گیا ام المدارس چھوڑکر ابن حجر ثانی
مفتی سیدابراہیم حسامی قاسمیؔ
استاذ جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد و ناظم مدرسہ تعلیم القرآن بورابنڈہ حیدرآباد
اسلاف و اکابر کاایک سچا ترجمان، علم وعمل میں ذی شان، فیض رسانی میں بے تکان، صاحب حال وعرفان، نشہئ علم سے لبریز ایک پرکیف وجدان، علامہئ زمان، قلندرِ جہان، عزم میں مضبوط چٹان، قال اللہ و قال الرسول میں مست زبان،مسلک دیوبند پر قربان، علامہ ابن حجر عسقلانی کا دوسرا نشان، باطل کے لیے ایک طوفان، حق کا جاری فیضان، جوکھول دے غبیوں کے بھی اذہان، اپنے موقف پر اٹل اور بے خلجان، سجادیتا تھا جو علم کا دسترخوان، زبان بڑی آسان گویا محبت کا سائبان، پائیدار جس کا ایمان، پختہ جس کا اتقان، گلستان دیوبند کی شان، جمعےۃ کا مان وسمّان،مدنی خاندان کی طرف جس کا قلبی رجحان، جو خود کرتا تھا اپنے ہاتھ سے پکوان، طلباء وعلماء جس پر تھے قربان، لگتا تھا ہر کوئی اس کا مستان، فن حدیث کا پاسبان، جرح وتعدیل کا بین نشان، دشمن کو للکارتا تھا علی الاعلان، خطابت کا شہنشاہ عالی شان،تدریس کا بے بدل سلطان، لبوں پر جاری ہردم مسکان، حق وباطل کی ایک میزان، روحانیت کا آسمان یعنی استاذ مکرم حضرت علامہ حبیب الرحمن صاحب اعظمیؒ بھی 30/رمضان المبارک/1442ھ م: 13/مئی/2021ء کو اپنے محبوب حقیقی سے شرف لقاء حاصل کر گئے۔
یہ الم کیا کم ہے کہ اکابر علماء کی دنیا سے رخصتی بڑی تیزی سے جاری ہے کہ اچانک ایک چمکتے چراغ اور دمکتے ماہتاب نے بھی الوداع کہہ دیا۔ حضرت مولاناحبیب الرحمن اعظمی ایک نامور محدث اور یکتائے روز گار مدرس تھے۔ فن حدیث میں ان کو کمال درجہ مہارت حاصل تھی۔ ان کی زبان بڑی برق رفتار اور قلم بڑا سیال تھا۔ ان کے چہرہ علم وعمل کا چکمتا نشان تھا۔ ان کی خندہ پیشانی جلالت علم کی مظہر جمیل تھی۔ جو انھیں دیکھتا بس دیکھتا ہی رہ جاتا۔ خدائے منان نے اپنے بندہ حبیب الرحمن کوجس ظاہری حسن وجمال او ر باطن میں اعلی کمال عطا فرما رکھا تھاوہ ہر کے حصہ کی بات نہیں۔ حضرت علامہ حبیب الرحمن اعظمی فرید دہر محدث اور عصر حاضر کے ایک بلند پایہ اور بزرگ قلم کار تھے، ان کی زندگی کتاب وسنت کی ترجمانی کے لیے وقف تھی۔ وہ دارالعلوم دیوبند ہی میں رہتے اور لکھنا پڑھنا ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ ان کی تدریسی شان اظہر من الشمس تھی۔ دل کو موہ لینے والا انداز درس، ہمہ تن گوش کرنے والا لہجہ، محو تفکر میں غرق کردینے والی تحقیق، سنجیدہ مگر عالی شان گفتگو،تطبیقات کا وہ بلند معیار، رجال پر وہ برق رفتار، بے لاگ اور سیال تقریر، دوران درس موضوع سے متعلق اکابر واسلاف کے واقعات کی تزئین کاری، ایک ہی درس میں تمام فنون کی یکساں سیر کرانے کی وہ مہارت کاملہ، ہر بات کو مدلل کرنے کی وہ لائق تقلید جستجو، مسلک دیوبند کی بھر پور ترجمانی، جمہور اہل سنت سے انحراف پر شیر سی دھاڑ، اپنے موقف پر اٹل تو اٹل، نکات کی بھر مار، نجی مجلسوں میں طنز ومزاح کے بادشاہ اور ان جیسے کئی کمالات ان کی شخصیت کا لازمہ تھے۔
