ہی کا نہیں بلکہ ضرورت کے مطابق بعض ان رشتے داروں کا تعاون فرماتے تھے، جن کے گھر سودا سلف لانے کے لیے کوئی مرد نہ ہو، یا بوڑھے اور کمزور ہوں۔ بازار جانے میں کبھی پیدل جاتے تو کبھی اپنی سائیکل پر سوار ہو کر چلے جاتے۔اس کا اظہار اس لیے بھی ضروری ہے کہ آج کل جس کی جیب میں دو چار پیسے آگئے وہ سودا سلف لانے یا گوشت اور مچھلی کی خریداری کو عیب شمار کرتے ہیں۔ ساتھ ہی خریداری میں اس بات کا بھی خیال فرماتے تھے کہ جن کانوں میں لوگ کم جاتے ہوں ان کے پاس جا کر ان کا تعاون کیا حائے اور یہ عمل صرف مسلم دکانوں تک نہیں بلکہ بستی روڈ اور پھول بازار کے آس پاس جہاں براداران وطن رہتے ہیں وہاں تک جا کر ان کی دکانوں سے خریداری کر کے اسلامی اخلاق کا ثبوت فراہم کرتے تھے۔ جب خود نہیں جاتے اور ہم کو بھیجنا ہوتا تو تاکید سے کہتے تھے کہ فلاں فلاں دکانوں سے خریداری کرنی ہے۔
آپ اپنی رفیقۂ حیات کے لیے ایک وفا شعار شوہر تھے، ہماری والدہ کی خدمت میں مثالی شوہر ثابت ہوئے، ان کی ہر طرح فکر فرمائی، پیرانہ سالی میں بھی اپنے سے زیادہ اسی کا خیال رکھنا گویا اپنے اوپر فرض سمجھا، جب کبھی ایک دو روز کے لیے یا علاج معالجے کے لیے کہیں جانا ہوتا تو اپنی صحت کی طرف توجہ دینے کے بجائے گھر والوں کو والدہ ماجدہ کی خدمت اور ہر طرح کی سہولت فراہم کرنے کی وصیت کر کے نکلتے، بلکہ باہر گاڑی پر بیٹھنے کے بعد گھر میں موجودمیرے بیٹےسے مکرر کہتے کہ اپنی دادی کا پورا خیال رکھنا۔
فضول خرچی اور كفایت شعاری :۔
جہاں ایک طرف آپ میں سخاوت اور خرچ کرنے کا ظرف اعلی درجے کا رہا، وہیں دوسری طرف بے جا اخراجات اور اسراف سے حد درجے دور رہے۔ اس سلسلے میں قرآنی و ربانی اصول اور نبوی تعلیمات ہمیشہ پیشِ نظر رکھتے کہ خرچ کرنے کے مصارف کیا کیا ہیں؟ کہاں خرچ کرنا صحیح ہے اور کہاں اسراف میں شمار ہوگا؟ شریعت میں کتنی مقدار مطلوب ہے اور کتنی مذموم۔
اسی طرح پانی كا كم از كم استعمال بقدرِ ضرورت فرماتے تھے، وضو اور غسل دونوں میں کم سے کم پانی استعمال فرماتے، وضو اگر نل کے پانی سے کرتے تو ہر عضو پر پانی بہانے کے بعد نل بند کرکے اعضائےوضو کو خوب ملتے، اس کی تاکید بھی فرماتے کہ اس کی وجہ سے قبر میں روشنی ملے گی اور اگر کسی مسجد میں حوض ہو تو نل کے بجائے حوض ہی میں بیٹھ کر وضو کرتے، ہماری یاد داشت کے مطابق سلطانی مسجد کے نیچے پرانے تالاب اور شاذلی تبلیغی مرکز میں ندی کے کنارے بیٹھ کر وضو کرتے تھے۔
اسی لیےغسل کرتے وقت بھی پانی کے استعمال میں احتیاط سے کام لیتے، صرف آدھی بالٹی میں غسل کرنے کا معمول رہا، کبھی کبھار کچھ مقدار اس سے زیادہ ہوتی لیکن مکمل ایک بالٹی سے نہیں نہاتے تھے، یہ معمول عمر کے آخری ایام تک رہا کہ کم پانی سے نہائیں اور گھر میں بچوں کو بھی بتاتے کہ روزانہ غسل کرنا صحیح نہیں ہے، اس میں پانی کا اسراف ہے اور نہ ہی روزانہ غسل کرنا کسی حدیثِ پاک سے ثابت عمل ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے چار غسل ثابت ہیں ایک جنابت کا ، دوسرا جمعہ کا، تیسرا حجامت کا ، چوتھا میت کو غسل دینے کے بعد کا۔
کل ہی میں دبئی میں اپنے بردارِ معظم سید محسن صاحب سے والدِ ماجد کی تربیت اور ان کے اوصاف پر مذاکرہ کر رہا تھا ، جس سے مجھے لکھنے میں کچھ مدد مل سکے، تب بھائی صاحب نے بھی اس نکتے پر خاص توجہ دلائی کہ ابو جان ہفتے میں دو یا تین مرتبہ نہانے کے قائل تھے ۔ اس کے بعد میں نے اسی موضوع پر کچھ معلومات جمع کیں، جس کے بعد یہ ثابت ہواکہ ہر روز نہانا ثابت شدہ عمل نہیں ہے، بلکہ حیرت اس بات پر بھی ہوئی کہ ماہرِ جلدیات اطباء کا کہنا ہے کہ روزانے کا غسل چمڑی کے لیے صحیح نہیں ہے اور اگر روزانہ صابون کا استعمال کیا جائے تو اس سے کئی ایک بیماریاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ البتہ یہ کوئی قطعی اصول نہیں ہے کہ روزانہ نہانے سے کہیں روکا گیا ہو، موسم اور وقت اعتبار سے کمی اور زیادتی ممکن ہے، مثلا شدید گرمی میں روزانہ نہانے سے بدن زیادہ صاف رہے گا۔
اس کے علاوہ برتنوں کو دھونے اور صفائی میں بھی آپ پانی کے اسراف سے بچنے کی تعلیم دیتے تھے اور کہتے کہ آج ہم ایک گلاس کو صاف کرنے کے لیے کئی ایک گلاس پانی بے جا خرچ کرتے ہیں، گلاسوں کو پہلے گھسے بغیر صرف پانی پر پانی بہاتے جاتے ہیں، لہذا پہلے کچھ پانی لے کر گھسا جائے اس کے بعد تھوڑا پانی بہایا جائے جس سے گلاس بھی صاف ہوگا اور پانی کے اسراف سے بھی احتیاط۔
غیبت ،چغلی اور حسد سے اجتناب :۔
اسلام میں غیبت، چغل خوری اور حسد بڑے گناہوں میں شمار کیے جاتے ہیں، یہ تینوں حرام ہیں، قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بڑی شدت کے ساتھ ان گناہوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ بھی والدِ ماجد پر اللہ کا فضلِ خاص تھا کہ آپ نے ان تینوں گناہوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھا، گھر والوں نے آپ کو غیبت کرتے نہیں دیکھا،اس سے بچتے رہنے کی تعلیم بھی دیتےرہے، آپ کسی کی غیبت کرتے، نہ غیبت کرنے والوں کی مجلس میں بیٹھنا پسند فرماتےتھے۔ بلکہ ہر ایک کے لیے اچھا گمان رکھتےاور ہر ایک کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ فرماتے۔
حسد اور دوسروں کی ترقی پر جلن کا شائبہ بھی آپ میں نہیں تھا، ہمیشہ دوسروں کی ترقی اور عروج کے آرزو مند رہے، کسی کی ترقی سنتے توخوش ہوتے،ان کو دعاؤں سے نوازتے، ممکن ہوتا تو ان کا مزید تعاون کرتے، چوں کہ دنیاوی مادی چیزوں کی ان کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں تھی، اس لیے کوئی دنیاوی اعتبار سے ترقی کر تا تو ان کے لیے حسد کرنے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
صبر وحلم اور عفو و درگذر :۔
صبر و ضبط ، حلم و بردباری ، برداشت اور عفو ودرگزر یہ کچھ ایسے اوصاف وکمالات ہوتے ہیں جو بہت کم کسی ایک شخص میں جمع ہوتے ہیں، کئی ایک صبر کرنے والے وہ ہوتے ہیں جو وقتی صبر تو کر لیتے ہیں مگر آگے اس شخص کو برداشت نہیں کر پاتے، یا کبھی کسی کو برداشت بھی کر لیتے ہیں مگر ان کی غلطیوں کو نظر انداز نہیں کرتے، انتقام کے لیے وقت کی تلاش میں رہتے ہیں، کہیں کہیں ان کا تذکرہ کرتے ہیں یا اس کو ذہن و دماغ کے کسی نہ کسی گوشے میں محفوظ رکھتے ہیںاور وقت آنے پر جتلاتے بھی ہیں۔
مگر ابو جان میں صبر و ضبط، حلم و بردباری اور عفو و درگذر جیسے اوصاف بدرجۂ اتم موجود تھے، جس کا مشاہدہ ہوتا رہتا تھا۔ دو موقعوں پر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ نے ان واقعات کے صدور پر جو صبر کیا ہے، یقین سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان موقعوں پر صبر اور برداشت کا کام اچھے اچھے بزرگوں سے بھی شاید نہ ہو پاتا ، مگر آپ نے صبر و ضبط کے ساتھ ساتھ ان کے حق میں عفو ودرگزر سے بھی کام لیا اور دیر رات جب انھیں نیند بھی آرہی تھی مجھے سامنے بٹھا کر فرمایا کہ میں نے اللہ کے لیے ان کو معاف کر دیا۔پتہ نہیں اور اس طرح کے کتنے واقعات ہوں گے جو ان کے روز مرہ زندگی میں پیش آئے ہوں اور انھوں نے سونے سے پہلے ہی ان کو معاف کر دیا اور انتقامی جذبہ سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھا۔
سادگی، تواضع اور انکساری :۔
ابو جان عاجزی ، انکساری اور تواضع وسادگی کا پیکر تھے، طبیعت میں بالكل تشدد نہیں تھا، اس طرح کی مثالیں معدوم نہیں تو بہت کم ضرور ہیں ، آپ نے اپنے جدِ امجد حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تواضع ، آپ کی عاجزی وانکساری اور روز مرہ کی زندگی میں سادگی اپنے سامنے رکھی ، گویا وہ سادگی میں عہدِ اول کے صحابہ کی مثال تھے۔
مالی وسائل كے ہوتے ہوئے موٹا جھوٹا پہنتے، کپڑےبھی استری کیے بغیر پہنتے تھے، استری کیے بغیر کپڑوں کی شکنیں دور کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ کپڑے دھونے کے بعد خاص طریقے سے لپیٹ کر رکھتے تھے، جس سے شکنیں زیادہ نظر نہیں آتیں۔ آپ نے دوسے تین جوڑوں سے زیادہ لباس نہ ركھا،بقدرِ ضرورت استعمال كی چیزیں اپنے پاس ركھ كر باقی تقسیم کر دیتے۔ آپ کو نئے کپڑے سلوانے کی فکر گھر والوں کو ہوتی، کبھی نئے سلائے ہوئے جوڑے مہینوں بغیر استعمال کے پڑے رہتے، بچوں کے اصرار کے اسے استعمال کرتے تھے۔ اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں عید کے موقع پر اچھی طرح یاد ہے کہ اپنا نیا سلایا ہوا کپڑا مدرسے کے ایک سفیر کو دے دیا اور خود پرانا کپڑا پہنے۔
ہمدردری، فقراء پروری اور انسانیت نوازی :۔
رحم و کرم اور ہمدردی گویا آپ كی فطرتِ ثانیہ بن چكی تھی، آپ كسی كو تكلیف میں دیكھ نہیں سكتے تھے، جسے ضرورت مند پاتے، حسبِ توفیق وہدایت نوازتے، اس پر ستاری كا معاملہ فرماتے، گھر والوں كو بھی محسوس ہونے نہیں دیتے۔ والد صاحب كہتےتھے كہ اگر كوئی كسی دوسرے شخص كی مدد یا اس كا تعاون كرسكنے كے باوجود نہ كرےاور انسانیت كوفیض یاب نہ كرپائےتو یہ انسانیت نہیں اور یہ شعر بھی سناتے، ع :
دردِ دل كے واسطےپیدا كیا انسان كو ورنہ طاعت كے لیے كچھ كم نہ تھے كروبیاں
اس شعر كوپڑھتے ہوئے مطلب بھی سمجھاتے كہ كروبیاں سے مراد فرشتے ہیں،جوہر وقت اللہ تعالی كی عبادت میں لگے ہوئے ہیں،لہذا انسانیت نوازی انسان كا شیوہ ہوتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے كہ آپ كے نزدیك اس كی كیا اہمیت تھی۔ اس ضمن میں جو واقعات ہیں وہ ہم بیان كرنے سے قاصر ہیں، آپ نے اخلاص كے اعلی درجے كو سامنے ركھ كر كیا تھا، لہذا ہم اس موضوع پر كچھ لكھنا نہیں چاہتے ہیں، بس آپ نے اس اصول پر اپنے كو ركھا كہ جو ہماری ضرورت سے زائد ہے وہ ہمارا نہیں ہے، اس سے دوسروں كو فائدہ پہنچنا چاہیے۔ اللہ تعالی اسے شرف قبولیت سے نواز كر اس پر اجرِ عظیم عطا فرمائے۔
آپ اپنے عمل اور سلوک وبرتاؤ سے ہمیں یہ پیغام دے گئے ہیں کہ لوگوں کی خدمت کرنے، بے کسوں پر احسان کرنے، یتیموں کا سہارا بننے، فقرا ء و مساکین کے کام آنے، ضرورت مندوں کا ساتھ دینےاور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے سے فائدہ اپنا ہوتا ہے، اجر وثواب ہمیں ملتا ہے، اللہ ہم سے راضی ہوتا ہے، اس کے ذریعے ہمارے مسائل حل ہوتے ہیں، آڑے وقت میں یہی صدقات وخیرات کام آتے ہیں، اس لیے ہم یہ ہرگز نہ سمجھیں کہ ہم اپنے صدقات وخیرات اور خدمتِ خلق اور اکرمِ مسلم یے ان کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ یہ اللہ کی توفیق تھی کہ اس نے ہمیں موقع عطا فرمایاہے، اس پر ہمیں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے مزید کی توفیق مانگنی چاہئے۔
غریبوں کے ساتھ بیٹھ کر کھاناآپ کو بہت پسند تھا، ان کے ساتھ باتیں کرنے بیٹھ جاتے تو دیر تک بیٹھے رہتے، چائے پانی کا اہتمام فرناتے، دینی گفتگو کرتے۔ حتی کہ برادرانِ وطن کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا،کسی بھی مذہب کو برا بھلا کہے بغیر حکمت کے پیرایے میں اسلام کا تعارف ، اس کی حقانیت اور توحید پر بھی بات کرتے تھے۔
جانوروں کے ساتھ سلوک :۔
آپ کا کریمانہ برتاؤ اور اخلاقی سلوک صرف انسانوں تک محدود نہیں تھا، بلکہ بے زبان مخلوق کے ساتھ بھی شانِ کریمی کا ثبوت دیتے تھے اور کیوں نہ ہو جب کہ آپ اپنے جدِ امجد حضرتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کو اسوہ بنا کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس لیے آپ جانوروں کو پالنا بھی پسند کرتے ۔ ایک عرصے تک بکریاں پالیں، یہ بتاتے تھے کہ بکریاں پالنے سے دل میں نرمی پیدا ہوتی ہے، یہ سنتِ انبیاء ہےاور اس کے بہت سارے فوائد ہیں ۔ ہمیں وہ وقت اچھی یاد ہے کہ جس رات بھول کر یا کسی وجہ سے بکریاں باہر رہ گئیں، اب صبح اٹھنے کے بعد کیا دیکھتے ہیں کہ کتوں نے بکریوں پر حملہ کر دیا ہے اور سب بکریاں مری پڑی ہیں ، ان آنکھوں کے سامنے اب بھی وہ منظر تھا کہ اس وقت والدِ ماجد کی آنکھوں سے ذار وقطار جاری تھے، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ گھر میں کسی قریبی کی موت کا حادثہ پیش آیا ہو، وہ تاثر اس حد تک رہا کہ آپ نے اس کے بعد بکریاں پالنا بھی چھوڑ دیا۔
والد صاحب جب کھانے سے فارغ ہوتے تو دسترخوان پر موجود جھوٹا اور پھی فروٹ کے چھلکوں کو الگ الگ کر کے باہر گیت کے پاس ایک مخصوص اور صاف جگہ پر رکھ دیتے تھے، جہاں سے بلی، بکری اور کتوں کو کھانا مل جاتا۔ اس معمول میں بہت کم ناغہ ہوا ہوگا۔ اس کے اہتمام کا اندازہ آپ اس واقعے سے لگا سکتے ہیں کہ آپ کو جانوروں تک کا کیسے خیال رہتا تھا۔
جمعے کے روز آپ کہیں اور کسی کے گھر کھانا پسند نہیں کرتے تھےاور خود ہی مہمانوں کے ساتھ گھر میں رہتے، چاہے پورے گھر والے دعوت کے لیے چلے جائیں، لیکن ایک جمعہ حسبِ معمول ہم نانا جان کے گھر چلے گئے، اس بار خصوصی دعوت ہونے کی وجہ سے آپ کا کوئی عذر قبول نہ ہوسکا اور آپ بھی ہمارے ساتھ چلے آئے۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد دستر خوان کے جھوٹے اور اس پر موجود چچوری ہوئی ہڈیوں کو ایک ٹھلی میں جمع کیا، جب اس ٹھلی کو ساتھ لے جانے لگے تو حاضرین کو یہ منظر عجیب نظر آیا، کسی نے تعجب سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟؟، آپ جھوٹا یہیں چھوڑ دیں، یہیں پھینک دیں گے۔ اس پر کہنے لگے کہ گھر پر میری بلی اور کتے وغیرہ انتظار میں رہیں گے، آج ہمارے گھر کوئی نظم نہیں ہے، اس لیے یہیں سے لے جا رہا ہوں۔
میری ہمشیر زادی بنتِ مولانا عبد الباری علیہ الرحمۃ بیان کرتی ہیں کہ ایک رات میں سو رہی تھی، اچانک پلنگ کے نیچے نظر چلی گئی، جہاں ایک بلی نے چار بچے دئے تھے، میں گھبرا کر اٹھ گئی تو نانا جان نے کہا کہ گھبراؤ نہیں اور ایک ایک کرکے ان کو دھویا اورگھر کے دوسرے حصے کی صاف ستھری جگے پر ایک کپڑے پرکھ دیا۔
طہارت اور پاکی و ستھرائی :۔
طہارت ایمان کا ایک حصہ ہے، طہارت اور پاکی حاصل کیے بغیر عبادات بھی قبول نہیں ہوتیں۔کہتے تھے کہ "جس کی پاکی اور طہارت اچھی اس کا وضو اچھا ، جس کا وضو اچھا اس کی نماز اچھی”۔ چوں کہ نماز بغیر طہارت ظاہری اور باطنی درست اور نہیں ہوتی ہے، اس لیے اس پر بہت توجہ دیتے تھے۔اسی طرح عذابِ قبر كے دو بنیادی اسباب میں سے ایك سبب نجاست سے پاكی كا خیال نہ ركھنا ہے،لہذا اسے بتاتے ہوئے بھی ناپاكی سے بچنے كی تعلیم دیتے تھے۔
www.fikrokhabar.com