والدین و اساتذہ،تعلیم و تربیت!!

 

    تحریر:جاوید  اختر بھارتی 

 استاد استاد ہی ہوتا ہے چاہے وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والا  کااستاد ہو،، اور ایک شاگرد کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے استاد کا ادب واحترام کرے جب بیک وقت کئی استاد ایک جگہ ہوتے ہیں تو  اساتذۂ کہا جاتا ہے لیکن ایسا اتفاق مدارس اور درسگاہوں میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے یقیناً جہاں اساتذۂ کرام قابل احترام ہوتے ہیں وہیں مدارس اسلامیہ کے اساتذہ سب سے زیادہ قابل احترام ہوتے ہیں اور ہر حال میں انکا احترام لازمی ہے بلکہ والدین کے بعد اساتذہ کرام کا ہی مقام بلند ہے اور ایک انسان کی زندگی میں والدین اور اساتذۂ کرام کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے والدین بچہ پیدا کرتے ہیں تو اساتذۂ کرام والدین کا مقام و مرتبہ بتلاتے ہیں، والدین بچوں کی انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے ہیں تو اساتذہ راہ حق پر چلنے کا طریقہ بتلاتے ہیں، والدین بچوں کی پرورش کرتے ہیں تو اساتذہ بچوں کو والدین کا احترام سکھاتے ہیں، والدین بچوں کو راہ چلتے گرنے سے بچاتے ہیں تو اساتذہ کرام راہ صداقت میں ثابت قدم رہنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں اس لئے ایک انسان کی زندگی میں والدین اور اساتذہ دونوں کا رہنمائی کے میدان میں انتہائی اہم کردار ہوتا ہے اور جس انسان و مسلمان نے اپنے والدین اور اپنے اساتذہ کرام کا احترام کیا وہ پوری زندگی کامیاب رہا اور ایک انسان و بالخصوص مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب رہے،، والدین پڑوسیوں سے بچے کی پہچان کراتے ہیں تو اساتذہ بچوں کو پڑوسیوں کے حقوق بتلاتے ہیں، والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ میرا لڑکا ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہے تو اساتذہ کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ میرا شاگرد جس شعبے میں قدم رکھے تو کامیابیاں بڑھ بڑھ کر اس کا استقبال کریں اور ایک ہوشمند لڑکا والدین کی بھی نافرمانی نہیں کرسکتا اور اساتذہ کرام کی بھی نافرمانی نہیں کرسکتا اور دونوں کا احترام لازم ہے آئیے قارئین کرام ذرا والدین کی آغوش سے لیکر اساتذہ کرام کی درسگاہ تک کا سفر کیا جائے،، ایک گھر میں بچہ پیدا ہوتا ہے، خوشیوں کا ازدہام ہوتا ہے، ساتویں دن عقیقہ ہوتا ہے،، اب بچہ آہستہ آہستہ بڑا ہونے لگا اور ہر ماں باپ کے کچھ ارمان ہوتے ہیں، کچھ خواب ہوتے ہیں جسے وہ پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اب بچہ بڑا ہوگیا اب بچے کو تعلیم اور تربیت دونوں کی ضرورت ہے، حرام اور حلال کی پہچان کی ضرورت ہے، جائز و نا جائز کی معلومات کی ضرورت ہے، حق اور باطل سمجھنے کی ضرورت ہے اور اسی کے مدنظر ایک دن باپ اپنے بیٹے کو لیکر اسلامی مدرسے میں پہنچتا ہے، اپنا تعارف کراتا ہے اور بچے کا بھی تعارف کراتا ہے باپ اپنے بیٹے کو تعلیم دینے کی سفارش کرتا ہے اساتذہ کرام باپ کی سفارش کو منظور کرتے ہیں اساتذہ کرام اب لڑکے کو پڑھانا شروع کرتے ہیں سب سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھاتے ہیں (اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے) اس کے بعد(الف) پڑھا کر اساتذہ کرام بتلاتے ہیں کہ اللہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ساتھ ہی ساتھ،، اطیعواللہ و اطیعوالرسول کی بھی تعلیم دیتے ہیں (ب) پڑھا کر اسی اللہ کی بڑائی بیان کرنے کا درس دیتے ہیں، بزرگانِ دین کی تعظیم کا درس دیتے ہیں،، (ت) پڑھا کر اسی اللہ َکی بارگاہ میں توبہ،، کرتے رہنے کا درس دیتے ہیں، (ث) پڑھا کر اسی اللہ کی ثناء،، و حمد بیان کرنے کا درس دیتے ہیں، (ج) پڑھا کر اسی اللہ کی جنت میں جانے والے کرنے کا درس دیتے ہیں،(ح) اور( خ) پڑھا کر حق بولنا، حج بیت اللہ کی خواہش رکھنا اور خدا پر مکمل بھروسہ رکھنا اور خاتمہ بالخیر کی دعا کرنا سکھاتے ہیں، (د) اور( ذ) پڑھا کردرود پاک کی کثرت کرنے اور دنیا داری سے و ذلت،، آمیز کارناموں سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں، (ر) ، (ز) ، (س) ،(ش) پڑھا کر رب کی اطاعت کرنے اور زکوٰۃ کی ادائیگی کرنے اور زمین،، پر فساد برپا نہ کرنے اور سلامتی،، کی دعا کرنے اور شکر،، گزار بندہ بننے کا سبق پڑھاتے ہیں،، اساتذۂ کرام آگے مزید بتاتے ہیں کہ( ص) سے صرف اور صرف اللہ کی عبادت کرنا، صلہ رحمی سے کام لینا اور صبر کا دامن ہاتھ سے تھامے رہنا، (ض) سے ضابطہ اسلام پر عمل کرنا، (ط) یعنی طاقت،، پر گھمنڈ نہ کرنا،( ظ) یعنی ظاہری

«
»

جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے