یوم عاشوراء کی اہمیت و فضیلت

 محمد قمر الزماں ندوی

تقویمِ اسلامی کے سب سے پہلے مہینے محرم الحرام کا دسواں دن اور بعض روایات میں نواں دن یوم عاشورہ کہلاتا ہے، یوم عاشوراہ محرم کی دسویں تاریخ کے سلسلے میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس دن بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے۔ اسی دن بنی اسرائیل کو ان کے دشمن فرعون سے نجات دلائی گئی۔ اسی دن فرعون کو غرق کیا گیا۔ مسند احمد کی روایت کے مطابق اسی یوم عاشورہ کو نوح علیہ السلام کی کشتی جو دی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئی اور اسی روز حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ بھی پیش آیا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ یہودی یوم عاشورہ کی بہت تعظیم کرتے تھے اور اس دن عید مناتے تھے۔ خیبر کے یہودیوں کی عورتیں اس دن عمدہ لباس اور زیور پہنتی تھیں۔ ’’عاشوراء‘‘ کا یہ لفظ الف ممدودۂ کے ساتھ ہے’’عاشورہ‘‘ پڑھنا اور لکھنا جو مروج ہے، درست نہیں ہے۔ (حاشیہ صاوی علی الشرح الھندیہ جلد آر صفحہ 691)
یوم عاشوراء زمانۂ جاھلیت میں
یوم عاشورہ زمانۂ جاہلیت میں قریش مکہ کے نزدیک بھی بڑا محترم دن تھا۔ اسی دن خانۂ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے۔ قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کی کچھ روایات اس دن کے بارے میں ان تک پہنچی ہوں گی۔ اور رسول اللہ ﷺ کا دستور تھا کہ قریش ملتِ ابراہیمی کی نسبت جو اچھے کام کرتے تھے۔ ان میں آپؐ ان سے اتفاق اور اشتراک فرماتے تھے۔ پس اپنے اس اصول کی بنا پر آپؐ قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے چنانچہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں۔ قریش زمانہ جاہلیت میں یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ ﷺ بھی جاہلیت کے زمانے میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپؐ مدینہ تشریف لائے اور یہاں کے یہود کو بھی آپؐ نے عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان سے آپؐ کو معلوم ہوا کہ یہود کے یہاں یہ دن انتہائی مبارک و مسعود ہے تو آپؐ نے اس دن روزے کا اہتمام فرمایا اور مسلمانوں کو عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھیں۔
یوم عاشوراء کی تعین اور اہل علم کی تحقیق
یوم عاشورہ کی تعیین کے سلسلے میں روایات میں اختلافات پایا جاتا ہے بعض رویات سے ثابت ہوتا ہے کہ عاشورہ محرم کی دسویں تاریخ کو کہتے ہیں۔ اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں۔ لیکن بعض کے نزدیک اس سے مراد محرم الحرام کی نویں تاریخ ہے۔ پہلی صورت میں یوم کی اضافت گزشتہ رات کی طرف ہوگی۔ اور دوسری صورت میں یوم کی اضافت آئندہ رات کی طرف ہوگی۔ غالبا اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ آنحضرتؐ نے یوم عاشوراہ کا رازہ رکھنے کا حکم دیتے وقت فرمایا کہ یہودچوں کہ دسویں محرم کو عید مناتے ہیں اور روزہ کرھتے ہیں اس لئے تم نویں یا گیارہویں محرم کو روزہ رکھو اور فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو یہود کی مخالفت کرتے ہوئے تو نویں محرم کو روزہ رکھوں گا۔
اس کی تائید حضرت ابن عباسؓ والی حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ الحکم بن الأعرج کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباسؓ کے پاس گیا جبکہ وہ زمزم کے پاس اپنی چادر کا تکیہ بنائے ہوئے تھے اور میں نے پوچھا کہ مجھے یوم عاشورہ کے بارے میں بتائیے کیوں میں اس کا روزہ رکھنا چاہتا ہوں۔ ابن عباس ؓ کہنے لگے کہ جب محرم الحرام کا چاند نظر آئے تو دن گننا شروع کر دو اور پھر نو تاریخ کی صبح کو روزہ رکھو۔ تو میں نے پوچھا کیا حضرت محمدؐ بھی اسی دن روزہ رکھتے تھے؟ ابن عباسؓ کی روایت کی بنیاد آنحضرتؐ کا یہی ارشاد ہے کہ میں آئندہ سال زندہ رہا تو یہود کی مخالفت کرتے ہوئے نویں محرم کو عاشورہ کا روزہ رکھوں گا۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ نے ایک موقع پر کہا کہ تم لوگ یہودیوں کی مخالفت کرتے رہو نویں اور دسویں محرم کو دونوں دن روزہ رکھو۔
یوم عاشوراء کی فضیلت
یوم عاشورہ کی فضیلت اور اس کے روزے کی اہمیت کے بارے میں متعدد روایات آنحضرتؐ اور آپ کے صحابہؓ سے منقول ہیں چند روایات کتبِ احادیث سے پیش کی جاتی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کے بعد سب سے زیادہ افضل روزہ محرم کا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ یوم عاشورہ کا روزہ رکھو کیوں کہ اس دن کا روزہ انبیاء کرام رکھا کرتے تھے۔ ایک موقع پر آنحضرتؐ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا اگر ماہ رمضان کے علاوہ روزہ رکھنا چاہو تو پھر محرم کا روزہ رکھا کرو۔ کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں ایک دن ایسا ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے پچھلے لوگوں کی توبہ قبول فرمائی اور اسی دن آئندہ بھی لوگوں کو توبہ قبول فرمائیں گے۔ یوم عاشورہ کے موقع پر لوگوں کو سچی توبہ کی تجدید پر ابھارا کرو اور توبہ کی قبولیت کی امید دلاؤ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس دن پہلے لوگوں کی توبہ قبول کر چکے ہیں اسی طرح آنے والوں کی بھی توبہ قبول فرمائیں گے۔ (ترمذی) (بحوالہ دائرہ معارف اسلامیہ جلد12)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ میں نے نہیں دیکھا کہ آپ کسی فضیلت والے دن کے روزے کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے ہوں اور بہت زیادہ فکر کرتے ہوں سوائے اس دن یوم عاشورہ کے سوائے اس ماہ مبارک رمضان کی۔ (بخاری مسلم)
عاشوراء کے روزہ کا حکم
بعض احادیث میں ہے کہ آپؐ نے یوم عاشورہ کے روزے کا ایسا تاکیدی حکم دیا جیسا حکم فرائض اور واجبات کے لئے دیا جاتا ہے چنانچہ ایک مرتبہ عاشورہ کے موقع پر آپؐ نے انصار مدینہ کی بستیوں میں یہ اعلان کرا دیا کہ لوگوں میں جس نے روزہ رکھا ہے۔ اسے پورا کرے اور جس نے نہیں رکھا وہ اسی حال میں دن گزارے اور کچھ نہ کھائیں پئیں بلکہ روزہ داروں کی طرح رہیں۔ اس کے بعد انصار مدینہ کا یہ معمول تھا کہ وہ یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ ان کے بچے بھی روزہ رکھتے تھے۔ بچوں کو مسجد میں لے جاتے انہیں کھلونے دیتے لیکن جب کوئی بچہ بھوک سے روتا تو اسے کھانا بھی کھلا دیا جاتا تھا۔ ان احادیث کی بنا پر بہت سے ائمہ نے یہ سمجھا ہے کہ شروع میں عاشورہ کا روزہ واجب تھا۔ بعد میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور اس کی حیثیت ایک نفلی روزے کی رہ گئی۔ جس کے بارے میں رسولؐ کا یہ ارشاد گرامی بھی ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس کی برکت سے پہلے ایک سال کے گناہوں کی صفائی ہوجائے گی۔
اور صوم عاشورہ کی فرضیت منسوخ ہوجانے کے بعد بھی رسول ؐ کا معمول یہی رہا کہ آپؐ رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ سب سے زیادہ اہتمام نفلی روزوں میں اسی کا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب آنحضرتﷺ نے عاشورہ میں روزے رکھنے کو اپنا اصول و معمول بنا لیا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہؓ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ؐ اس دن تو یہود و نصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (اور یہ گویا ان کا قومی، ملی اور مذہبی شعار ہے) تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ انشاء اللہ جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو روزہ رکھیں گے۔ عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں لیکن اگلے سال کا محرم آنے سے پہلے ہی رسولؐ کی وفات ہوگئی۔
موجودہ زمانہ میں عاشوراء کا روزہ دو یا ایک
مولانا منظور صاحب نعمانیؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں ’’نویں کو روزہ رکھنے کا آپؐ نے جو فیصلہ فرمایا اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور علماء نے دونوں بیان کئے ہیں، ایک یہ کہ آئندہ سے ہم بجائے دسویں کے یہ روزہ نویں محرم ہی کو رکھیں گے۔ اور دوسرا یہ کہ آئندہ سے ہم دسویں محرم کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھا کریں گے اور اس طرح سے ہمارے اور یہود و نصاریٰ کے طرز عمل میں فرق ہوجائے گا۔ اکثر علماء نے اسی دوسرے مطلب کو ترجیح دی ہے اور یہ کہا ہے کہ یوم عاشورہ کے ساتھ اس سے پہلے نویں کا روزہ بھی رکھا جائے اور اگر نویں کو کسی وجہ سے نہ رکھا جا سکے تو اس کے بعد کے دن گیارہویں کو رکھ لیا جائے۔‘‘
آگے لکھتے ہیں: ’’یہ عاجز عرض کرتا ہے کہ ہمارے زمانے میں چونکہ یہود و نصاریٰ و غیرہ یوم عاشورہ (دسویں محرم) کو روزہ نہیں رکھتے، بلکہ ان کا کوئی عمل بھی قمری مہینوں کے حساب سے نہیں ہوتا اس لئے اب کسی اشتراک اور تشابہ کا سوال ہی نہیں رہا لہذا فی زمانہ رفع تشابہ کے لئے نویں یا گیارہویں کا روزہ رکھنے کی ضرورت نہ ہونی چاہیے (واللہ اعلم) (معارف الحدیث ج4 ص171)
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی تحریر فرماتے ہیں:
’’مسنون روزہ یوم عاشوراء (دس محرم) اور اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ ہے، حضرت ابو قتادہؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: خدا کی ذات سے امید ہے کہ اس دن کا روزہ گزرے ہوئے سال کے گناہوں کے لئے کفارہ ہوجائے گا۔ چوں کہ یہودی بھی اس دن روزہ رکھا کرتے تھے اس لئے آپؐ نے امتیاز کے طور پردس کے ساتھ نو محرم کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ہے بلکہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے خود آپ کا بھی یہی معمول نقول کیا ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء اً یہی روزہ فرض تھا اور ما قبل اسلام ہی سے قریش یہ روزہ رکھا کرتے تھے، بعد کو جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو اس روزہ کی فرضیت منسوخ ہوگئی۔
امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک تنہا دس تاریخ کو روزہ رکھنا مکروہ ہے، مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کے یہاں مکروہ نہیں۔ خیال ہوتا ہے کہ چوں کہ فی زمانہ یہودیوں کے یہاں قمری کیلینڈر مروج ہے اور نہ اس دن روزہ رکھنے کا اہتمام ہے، اس لئے نو تاریخ کو روزہ رکھنے کی اصل علت یعنی یہود سے تشبہ اور مماثلت موجود نہیں، لہذا تنہا دس محرم کو روزہ رکھنا بھی کافی ہے۔ واللہ اعلم (بحوالہ قاموس الفقہ جلد4 لفظ صوم)
اہل عیال پر فراخی کی روایت
ایک روایت عوام میں معروف ہے کہ من وسع علی عیالہ فی یوم عاشوراء وسع اللہ علیہ فی سنۃ کلھا۔ جو عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر وسعت برتے اللہ تعالیٰ اس پر پورے سال وسعت میں رکھیں گے۔
اس بنا پر حصکفی، شامی اور صاوی وغیرہ نے اس دن بال بچوں پر خرج کرنے میں فراخی کو مستحب قرار دیا ہے، حصکفی نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر حدیث کو بھی صحیح قرار دیا ہے، بلکہ خود سیوطی نے بھی اس پر ’’صحیح‘‘ کا رمز لگا یا ہے، لیکن محقق علماء کے نزدیک یہ ادعا درست نہیں ہے، اس روایت کو طبرانی نے حضرت ابو سعید خدریؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے نقل کیا ہے، پہلی حدیث میں محمد بن اسماعیل جعفری اور دوسری حدیث میں ہیصم بن شداخ ہیں، بیہقی نے ان دونوں ہی راویوں کا حد درجہ ضعیف ہونا نقل کیا ہے، ابن رجب نے اس کو ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ جتنی سندوں سے مروی ہے سبھی ضعیف ہیں، ابن عدی نے اس کو حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کیا ہے، لیکن یہ قول زین الدین عراقی اس میں تین تین ضعیف راوی موجود ہیں، حجاج بن نصیر، محمد بن ذکوان، سلیمان بن ابی عبداللہ بلکہ ابن جوزی نے تو اس کو موضوع اور مجد الدین فیروز آبادی نے قاتلان حسین کی من گھڑت بات قرار دیا ہے۔
سرمہ لگانے کی روایت
یہی حال اس روایت کا ہے جس میں اس دن سرمہ لگانے کی ترغیب آئی ہے ’’علامہ سخاویؒ اور ملا علی قاریؒ نے اس کو موضوع و بے اصل اور سیوطی نے حد درجہ ضعیف قرار دیا ہے، فقہ حنفی کی معروف کتاب ’’قنہ‘‘ میں اس سے اجتناب کو واجب کہا گیا ہے، اس لئے حقیقت یہ ہے کہ صحیح بات وہی ہے جو ابن الغز حنفی نے کہی ہے کہ یوم عاشوراء میں سوائے روزہ کے اور کچھ ثابت نہیں، بلکہ روافض کے ماتم کے مقابلہ جہلاء اہل سنت نے اظہار سرور کے لئے یہ سب طریقہ اختیار کیا تھا، اور سچ پوچھئے تو اس طرح کی روایتوں کے پیچھے ناصبیہ اور اعداء اہل بیت کا ہاتھ ہوگا، لعنۃ اللہ علیھم الی یوم القیامۃ اس دن کھانے میں فراخی کی روایت یوں بھی غلط معلوم ہوتی ہے کہ ایک طرف روزہ کا حکم اور دوسری طرف فراخی کے حکم کا متعارض ہونا ظاہر ہے۔
کلمۂ آخریں
الغرض عاشوراء کی اہمیت و فضیلت اس بات کا متقاضی ہے کہ اس دن روزہ رکھا جائے اور پورے دن کو ذکر خداوندی اور یاد الہی میں گزارا جائے، روزہ رکھنے سے فائدہ ملے گا کہ ان دن زیادہ نیکی اور ثواب کمانے کا موقع ملے گا۔ اور ساتھ ہی اس اہم دن کو سنجیدگی کے ساتھ گزارنے کا موقع ہوگا۔ یوم عاشوراء کے متبرک موقع پر یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ اس عظیم دن کو لا پرواہی میں گزار دیا جائے۔ یا اس دن غیر مناسب کام کئے جائیں ، اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو اس دن کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

«
»

بھارت چھوڑو تحریک اوربھارت چھوڑو نعرے کاخالق یوسف مہر علی

ذی الحجہ کے دس دنوں کی فضیلت و اہمیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے