ورقی کتاب یا برقی کتاب؟
مطالعہ بیزار قارئین کا فرضی جھگڑا
ازقلم:حارث بمبوی
متعلم:عربی چہارم جامعہ ڈابھیل
سائنس اور ٹیکنالوجی کی شبانہ روز ترقی نے جہاں وسائلِ نقل و حمل کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے، وہیں علوم و معارف کے باب میں اُس کی پیش قدمیوں نے انسان کے لیے معلومات کے دہانے کھول دیے ہیں۔ زمانۂ قدیم میں علم و تعلّم کے لیے لوگ ہزاروں میل کا دشوار گزار سفر طے کرتے تھے، تب جاکر علم کے دو چار حرف ہاتھ لگتے تھے، جنہیں وہ اپنی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ شمار کرتے تھے؛ حتی کہ بیشتر عاشقانِ علم نے اسی راہ میں اپنی زندگی تک قربان کرڈالی اور اپنی ہستی کو مٹا کر ہمیشہ کے لیے زندۂ جاوید بنا گئے۔
بعد کے دنوں میں انسانی ترقّی کے ساتھ علم و معرفت کے طریقے بھی بہتر ہوگئے، کتابت کا رواج ہوا، جانور کی ہڈیوں اور لکڑے کے تختوں پر لکھا گیا، ہوتے ہوتے لکڑی کے قلم کی جگہ فاؤنٹن پین نے لے لی اور تختوں، چمڑوں اور ہڈیوں کی جگہ کاغذ آگئے، کتابیں نقل ہونے کے بجائے پریس سے چھپنے لگیں، اور مختلف ادوار سے گذرتے ہوئے اب "برقی کتابیں" بھی منظرِ عام پر آگئی ہیں، جو بلاشبہ علم و معرفت کے حصول کا ایک اعلیٰ وسیلہ ہے۔
اِس ترقی کی لاکھ خامیاں ہوں گی مگر اس کا ایک کارنامہ الیکٹرانک کتابیں بھی ہیں، جن کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے حتی کہ "ورقی کتاب" مارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی آن لائن ملنا شروع ہو جاتی ہے۔ "برقی کتاب" کے اِس طوفان کے سامنے "ورقی کتاب" مزاحمت کرتی نظر آتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں کی صنفیں الگ الگ ہوں اور ان کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو۔ بہت سارے لوگ "برقی ایڈیشن" کو اچھا نہیں سمجھتے اور دن رات "ورقی کتابوں" کے گن گاتے پھرتے ہیں بلکہ ایک طریقے سے الیکٹرانک کُتب کے تئیں متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں۔ اُن کا شکوہ ہوتا ہے کہ وہ کتابوں کی خوشبو نہیں پاتے، ورق اُلٹنے کے مزے سے محروم ہیں، وہ قلم سے کتابوں کے حاشیہ پر کُچھ لکھ نہیں سکتے، اس میں نشانی نہیں رکھ پاتے، لیٹ کر بے فکری سے یا گود میں رکھ کر اسے زیادہ دیر تک پڑھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے، قاری اور کتاب کے درمیان جو ربط اور محبت ہے اس کا احساس نہیں ملتا، موبائل اور لیپ ٹاپ کی بیٹری ڈاؤن ہو تو مطالعہ ہی نہیں ہوپاتا، آنکھوں کو دقّت ہوتی اور بینائی کمزور ہوتی ہے، وقتاً فوقتاً میسیج اور نوٹیفیکشن آنے سے دھیان بٹتا اور ذوقِ مطالعہ گھٹتا ہے، ہر گھڑی کتاب اور کتاب خواں کے درمیان کسی اجنبی واسطے کا احساس رہتا ہے اور یوں اس سے مکمل طور پر استفادہ ممکن نہیں ہو پاتا۔
ان سبھی باتوں سے انکار ممکن نہیں، واقعی "برقی کتابوں" میں یہ خامیاں موجود ہیں جن میں سے بیشتر کی اصلاح نہیں کی جاسکتی، یہ ان کے وجود کا لازمہ اور خاصّہ بن گئی ہیں؛ مگر ساتھ ہی ساتھ "ورقی کتابیں" بھی چند ایسے خصائص و کمالات سے محروم ہیں جو برقی کُتب میں ہیں۔ غایت دونوں کی علوم و معرفت کا حصول ہے، بس طریقۂ کار کا اختلاف ہے اور یہ اختلاف بھی تناقض نہیں؛ بلکہ توافق کے قبیل سے ہے، جسے بد قسمتی سے لوگ متضاد سمجھ رہے ہیں۔ "اصل میں دونوں (ورقی اور برقی) کے درمیان کمال کا تعلق ہے، نہ کہ تقابل کا، یعنی ورقی اور برقی کتابیں ایک دوسرے سے مل کر مکمل ہوتی ہیں، ان میں سے ہر ایک کے اپنے خصائص اور مثبت و منفی پہلو ہیں "۔
مسئلہ دونوں کے درمیان مسابقت کا نہیں، بلکہ ذوقِ مطالعہ کے فقدان کا ہے،جن حیلے بہانوں کے پیچھے چھپ چھپاکر ہم" مشرقی" مطالعے سے بھاگتے اور برقی کتب کو بدنام کرتے ہیں" مغرب کے لوگ" ان ہی خامیوں کو کمال بناکر کتاب و مطالعے کے گرویدہ بنتے جارہے ہیں، ایک نجی تنظیم کے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ عالم عرب میں فرد کے مطالعہ کی سالانہ شرح محض "ربع صفحہ" ہے، ایک رپوٹ کے مطابق عربوں میں سالانہ ۸۰/ افراد مل کر ایک چھوٹی سی کتاب کے برابر مطالعہ کرتے ہیں؛ جب کہ تنہا ایک یورپی شخص سال میں ۳۵/ کتابیں پڑھتا ہے، اسی طرح اسرائیلی شخص سال بھر میں ۴۰/ کتابوں کا مطالعہ کرلیا کرتا ہے۔
اس سے ایک بات تو سامنے آگئی کہ ان دونوں قسم کی کتابوں کے درمیان جو تضاد پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ فرضی ہے، جس کی کوئی اہمیت نہیں؛ کیونکہ جہاں ایک طرف "ورقی کتاب" اپنے تئیں خصوصیتیں رکھتی ہیں، وہیں "الیکٹرانک کتابیں" بھی کئی معاملوں میں ممتاز مقام حاصل کیے ہوئے ہیں۔
برقی کتاب کی (آن لائن نشرواشاعت کی وجہ سے) طباعت کا خرچ کم ہوجاتا ہے، لاگت کم آتی ہے جس سے کتاب نہایت ارزاں ہوجاتی ہے؛ بلکہ زیادہ تر مفت میں بطور نعمت غیر مترقبہ ہاتھ لگتی ہے، بیک وقت بے شمار لوگ اُسے پڑھ سکتے ہیں، مختصر سی یو ایس بی(USB) یا کارڈ میں لاکھوں کتابیں سماسکتی ہیں، کمالِ سرعت کے ساتھ چند سیکنڈوں میں پوری دنیا میں پھیلائی جاسکتی ہیں، دورانِ مطالعہ اس کتاب پر حاشیہ بھی لگایا جاسکتا ہے، تبصرہ بھی کیا جاسکتا ہے، خط کا حجم بڑا چھوٹا بھی ہوسکتا ہے، ربط سے ویڈیوز اور آڈیوز بھی چلائی جاسکتی ہے، ربط سے مراجع بھی براہ راست کھلتے ہیں، اُسے چلتے پھرتے سفر و حضر سب جگہ پڑھا جاسکتا ہے، بس میں ہوں یا ٹرین میں، بینک کی لائن میں ہوں یا ٹکٹ کی قطار میں، کسی انتظار گاہ میں بیٹھے ہوں یا شاہراہ پر چل پھر رہے ہوں، غرض یہ کہ ہر موقع اور ہر مقام پر یہ کتابیں آپ کو میسّر ہیں۔ اور تو اور۔۔۔۔۔ ان کو پڑھتے وقت آپ کو "نام نہاد شرم" بھی نہیں آئے گی؛ کیونکہ دیکھنے والا آپ کو موبائل چلاتا ہوا سمجھے گا، ایسی کتاب کے وزن کا مادی بوجھ برداشت نہیں کرنا پڑتا، روشنائی خرچ نہیں ہوتی، نقل و حمل کی ضرورت نہیں پڑتی،اسے نکالنے کے لیے لائبریری نہیں جانا پڑتا، اسے جمع کرانے کی مصیبت سے چھٹکارا مل جاتا ہے، اس کے پھٹنے کا خدشہ نہیں، بایں طور جرمانہ بھی نہیں، پڑھنے کے لیے "کینڈل" جلانے کی ضرورت نہیں، لہٰذا سرد رات میں "کمبل" اوڑھ کر بھی بآسانی پڑھا جاسکتا ہے، اِس کے نسخے کبھی ختم نہ ہونگے، خریدنے کی صورت میں آنے کا انتظار نہیں۔۔۔۔۔۔۔الخ۔
الغرض برقی کتابوں سے استفادے کے بے شمار مواقع ہیں، جو یقیناً ورقی کتابوں سے کہیں زیادہ ہیں، خصوصاً بیرون ممالک میں رہنے والے حضرات اِسکو اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں، مثلا عصری علوم کا ایک دیندار فاضل اگر پڑھ لکھ کر جاپان میں برسر ملازمت ہوجائے، تو آپ جانتے ہیں کہ جاپان میں جہاں اُردو کی ورقی کتابیں اور مکتبے تو درکنار۔۔۔۔اسلامی ممالک کی طرح دینی ماحول کی پُر سکون فضا بھی دیکھنے کو آنکھیں ترس جاتی ہیں، حلال کھانے کے لیے مستقل جدوجہد کرنی پڑتی ہے؛ ان حالات میں اپنے آپ پر کنٹرول رکھنے کا واحد ذریعہ اور قیمتی اثاثہ"برقی کتاب" ہی ہے۔ایسے بیسیوں مراحل ہیں جہاں پہنچ کر "برقی ایڈیشن" ہی آپ کا واحد سہارا بن سکتا ہے۔
سطورِ بالا سے واضح ہوگیا کہ "برقی کتاب بمقابلہ ورقی کتاب" کہنا دُرست نہیں، دونوں کے اپنے اپنے امتیازات اور اپنی اپنی خوبیاں ہیں، جن کے مقابلہ میں وقت ضائع کرنا دانشمندی نہیں؛ ایک گونہ حماقت ہے، اِس مضمون سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ کسی ایک نوع کو دوسرے پر فوقیت دی جارہی ہے، کیونکہ یہاں سرے سے معاملہ مقابلہ کا ہے ہی نہیں! بالیقین اہل ذوق کے لیے عام حالات میں "ورقی کتاب" ہی سب سے بہتر و خوب تر انتخاب ہوتا ہے؛ مگر اُن کسل مندوں کے لیے تو دونوں برابر ہیں جو ایک کے بہانے دوسرے پر ہلّہ بول کر اپنی کاہلی پالتے ہیں، مطالعے کے چوروں کے لیے" کیا ورقی اور کیا برقی" سبھی ایڈیشن یکساں ہیں، علم سے کوسوں دور اور مطالعے کے ذوق سے محروم شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی "بدذوقی" چھپانے کے لیے "برقی کتابوں" کا سہارا لے۔مطالعہ؛ مطالعہ ہے، کتاب؛ کتاب ہے اور اس کا پڑھنے والا باذوق قاری؛ قاری ہے، وہ جنگ کے میدان سے لے کر حجرۂ عروسی تک کتاب ہی کی آغوش میں سوتا ہے؛ یہاں تک کہ نزع کے عالم میں بھی کتاب ہاتھ میں لیے علم و مطالعے سے عشق کا ثبوت دیتا ہے اور مرتے مرتے کتابوں کے اوراق کو کفن بنا جاتا ہے؛ پھر چاہے کتاب"ورقی" ہو یا "برقی"، اب یہ نہ پوچھنا کہ "برقی کتاب" کا ورق کفن کیسے بنے گا! عشق ہو تو پہاڑ کاٹ کر دودھ کی نہر کھودی جاسکتی ہے، پھر یہ "برقی کفن" کیا چیز ہے!!!!
جواب دیں