حضرت علامہ حبیب الرحمن اعظمیؒ کو ان کے تحقیقی مزاج نے کافی مقبولیت اور بلندی عطا کی، وہ اسماء الرجال کے فن کے ماہر تھے۔ دورحاضر میں فن رجال میں ان کے علاوہ کسی دوسرے پر نظر نہ جمتی تھی اور جمائی جاسکتی تھی، وہ رجال حدیث پر صرف گفتگو یا تحقیق ہی نہیں کرتے؛ بلکہ ثقہ رایوں سے اظہار محبت بھی کرتے۔ ان کی جلالت شان اور علومرتبت کو بڑی عظمت کے ساتھ بیان کرتے اوررجال کے حالات کو ایسے بے دباؤ بیان کرتے جیسے ان کا ان سے تعلق ہو یا اپنے گھر کے افراد کے نام یا ان کے کارناموں کو بیان کر رہے ہوں۔رب ذوالجلال نے ان کو حافظہ کی عظیم قوت سے نواز اتھا۔ دکھائی دینے میں معمولی نظر آتے؛ مگر قوت حافظہ کی بدولت ہر ایک کو پہچان لیتے اور بر وقت اپنے حافظہ کا استعمال کرتے۔زبان بڑی سادہ اور پر لطف تھی، ہر کسی کے فہم کے مطابق گفتگو فرماتے، اگر دقیق گفتگو بھی کرتے تو ایسا انداز اپناتے کہ کسی کے فہم سے بالاتر نہ ہو۔
حضرت علامہ حبیب الرحمن اعظمیؔ طلبہ سے بڑی محبت فرماتے، ان کی خواہش پوری کرتے، ان کی فرمائش کو بروئے کار لاتے، طلبہ کے کہنے پر واقعات بیان کرتے،سندیں زبانی سناتے، لطیفے بولتے، اشعار سناتے، طلبہ چھٹی کا مطالبہ کرتے تو اس کی لاج رکھتے،کبھی مکمل چھٹی تو کبھی جزوی، طلبہ کو ناراض کرنے کا مزاج نہیں تھا اور طلبہ کے مابین بے تکلف رہتے، حوصلے بڑھاتے، عبارت پڑھنے والے کی حوصلہ شکنی کبھی نہ کرتے، عبارت کی غلطی از خود درست کرلیتے، ڈانٹ ڈپٹ نہ کرتے، قریبی اور آتے جاتے طلبہ کو اپنے ہاتھ کا پکایا کھلاتے، اعظم گڑھ کے بعض طلبہ توان کو”دادا“ کہتے اور ان سے ایسے بے تکلف رہتے جیسے حقیقت میں اپنے گھریلو بزرگوں کے ساتھ رہ رہے ہوں۔وہ روزآنہ پابندی سے چہل قدمی کرتے، تہجد پابندی سے پڑھتے اوربسااوقات اس جانب توجہ بھی مبذول کرواتے، عبادت کافی شوق اور ذوق سے کرتے۔ نماز میں مکمل دھیان رکھتے؛ اگر کوئی برابر میں کھڑے ہوکر نماز میں کوئی ایسی حرکت دیتا جس سے ان کو تکلیف ہوتی یا آداب صلوۃکی خلاف ورزی ہوتی تو بھری مسجد میں اس کی خبرلیتے۔ امام پر خوب توجہ رکھتے، بسااوقات نماز کے فوری بعد متنبہ کرتے۔سادگی کو اپنے مزاج کا حصہ بنائے رکھتے۔ اکابر علماء دیوبند سے حدرجہ عقیدت؛ بلکہ عشق فرماتے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے والہانہ عقیدت کا اظہار فرماتے۔ ان کے مآثر ومحاسن کو بڑی رفعت شان کے ساتھ بیان کرتے، ان پر اپنی جان چھڑکتے، ان کے جانشینوں سے بھی محبت رکھتے، جانشین شیخ الاسلام امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی سے حدرجہ لگاؤ اورتعلق رکھتے، جمعےۃ میں ان کے شانہ بہ شانہ رہتے، ان کے ہرکاز میں شرکت کرتے، اجلاس میں زوردار تقریر کرتے، جمعےۃ کے ارکان عاملہ میں بلند مقام رکھتے تھے، ان کی بات سنی جاتی تھی اور ان کی تجویز منظور کی جاتی تھی، بے راہی پر بڑوں کو بھی نہ بخشتے اور اظہار حق میں کسی سے نہ ڈرتے، نہ شرماتے اور نہ ہی مصلحت کا لبادہ زیب تن فرماتے۔ فرق باطلہ کا پرزور رد فرماتے، ان کے دلائل کی دھجیاں اڑاتے، ان کے موقف کی کمزوریوں کو کھل کر بیان کرتے اور اپنے دلائل سے ان کو بے دم کردیتے۔ وہ ایک عظیم انسان تھے، سب کے محبوب تھے، سب کے منظور نظر تھے، سب ان کے عقیدت مند اور طلبہ تو ان پر فدا تھے، ان کے اسلوب کے سب عاشق زار تھے، وہ ایک بے مثال معلم اور مربی تھے۔ ان کی رحلت نے دارالعلوم میں ایک بڑا خلا پیدا کردیا ہے، مولانا ارشد مدنی نے اپنے مشیر خاص کو کھودیا ہے،طلبہ اپنے مشفق استاذ اور ملک ایک بڑی ہستی سے محروم ہوگیا؛ مگر کیا کیجیے جانا تو سب کو ہے، سبھی جانے ہی کے لیے آئے ہیں؛ مگر دنیا سے خالی چلے جانا یہ عقل مندی نہیں، جانا ہوتو ایسے لوگوں کی طرح جائیں جنہوں نے اپنی زندگی میں وہ ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا کہ جس کو دنیا یاد کرے گی، ان کے فیوض وبرکات کا سلسلہ ان کے بعد بھی جاری رہے گا، ان کے کمالات روشن رہیں گے، ان کے بعد بھی دنیا ان سے فیض حاصل کرتی رہے گی۔
حضرت علامہ حبیب الرحمن اعظمیؔ 1942ء میں پید اہوئے، پانچ برس کی عمر میں علاقائی بزرگ حاجی محمد شبلی سے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا، اردو جماعت پنجم تک اور فارسی کی کتابوں پر عبور حاصل کرنے کے بعد اعظم گڑھ کے مشہور ومعروف دینی ادارہ جامعۃ الاصلاح سرائے میر میں داخلہ لیا، پھر مطلع العلوم بنار س، دارالعلوم بنارس اور دارالعلوم مؤ میں جلالین ومشکوۃ کی تکمیل کے بعد 1342ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور اپنی علمی تشنگی کو دور کیا۔ فراغت کے بعد حضرت شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ کی ہدایت پر تبلیغی خدمات انجام دیتے رہے، 1965ء میں جامعہ مطلع العلوم بنار س کی طلب پر وہاں تشریف لے گئے اور تدریسی سلسلہ شروع کیا۔ یکم مئی1980ء /کو حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ کے حکم پر دیوبند چلے آئے اور فضلائے دارالعلوم کی عالمی مؤتمر کی نظامت کے ساتھ ساتھ ماہنامہ القاسم کی ادارت کے منصب کو سنبھالا۔1981ء میں دارالعلوم دیوبند کے وسطیٰ کے مدرس ہوئے۔1405ھ میں ماہنامہ دارالعلوم کے مدیر منتخب ہوئے اور شعبان1414ء میں علیاء کے اساتذہ میں آپ کا نام نامی شامل کر لیا گیا، آپ کے قلم گہر بار نے 30سے زائد کتابوں کووجود بخشا،آپ نے تدریس و تصنیف میں خوب جلوہ گری کی اور تادم زیست پوری آب وتاب کے ساتھ انھیں محنتوں میں مست ومگن رہے، بالآخر30/رمضان المبارک 1442ھ مطابق: 13/مئی2021ء بہ روز جمعرات آپ نے داعیئ اجل کو لبیک کہا۔
حضرت علامہ حبیب الرحمن اعظمیؒ کے بارے میں ضرور کہا جائے گا: پسِ مرگ زندہ وہرحال میں تابندہ
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں