۔ ایسے ملک میں جس کا حکمران طبقہ خود کو جمہوریت پسند، مہذب اور انسان دوست کہلواتا ہے۔ امریکا کی وفاقی، ریاستی اور نجی جیلوں میں تقریبا 20لاکھ قیدی ہیں۔ ان میں بیشتر سیاہ فام یا لاطینی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ قیدی معمولی رقم کے عوض مختلف صنعتی اداروں کے لیے کام کر رہے ہیں۔ امریکی صنعت کاروں اور کاروباریوں کے لیے یہ بے بس قیدی سونے کی کان جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔صنعت کاروں کو یہ بالکل فکر نہیں ہوتی کہ ان کے یہ ملازم (قیدی) ہڑتال کر دیں گے۔ نہ ہی انھیں کسی قسم کی انشورنس کروانا پڑتی ہے۔ یہ ملازم نہ تو چھٹی کرتے اور نہ ہی ذاتی کاموں سے باہر جاتے ہیں۔ یہ سبھی کل وقتی ملازم ہیں، کبھی غیر حاضر نہیں ہوتے اور نہ ہی دیر سے آتے ہیں۔ مزید براں کوئی کارکن25سینٹ (25روپے) فی گھنٹہ پر کام کرنے سے انکار کرے ،تو اسے تنہا لاک اپ میں بند کر دیا جاتا ہے۔ ایک امریکی این جی او، کیلی فورنیا پرزن فوکس کا کہنا ہے کہ انسانی تاریخ میں کسی اور معاشرے میں اتنے زیادہ شہریوں کو جیلوں میں نہیں ٹھونسا گیا۔ اعدادوشمار کی رو سے آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ قیدی امریکا میں ہیں۔ مثلا چین کی آبادی امریکا سے پانچ گنا زیادہ ہے، لیکن وہاں کی جیلوں میں دس لاکھ قیدی بند ہیں۔اس وقت دنیا کے 25فیصدقیدی امریکا میں ہیں، جب کہ وہاں دنیا کی کل آبادی میں سے صرف 5فیصدافراد بستے ہیں۔ واضح رہے، 1972 میں امریکی جیلوں میں صرف تین لاکھ قیدی موجود تھے، لیکن آج ان کی تعداد بیس لاکھ تک پہنچ چکی۔ اسی طرح دس سال قبل ملک میں پانچ نجی جیلیں تھیں جن میں دو ہزار قیدی تھے۔ آج ایک سو نجی جیلیں ہیں ،جن میں باسٹھ ہزار افراد قید ہیں اور خیال ہے کہ آنے والے برسوں میں قیدیوں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ *سوال یہ ہے کہ پچھلے دس برس میں کایا پلٹ ہوئی کہ قیدیوں کی تعداد اتنی زیادہ بڑھ گئی؟ دراصل امریکا میں نجی جیلوں کا کاروبار نہ صرف باقاعدہ صنعت بن چکا بلکہ خوب پھل پھول بھی رہا ہے۔ اس میں سرمایہ لگانے والے تمام صنعت کار وال سٹریٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک امریکی سماجی کارکن، الزبیتھ وان بتاتی ہے کہ اربوں ڈالر مالیت رکھنے والی یہ صنعت اپنی تجارتی نمائشیں، کنونشن، ویب سائیٹس اور کیٹلاگ رکھتی ہے۔ یہی صنعت اپنی ایڈورٹائزنگ کمپنیاں، تعمیراتی کمپنیاں، سرمایہ کار کمپنیاں، غذائی کمپنیاں اور مسلح سکیورٹی رکھتی ہے۔پروگریسو لیبر پارٹی امریکا کی ایک سیاسی جماعت ہے۔ حال ہی میں پارٹی کی تحقیق نے انکشاف کیا کہ امریکا میں زیادہ سے زیادہ نجی ادارے قیدیوں سے کام کرانے لگے ہیں۔ یہی ادارے حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ سزاؤں کی میعاد بڑھائے تا کہ افرادی قوت میں اضافہ ہو سکے۔ تحقیق مرتب کرنے والوں کا کہنا ہے کہ آج جیلوں کی امریکی صنعت نازی جرمنوں کے نظر بندی کیمپوں سے ملتی جلتی ہے۔ وہاں بھی قیدیوں کو زبردستی غلام بنایا گیا تھا۔ایک امریکی این جی او لیفٹ بزنس آبزرور کے مطابق جیلوں میں بند قیدی ہی امریکی افواج کے لیے مطلوب 100فیصد فوجی ہیلمٹ، اسلحے، پٹیاں، بلٹ پروف جیکٹس، آئی ڈی ٹیگس، قمیضیں پتلونیں، خیمے اور بیگ تیار کرتے ہیں۔مسلح افواج کے علاوہ یہی بیس لاکھ قیدی امریکی مارکیٹ کے لیے98فیصد اسمبلی خدمات،93فیصد پینٹ اور پینٹ برش،92 فیصد چولھے،36فیصد گھریلو آلات، 30فیصد ہیڈ فون، مائیکروفون اور اسپیکر، 21فیصد دفتری فرنیچر فراہم کرتے ہیں حتی کہ قیدی ہی نابینا انسانوں کی مدد کرنے والے کتو ں کو تربیت دیتے ہیں۔
*جرائم میں کمی، قیدی بڑھ گئے؟ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ معمولی جرائم پر سزا دینا اور طویل المیعاد سزائیں دینا ہی وہ وجوہ ہیں، جن کی بنا پر جیلوں کی امریکی صنعت خوب ترقی کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر کسی شہری سے منشیات کی ایک قسم، کریک (Crack)صرف 5گرام برآمد ہو جائے تو اسے پانچ برس کی مدت کے لیے قید رکھنا ممکن ہے۔اسی طرح 2اونس سے کم کریک یا لاک کوکین (ایک اور قسم) برآمد ہو تو ملزم کے دس برس جیل میں گزرتے ہیں۔دوسری طرف کسی شہری سے 500گرام کوکین نکلے تو وہ پانچ سال کی قید پاتا ہے۔خاص بات یہ ہے کہ کوکین سفید فام متوسط یا اعلی طبقہ استعمال کرتا ہے۔ جب کہ سیاہ فام، لاطینی اور غریب طبقوں میں لاک کوکین مستعمل ہے۔ گویا امریکی قانون غریب دشمن ہے جو معمولی منشیات کی برآمدگی پر غریبوں کو طویل سزائیں دیتا ہے جبکہ جو امیر کئی گرام کوکین رکھے تب بھی وہ قانون کی گرفت میں نہیں آتا۔13 امریکی ریاستوں کا عجیب و غریب قانون یہ ہے کہ کسی ملزم کو تین بار سزا ہو جائے تو پھر اسے ساری عمر جیل میں رہنا پڑتا ہے۔ چناں چہ کوئی امریکی شہری تین بار،وقفے وقفے سے ایک کار اور دو موٹر سائیکلیں چرائے تووہ سیدھا پچیس سال کے لیے جیل خانے پہنچ جائے گا۔
*امریکا میں جیل خانہ جات کی تاریخ 1865 میں صدر ابراہام لنکن قتل ہوئے تو ان امریکی رہنماؤں کا پلہ پھر بھاری ہو گیا، جو غلامی برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ہی قیدی کرائے پر لینے دینے کا نظام متعارف کرایا تا کہ غلامی کسی نہ کسی طرح برقرار رہے۔ اس پر جس طرح عمل درآمد ہوا، وہ امریکی حکومت کے دامن پر بد نما داغ ہے۔خانہ جنگی کے دوران جن غلاموں کو آزادی مل گئی تھی، ان پر چوری یا ڈاکے کے جھوٹے الزامات لگا کر گرفتار کر لیا گیا۔ انہی بے گناہ قیدیوں سے پھر کارخانوں میں کام کرایا گیا اور سڑکیں تعمیر کرائی گئیں۔مثال کے طور پر1870 کے لگ بھگ امریکی ریاست جارجیا نے جو قیدی کرائے پر لیے، ان میں 88فیصد سیاہ فام تھے۔ اسی طرح ریاست الباما کی کانوں میں کام کرنے والے 93فیصد قیدی سیاہ فام تھے۔ ریاست مسس سپی میں وسیع و عریض فارموں میں وہی سیاہ فام بحیثیت قیدی کام کرنے لگے جو پہلے وہاں بطور غلام مصروف کار تھے۔خانہ جنگی کے بعد امریکی حکومت نے تعصب پر مبنی جم کرو قوانین متعارف کرائے۔ ان قوانین کے ذریعے اسکولوں، بستیوں، شادی ہالوں، ریلوے اسٹیشنوں وغیرہ میں سیاہ فاموں اور سفید فاموں کو الگ الگ کر دیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اب جیلوں کو صنعت کا درجہ دے کر مجرمانہ اور غیر انسانی قوانین پھر متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ فی الوقت37امریکی ریاستیں قانونی طور پر کمپنیوں کو یہ اجازت دے چکیں کہ وہ جیلوں میں قیدیوں سے کام کرا سکتی ہیں۔اس فہرست میں نامی گرامی امریکی ملٹی نیشنل کمپنیاں شامل ہیں مثلا آئی بی ایم، مائیکرو سوفٹ، بوئنگ،موٹرولا، اے ٹی ایند ٹی، ڈیل، کمپاک، ہنی ویل اور ٹارگٹ اسٹور وغیرہ۔ یہ تمام کمپنیاں قیدیوں سے کام لے کر بہت خوش ہیں کیونکہ انھیں سستی افرادی قوت جو میسر آ گئی۔نجی اور سرکاری جیلوں میں قیدیوں کی تنخواہوں میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔ مثلا نجی جیلوں میں فی گھنٹہ تنخواہ 17تا 25سینٹ فی گھنٹہ ہے۔ گویا ان میں قیدی روزانہ چھ گھنٹے کام کرے تو20 ڈالر (دو ہزار روپے) ماہانہ کماتا ہے۔ جب کہ سرکاری جیلوں میں قیدی روزانہ آٹھ گھنٹے کام کرتا اور فی گھنٹہ سوا ڈالر کما پاتا ہے، پھر اسے اوور ٹائم بھی ملتا ہے۔ چناں چہ وہ ماہانہ 200ڈالر (20ہزار روپے) تا300 ڈالر (30ہزار روپے) گھر بھجوا سکتا ہے۔قیدیوں سے کام لینے کی برکت ہی ہے کہ اب امریکی کمپنیاں غیر ممالک سے کارخانے واپس امریکامنتقل کر رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک مشہور ملٹی نیشنل کمپنی نے میکسیکن سرحدی شہر، ماکوٹلا دور میں اپنا اسمبلی پلانٹ بند کیا اور سارا کام سان کونتین اسٹیٹ جیل (کیلی فورنیا) میں منتقل کر دیا۔ اسی طرح ٹیکساس میں ایک فیکٹری نے اپنے 150ملازم نکالے اور ان کا کام نجی لاک ہارٹ ٹیکساس نامی جیل میں قیدیوں کے سپرد کر دیاحتی کہ کچھ عرصہ قبل ریاست اوریگن کے رکن اسمبلی کیون مینکس نے جوتے بنانے والی مشہور کمپنی نائکے (Nike)کو مشورہ دیا انڈونیشیامیں اپنے کارخانے بند کرو اور واپس ریاست میں لے آؤ۔ یہاں کمپنی کا ٹرانسپورٹیشن خرچ بچے گا، نیز ہم قیدیوں کی صورت سستی افرادی قوت دیں گے۔
*نجی جیلیں امریکا میں نجی جیلیں کھولنے کا رجحان1980 کے بعد رونالڈ ریگن اور بش سینئر کے ادوار میں شروع ہوا۔ یہ پھر بل کلنٹن کے دور میں پھلا پھولا۔ جب صدر کلنٹن نے وفاقی اداروں میں ملازمین کی تعداد کم کی تو محکمہ داخلہ نے نجی اداروں کو نجی جیلیں کھولنے کی اجازت دے ڈالی۔آج نجی جیلیں کھولنے کا دھندا بڑا منافع بخش کاروبار بن چکا۔ فی الوقت 27ریاستوں میں واقع 100نجی جیلوں میں ہزاروں قیدی بند ہیں۔ منافع بخش ہونے کا ایک راز یہ بھی ہے کہ جیلیں کم سے کم گارڈ جب کہ زیادہ سے زیادہ قیدی رکھتی ہیں۔کوریکشنل کارپوریشن آف امریکا نامی کمپنی سب سے زیادہ نجی جیلیں رکھتی ہے۔ اس کی بیشتر جیلوں میں ہر750قیدیوں پر صرف پانچ گارڈ نگران ہیں۔ ان جیلوں میں کوئی اچھے رویہ کا مظاہرہ کرے تو بمشکل اس کی سزا کم ہوتی ہے، لیکن قیدی معمولی مار پیٹ بھی کر ڈالے تو اس کی سزا 30دن بڑھ جاتی ہے۔
جواب دیں