ظہیر الدین خان، اردو صحافت کا ایک انقلاب تھا جو گزر گیا

  ظفرآغا

ظہیر الدین! کہاں سے لاؤں، کہاں سے پاؤں تم کو۔ تم تو چلتے چلتے چلے گئے اور ہم ہاتھ ملتے رہ گئے۔ بھلا ایسے کوئی سب کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ تم تو خود ایک جنازے میں شرکت کرنے گئے تھے اور خود ایک لاش بن کر گھر لوٹے۔ ایسا کسی کو گمان بھی نہ تھا۔ ارے اور تو اور خود تم نے بھی کبھی یہ نہ سوچا ہوگا۔ کچھ بیماری، نہ دکھی، بس سکنڈوں میں چل بسے۔ سنتے ہیں تم نے تو ڈاکٹروں کو بھی کوشش کا کوئی موقع نہیں دیا۔ یہ بھی خیال نہیں کیا کہ اہل خانہ، رشتہ دار، سیاست کا کنبہ، دوست و احباب پر تمھارے چلے جانے سے کیا بیتے گی۔ حقیقت بتاؤں، یہ سب تو سمجھ بھی نہیں پا رہے کہ یہ کیا ہوا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہندوستانی عالم صحافت تمھارے جانے سے سکتے میں ہے۔ غالباً تم وہ واحد اردو صحافی ہو جس کا غم کم از کم اردو، ہندی، انگریزی اور تیلگو زبانوں میں برابر محسوس کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ تم ان تمام زبانوں کے قدآور صحافی تھے۔ یہ تمام زبانیں تمھارا خلا پر کرنے سے خود کو قاصر محسوس کر رہی ہیں۔

بھائی ظہیر الدین تمھارا نظیر ڈھونڈ پانا مجھے تو ناممکن نظر آتا ہے۔ امریکہ سے صحافت میں ڈگری حاصل کی اور میدان صحافت میں کود پڑے۔ صحافت تو تمھاری رگوں میں دوڑ رہی تھی۔ تم نے جناب محبوب علی خاں کے گھر آنکھیں کھولی تھیں، تم کو بھائی زاہد علی خان کی سرپرستی حاصل تھی۔ یہ دونوں ہی اردو صحافت کے خورشید تھے۔ صحافت تو تمھاری وراثت تھی۔ اور اردو زبان کا فروغ بھی تمھاری خاندانی وراثت کا ہی حصہ تھا۔ تب ہی تو امریکہ سے واپسی پر تم نے بھی جناب محبوب علی خان مرحوم اور زاہد علی خان کی سرپرستی میں اردو صحافت کو ہی اپنا میدان عمل بنایا۔ لیکن تم نے اپنا دائرۂ عمل محض اردو تک محدود نہیں رکھا بلکہ تم نے امریکہ میں جو کچھ سیکھا تھا اس کا استعمال اردو صحافت کا دائرہ بڑھانے میں استعمال کیا۔

بھائی ظہیر تم نو عمری میں ہی سیاست (حیدر آباد) جیسے روزنامے کے منیجنگ ایڈیٹر ہو گئے۔ جیسا کہ سب واقف ہیں تم نے شروع سے ہی یہ طے کیا کہ کس طرح اردو صحافت کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے اس کو وسعت دی جائے۔ بھائی اردو صحافت میں تم سے قبل اخباروں کی دنیا سرکاری اشتہارات کی مرہون منت ہوا کرتی تھی۔ ظاہر ہے کہ سب کوئی سرکار کا احسان مند ہوگا تو پھر اس کی بس گائے گا۔ تم نے پہلا تجربہ یہ کیا کہ سیاست اخبار کو کیسے محض سرکار کے رحم و کرم سے باہر نکالا جائے۔ اس کے لیے صرف یہی راستہ تھا اور وہ سیاست کے لیے زیادہ سے زیادہ پرائیویٹ ایڈ ریوینیو پیدا کیا جائے اور تم نے یہ جلد ہی کر دکھایا۔ اتفاقاً عرب دنیا سے حیدر آباد آنے والی دولت نے حیدر آباد کے اردو داں طبقہ میں ایک بڑا تجارت مند طبقہ پیدا کر دیا تھا۔ وہ طبقہ اردو زبان کے ذریعہ اپنی تجارت کو ترقی دینے کے لیے خواہش مند تھا۔ تم نے روزنامہ سیاست کو ایک میڈیم بنایا کہ وہ طبقہ خود بخود اپنے اشتہارات سیاست کو دینے پر مجبور ہو گیا۔ اس طرح ہندوستانی اردو صحافت میں پہلی بار روزنامہ سیاست ایسا اخبار بن گیا جو سرکار کی نگاہ کرم سے باہر نکل گیا۔ یہ اردو صحافت میں ایک انقلاب تھا جس کے لیے اردو صحافت ہمیشہ ظہیر الدین خان تمھاری مرہون منت رہے گی۔ اردو کو آزادانہ طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا ہنر تم نے ہی دیا جو یقیناً میدان صحافت کی پہلی ضرورت ہوتی ہے۔

بھائی ظہیر یہ تو محض تمھاری ایک پہلی کاوش تھی جس میں تم پوری طرح کامیاب رہے۔ اس کے علاوہ تم نے اردو صحافت کو جو وسعت دی اس کا تصور تم سے قبل کوئی اور نہیں کر سکتا تھا۔ اردو صحافت کو اکیسویں صدی کی ڈیجیٹل صحافت سے جوڑنے کا کارنامہ بھی تمھاری ہی سرپرستی میں ہوا۔ اردو تو اردو، روزنامہ سیاست سے قبل دوسری اہم زبانوں میں شائع ہونے والے اخبار بھی جب کوئی ڈیجیٹل ایڈیشن نہیں رکھتے تھے، اس وقت روزنامہ سیاست کا ہر روز ڈیجیٹل ایڈیشن چھپنے لگا۔ سچ بتاؤں تو جب میں ڈیجیٹل صحافت کی ڈی سے بھی نہیں واقف تھا، تب میرا کالم ہر اتوار روزنامہ سیاست میں چھپتا تھا۔ اور میں نے اخبار کا پہلا ڈیجیٹل ایڈیشن سیاست کا ہی دیکھا۔ بھائی یہ تمھارا ہی کرشمہ تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں، ظہیر میاں آپ نے تو دیکھتے دیکھتے سیاست کا پورٹل اردو، ہندی اور انگریزی تین زبانوں میں شروع کر دیا جو تینوں زبانوں میں کمال کر رہا ہے۔ ساتھ ہی سیاست کا حیدر آباد میں ریڈیو ایڈیشن بھی چل رہا ہے۔ لب و لباب یہ کہ اردو صحافت میں انقلاب بپا کرنے کا نام ظہیر الدین خان ہے۔ افسوس وہ شخصیت ہی نہیں بلکہ تم اپنے ساتھ وہ انقلابی طرز صحافت بھی لے گئے۔

آخری ایک بات اگر تمھارے بارے میں نہ کہوں تو قلق رہ جائے گا۔ بھائی ظہیر اردو صحافت کو سوشل ایکٹیوزم سے جوڑنے والے بھی تم ہی تھے۔ مسلم خاندانوں میں بغیر جہیز کے شادی کیسے ہو، مسلم میدان تعلیم، روزگار اور جدید دنیا میں کیسے ترقی کرے، اس کی راہیں بھی تم نے سیاست کے پلیٹ فارم سے اردو پڑھنے والوں کو عطا کیں۔ ہائے اتنی قلیل عمر میں بھائی ظہیر تم جو کچھ کر گزرے، وہ عموماً باصلاحیت اشخاص دو جنم میں بھی نہیں حاصل کر پاتے۔ اس کا سہرا صرف تم کو ہی نہیں بلکہ تمھارے والد مرحوم محبوب علی خاں اور بڑے بھائی جناب زاہد علی خاں صاحب کو جاتا ہے جن کی سرپرستی نے تم کو ہر میدان میں اپنے ہنر کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ہمت عطا فرمائی۔

میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اردو صحافت کس طرح تمھارا نقصان پُر کرے گی۔ بس یہی کہہ سکتا ہوں، بھائی ظہیر الدین خان خدا حافظ!

 

«
»

سرکار دو عالم ﷺ کی شخصیت سراپا رحمت ہے

’مسلم سیاست‘ کو کچلنے کی غیر معلنہ پالیسی پر مسلسل عمل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے