جس عورت کو ہندستان کی بنیادی حقیقتوں اورآئین وقانون کے تقاضوں کو کچھ بھی پتہ نہیں، اس کو عوامی زندگی سے دوررہنا چاہئے اورساکشی جی کی نصیحت میں رنگ بھرنے کے لئے ہندوآبادی میں اضافہ کی خاطر کسی بھلے ہندو کا گھر بسانا چاہئے ۔راؤت کے بیان پرمذمت میں قومی اخباروں نے ادرئے لکھے ہیں اور مراسلے شائع ہوئے ہیں۔ حد یہ ہے کہ بھاجپا نے بھی اپنی حلیف پارٹی کے ایم پی کے بیان سے لا تعلقی ظاہر کی ہے۔
بیشک ووٹ بنک کی سیاست جمہوری نظام کے لئے ناروا ہے ۔اس کی بدولت عوام کے حقیقی مسائل اوربنیادی سروکار تعلیم، صحت،صفائی، گلیاں، نالیاں،زرائع آمد ورفت، عورتوں وبچوں کی حفاظت وغیرہ بھلادئے جاتے ہیں۔ ان کی جگہ کچھ دوسرے مفروضہ مسائل ابھر آتے ہیں۔ جوقوم کو فرقوں اورگروہوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ لیکن ہندستان میں اس طرح کی سیاست سے بچا کون ہے؟کئی بار یہ سوال ہوتا ہے کہ بابائے قوم کے نام سے موسوم شری موہن داس کرم چند گاندھی نے، جن کواب مودی نے اچک لیا ہے، جب تحریک خلافت کا پرچم اٹھایا تھا تو وہ کیا کررہے تھے؟ کیا یہ مسلم ووٹ بنک کی سیاست نہیں تھی؟ جس ’سیکولر‘ کانگریس نے روز اول سے یہ گوارہ نہیں کیا مسلم قوم اپنے عائلی معاملات کو اپنے قاضیوں سے طے کرالیا کرے اوران کے فیصلے کو عدالتی سند مل جایا کرے، وہ دوردراز خطے میں نظام خلافت کی ہم نوا کیسے بن گئی تھی؟
خیر یہ تو تاریخ کا ایک ورق ہے۔ایسے بہت سے ورق کھولے جاسکتے ہیں۔ مثلاقبل آزادی کی ایک اورسیاسی شخصیت جن کو آج بھی ایک طبقہ میں بڑا مان سمان حاصل ہے، شری ونایک دامودر ساورکر کے سیاسی نظریہ پر غور کیجئے۔ اس میں بھی اسی طرح کی صداملتی ہے جس کی بازگشت مسلم لیگ کی سیاست میں تلاش کی جاتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ ایک نے اقلیتی فرقہ کے ووٹ بنک کی سیاست کی ، دوسرے نے دوسرے کی۔
خود مسٹرراؤ ت جس پارٹی کے لیڈر ہیں، اس کے سیاسی نظریہ کو کیا کہیں گے؟ کیا وہ ووٹ بنک کی سیاست پر ہی نہیں ٹکا ہے؟ ان کی پارٹی کی سپریمو شری بالاصاحب ٹھاکرے کی بعض تقریروں کو اسی نقطہ نظر سے قابل اعتراض گردانتے ہوئے، ان کے حق رائے دہی تک کو سلب کرلیا گیا تھا۔ حالانکہ خودبالا صاحب ذاتی زندگی میں مذہب کی بنیاد پرتعصب نہیں برتتے تھے ۔سنا ہے ان کے اسٹاف میں کئی مسلمان تھے۔ ان کی پارٹی شیو سینا شیواجی بھونسلے کے نام پرفرقہ پرستانہ سیاست کرتی ہے۔حالانکہ شیوا جی فرقہ پرست نہیں تھے۔ ان کے مشیروں اورسپہ سالاروں میں مسلمان بھی تھے۔مسلم حکمرانوں سے ان کی جنگ ہندو اور مسلمان کی جنگ نہیں تھی۔راج کاج کی چھیناجھپٹی تھی۔ اسطرح کی لڑائیاں اس دور میں عام تھی۔ ہندوراجہ ہندوراجہ سے اورمسلمان سلطان دوسرے سلطان سے علاقہ ہتھیانے کے لئے لڑتے رہتے تھے۔ بابر کی موت کے بعد ہمایوں کو ہندستان سے ہندوراجاؤں نے نہیں، سلطان شیرشاہ سوری نے بھگایا تھا۔ اس کے باوجود شیوسینا شیوا جی کے نام پرہندو، مسلم کی سیاست کرتی ہے۔شیوا جی ہندستان کی ایک تاریخی شخصیت تھے۔ ان کو کسی خاص ذات برادری یا دھرم کے کوزے میں بندکرنا اوران کا نام لیکر فرقہ پرستی پھیلانا، ان کی شخصیت کو داغدارکرنا ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ مسٹرسنجے راؤ ت نے یہ بیان ایسے موقع پر کیوں دیا جب وزیر اعظم مودی یورپ کو یہ یقین دلارہے تھے کہ ان کی سرکار میں سبھی فرقے محفوظ و مامون ہیں؟ یونیسکو میں ان کی تقریر کے فوراً بعد مسلمانوں کے خلاف ان کے پریوار کے لیڈروں نے اقلیتوں کے خلاف زہرآلود باتیں کہہ کر قوم کو کیا یقین دہانی کرانی چاہی ہے؟ کیا یہ ہندوووٹ بنک کی سیاست نہیں ہے؟ کیا خود مودی بھی یہی نہیں کرتے رہے ہیں؟
راؤت کے بیان کی ایک تاویل یہ کی جارہی ہے کہ وہ دو اسمبلی حلقوں میں ضمنی انتخابات اور مجلس اتحادالمسلمین کے اثرورسوخ میں اضافہ سے پریشان ہیں اوراس کے خلاف ہندوووٹ کو گول بند کرنے کے لئے پولنگ کے موقع یہ بیان دیا۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ ریاست کے سیاسی ماحول فرقہ ورانہ لائینوں پر تقسیم کرنے میں شیو سینا نے اہم رول ادا کیا ہے۔مگر وہ دیگر علاقائی پارٹیوں کی طرح ابھر نہیں سکی ہے۔ حالیہ اسمبلی چناؤ میں اس کی یہ خواہش تھی کہ اس کا قد بھاجپا سے بڑھ جائے۔ مگر مودی لہر کی بدولت بھاجپا آگے نکل گئی۔اب فڈناوویس کی سرکار نے کئی ایسے اقدامات کئے ہیں جن سے شیوسینا کو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ ہندوفرقہ پرستی کی ملائی میں اس کا حصہ اورکم ہو جائیگا۔ گؤکشی قانون اور مراٹھی فلموں سے متعلق اقدامات کو اس نظریہ سے بھی دیکھا جارہا ہے۔اسی لئے مسٹرراؤ ت نے مسلمانوں کو نشانہ بناکر بیان داغ دیا کہ ہندوفرقہ پرستی میں بھاجپا کا مقابلہ کرسکے۔
ونکیا ہ نائڈو کا بیان
بھاجپا کے سینئر لیڈراورمرکزی وزیر ونکیاہ نائڈو نے راؤت کے بیان سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرکار اوران کی پارٹی اس نظریہ کی موئد نہیں ہے ۔ یہ آئین کے خلاف ہے۔ فرقہ، مذہب یا علاقہ کی بنیاد پر کسی کو ووٹ سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے اس بیان کا خیرمقدم ہے۔ مگران کو یہ وضاحت بھی تو کرنی چاہئے کہ ’ہندتووا‘اور ’ہندوراشٹر‘ کا مطلب کیاہے ،جوان کی نظریاتی اماّ آرایس ایس کا اصل مدعا ہے؟کیا ہندوراشٹر میں غیرہندو ووٹ دینے اورچناؤ میں حصہ لینے کے حق سے محروم نہیں ہونگے؟ اگر نہیں تو پھرہندوراشٹرا کا مطالبہ کیوں؟ خود وزیراعظم نے بھی پارلیمانی انتخابی مہم کے دوران سیکولر نظریہ کو کھل کرمسترد کیا تھا۔ معلوم ہونا چاہئے کہ کیا اب وہ اپنے ان بیانات سے تائب ہوگئے ہیں؟
کشمیری پنڈت
جموں وکشمیر میں نئی سرکار بنتے ہی ایک مرتبہ پھر کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی پر سیاست شروع ہوگئی ہے۔ بے رحم سیاست داں روزوطن بدر کشمیری پنڈتوں کے زخموں کو کریدتے ہیں اور ان کے حساس جذبات سے سیاسی فائدے کے لئے کھلواڑ کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے۔ سنہ 1980ء کی دہائی میں ،جب وادی میں شورش عروج پر تھی، ہزاروں کشمیری مسلمان شک کی بنیاد پر ریاستی پولیس اور مرکزی سیکورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے ۔جب کہ بعض پنڈتوں کو شورش پسندوں نے اس شک پر نشانہ بنایا کہ وہ سیکورٹی فورسز کی آنکھ اورکان بنے ہوئے ہیں۔ ایک مرحلہ وہ آیا جب مرکز نے مسٹرجگموہن کو ریاست کا گورنربنایا اورجبری گمشدگی اور حراستی اموات کے بے شمار واقعات کے باوجود حالات بے قابوہوجانے پر فاروق عبداللہ استعفادے کر برطانیہ چلے گئے ۔ اس دوران ایک غلط پالیسی کے تحت بڑی تعداد میں پنڈتوں کو وادی سے نکال لیا گیا۔غالباً اس کا مقصد یہ تھا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف سخت کاروائی کی جاسکے اور اس کی زد میں کوئی پنڈت نہ آنے پائے۔ بہرحال اس عمل میں ان کے گھر بارتباہ ہوگئے۔ زندگیاں ویران ہوگئیں اور وہ خراب حالات میں گھرسے دور کمپوں میں گزارہ کرنے پر مجبور ہوئے۔
لیکن گزشتہ تیس سال میں ان کی ایک نئی نسل نئے حالا ت میں پروان چڑھ چکی ہے۔ یہ نسل بیرون کشمیررچ بس گئی ہے اور روزگار سے لگ گئی ہے۔یہاں ان کو تعلیم کے بہتر مواقع ملے اوراچھے اچھے روزگار بھی ملے۔ اب بھاجپا سرکار کا کہنا ہے کہ وہ ان کی کشمیر واپسی چاہتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں آج تک کبھی ایسا نہیں ہواکہ یک مشت ہجرت کرنے والے اپنی اصل زمین کو واپس لوٹ گئے ہوں۔ یہ ایک غیرفطری اورانہونی بات ہے مگر سیاسی فائدے کے لئے کہی جارہی ہے۔ عام حالات میں بھی جو لوگ غیر وطن چلے جاتے ہیں وہ وہیں کے ہورہتے ہیں۔ ان کے بچوں کے لئے وہی وطن بن جاتا ہے۔ کوئی کوئی ہی واپس آتا ہے۔
کشمیری پنڈتوں کو واپس کشمیر بھیجنے کی خواہش کے پس پشت ایک دوسری وجہ ہے۔ اس کا اثر وادی میں آبادی کے تناسب پر بھی پڑا ہے۔ اس لئے جو لوگ وہاں کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی خواہش رکھتے ہیں، ان کو وہاں صدیوں سے رچے بسے پنڈتوں کی عدم موجودگی سخت کھل رہی ہے۔ کشمیر کی ایک زمینی سچائی یہ بھی ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ کے دورسے ہی پنڈت پڑھے لکھے ہوتے تھے اورسرکاری انتظام وہی سنبھالتے تھے۔ اکثریت مسلمانوں کی ضرور تھی مگر ان میں سے چند ہی لکھ پڑھ جاتے تھے۔ اب جب ہزاروں کشمیری پنڈت وہاں سے نکل آئے ہیں تو مقامی مسلم نوجوانوں کو ناقابل اعتماد سمجھنے والے سیاست داں مخمصے میں ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی نظر میں کشمیری پنڈتوں کی کشمیر میں اہم ضرورت یہی ہے کہ سرکاری دفاتر ان سے خالی ہوگئے ہیں۔
ان کو واپس وہاں بسانے کو جو تدبیریں سوچی جارہی ہیں ، ان کے الگ ٹاؤن شپ بنانے کی جو باتیں ہورہی ہیں، وہ سب ناقابل عمل ہیں۔یہ بات وہ لوگ کہہ رہے ہیں جنہوں نے دہلی کے پاس نوئیڈا میں ایک بلڈرکاخاص مسلمانوں کے لئے چند فلیٹ بنانا سخت ناگوارگزرا۔ اس پر انہی ہندوتووا وادیوں نے شور مچایا جو کشمیر میں چاہتے ہیں ہندو پنڈتوں کی الگ قلعہ بند آبادیاں قائم ہوں۔ پنڈتوں کے لئے اگر گھر بنائے بھی جاتے ہیں تو اس کا فائدہ بس اتنا ہوگا کہ ان میں سے کمیشن نکل آئیگا۔اس تدبیر کی وہاں سخت مخالفت ہوگی اور پنڈت وہاں ٹک نہیں سکیں گے۔
کشمیری پنڈتوں کو بجا طور پر سرکاری بیانات میں شفافیت کی کمی نظرآتی ہے اوروہ ان پر بجا طور پر اعتماد نہیں کرسکتے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک ایک، دو دو کرکے، کچھ لوگ وادی میں لوٹ جائیں اور جہاں محفو ظ سمجھیں ، وہاں بس جائیں۔ پورے خاندان تو واپس جا نہیں سکتے۔ واپسی کی صورت میں ان میں عدم تحفظ کا احساس سچا ہے۔ اس حوالے سے اصل بات جو ہم کہنا چاہتے تھے وہ یہ ہے کہ یہ بھی ووٹ بنک کی سیاست ہے، جس کو بھاجپا گزشتہ کئی دہائیوں سے بھناتی رہی ہے اور اب اس لئے بیان بازی پرمجبورہے کہ نادان لوگ، اس کو سابقہ وعدے یاد دلاکر سیاست کررہے ہیں۔
ہاں کشمیری پنڈت ایک صورت میں بلا خوف و خطر واپس جا سکتے ہیں اور وہاں کے دیگر فرقوں کے ساتھ شیروشکر ہوکر رہ سکتے ہیں۔ وہ یہ کہ کشمیر کے داخلی معاملات میں مداخلت کی پالیسی ترک کی جائے۔وہ تمام اختیارات ریاستی حکومت کو لوٹادئے جائیں جو وقتاً فوقتاً کٹھ پتلی ریاستی حکومتیں مرکز کو تفویض کرتی رہی ہیں۔ بالفاظ دیگر آئین کی دفعہ 370کے تحت ریاست کو حاصل تمام اختیارات بحال کئے جائیں ۔ بیشک مرکزکے پاس دفاع، خارجی امور اورکرنسی وغیرہ رہیں۔ لیکن کنٹرول لائن کو غیر موثر کرنے کے اقدامات بھی ضروری ہیں۔
یہ بات ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ کشمیری پنڈت بھی ریاست کی داخلی خود مختاری کے حامی اورخواستگاررہے ہیں۔اگرریاست کی داخلی خودمختاری بحال ہوتی اس سے جتنا فائدہ وہاں کی مسلم آبادی کو ہوتااس سے زیادہ تعلیم یافتہ پنڈتوں کو حاصل ہوتا۔ وہ ریاست کے دروبست کے مالک ہوتے۔ ان کی انتظامی صلاحیت اورقوم پرستی پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ وہ گولی وبندوق کی مداخلت سے پہلے تک اس تحریک کے حامی رہے ہیں۔ ان کے راستے صرف اس لئے جداہوگئے کہ تحریک خودمختاری میں پاکستان نوازی کا عنصر شامل ہوگیا اور خون خرابہ ہونے لگا۔
ہندو اورمسلم کشمیریوں کا یہ حق تھا کہ ان پر اسی طرح اعتماد کیا جاتا جس طرح دیگر ریاستوں کے باشندوں پر کیا جاتا ہے۔ ان کو مکمل داخلی خودمختاری دی جاتی اور وہ انڈین یونین میں ایک ریاست کے طور پر پھلتے پھولتے۔کوئی پڑوسی ان کے معاملات میں مداخلت نہ کرتا۔ معاملات کی خرابی کی جڑ میں کچھ تو ہماری حکومتوں کی بد نیتی رہی ہے اورکچھ پڑوسیوں کی بری نگاہیں۔یہ بات بھی سبھی فریقوں کو سمجھ لینی چاہئے کہ اکتوبر 1947میں مہاراجہ ہری سنگھ اورہند کے گورنرجنرلارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جس معاہدے پر دستخط کئے تھے اس کی رو سے ریاست جموں وکشمیر کاہند کے ساتھ الحاق ہوا تھا، انضمام نہیں۔ اس کے الگ وجود، شناخت اورکلچر کو بیرونی باشندوں کو وہاں بسا کر بدلا نہیں جاسکتا۔
جواب دیں