ٹوگو:(TOGO)

ان میں سے ساحلی بستیوں کے مکانات لکڑی،بانس اور پام اور کھوپرے کے درختوں کی شاخوں سے تعمیر کیے گئے ہیں۔بعض گھروندے تو اس طرح سے بنائے گئے ہیں گویا مکان کی تعمیر کے لیے ہی درخت اگائے گئے ہوں اور پھر ان درختوں کے بڑے ہونے پر ان کے تنوں سے کمرے کے ستون بناکر اور پورے مکان کے گرد مٹی کی دیوار کھڑی کر دی گئی ہو۔جبکہ ملک کے شمالی علاقوں میں پتھر سے بنے ہوئے خوبصورت مکانات بھی کثرت سے ہیں۔یہاں چونکہ قدیم قبائلی نظام ابھی بھی پوری آب و تاب سے موجود ہے اس لیے بہت سارے گھر ایک ہی قبیلے یاایک ہی خاندان کے ہوتے ہیں اور ان گھروں کے اندر سے ایک دوسرے کے ہاں جانے کے راستے بھی بنے ہوتے ہیں۔یہاں کی دفتری اور کاروباری زبان فرانسیسی ہے شاید اس لیے کہ یہ علاقہ فرانس کی کالونی رہا ہے اور اقوام متحدہ کی مساعی سے یہاں کے لوگوں کو استعمار سے 27اپریل1960کوآزادی نصیب ہوئی اب یہ دن وہاں قومی دن کے طور پر منایاجاتاہے۔
’’لومے‘‘یہاں کا سب سے بڑا شہر ،دارالحکومت اور بندرگاہ بھی ہے۔یہاں چھوٹے بڑے اور جدیدوقدیم ہر طرح کے مکانات ہیں جورہائشی،دفتری اور کاروباری مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں تاہم رہائشی مکانات کے گرد ایک بڑی دیوار کھینچ دی گئی ہوتی ہے۔دارالحکومت ہونے کی وجہ سے یہاں غیرٹونگوافراد کی ایک معقول تعداد بھی موجود ہے جن میں اکثریت فرانسیسیوں کی ہے لیکن ان کے علاوہ برازیلی اور پرتگالی بھی یہاں سکونت پزیر ہیں۔’’انیہو‘‘یہاں کا دوسرابڑا شہر ہے ایک زمانے میں یہ شہر یورپ کے ساتھ تجارت میں صف اول میں شمار ہوتا تھالیکن اب اسکی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔ٹوگو میں تیس بڑے بڑے مقامی گروہ یا قبائل ہیں ان میں سے اکثر ماضی قدیم میں مغربی افریقہ سے ہجرت کر یہاں آباد ہوئے ان قبائل میں سے ’’ایوی‘‘،’’مینا‘‘اور’’کابری‘‘قبائل بہت بڑی تعدادمیں ہیں اور بہت زورآور ہیں،تقریباََہر قبیلہ کی اپنی زبان ہے جسے ان کے لوگ بولتے ہیں۔
انیسویں صدی کے وسط میں یہ ملک جرمنوں کے قبضے میں تھا،لیکن اسی صدی کے آخر میں اس علاقے کو بفرزون قراردے دیاگیااور فرانس نے ’’لومے‘‘کومرکزبناکر یہاں پر حکومت کرناشروع کر دی۔پہلی جنگ عظیم کے بعد ملک کامشرقی حصہ فرانس کے پاس رہ گیااور مغربی حصے کی بندربانٹ برطانیہ کے حصے میں آئی۔دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹوگو پر اقوام متحدہ کاعارضی قبضہ برائے نام رہا جبکہ انتظامیہ حسب سابق ہی تھی۔30اگست1956میں ٹوگو کو فرانس کی طرف سے نیم خودمختاری دے دی گئی اور بالآخر27 اپریل1960کو یہ ملک فرانس کے ناجائز تسلط سے آزا دہوگیا،اسی آزادی کے باعث ٹوگو کو آرگنائزیشن آف افریقن یونٹی کارکن بھی بنالیا گیا۔1961کے انتخابات میں ملک صدارتی نظام کی طرف بڑھنے لگا۔
ٹوگو کی آبادی ساٹھ لاکھ سے کچھ زائدہے،آبادی میں اضافے کا تناسب 2.71%ہے جبکہ شرح پیدائش 0.036%ہے اور شرح اموات 0.009%تک ہے۔یہاں کی اکثر آبادی اپنے مقامی مذہب کی پیروکار ہے لیکن 29%عیسائیت اور20% اسلام کے ماننے والے بھی موجود ہیں۔آبادی میں 99%افریقی ہیں اور بمشکل ایک فیصد لوگ باہر سے آئے ہوئے اس ملک میں موجود ہیں اور کل آبادی کا61%خواندہ ہے جبکہ قومی آمدن کا2.6%تعلیم پر خرچ کیاجاتاہے۔افریقہ کا ملک ہونے کے باوجودیہاں جنگلی حیات بہت کم ہے،صرف شمالی علاقوں میں کچھ شیر چیتے اور ہاتھی دیکھے جاتے ہیں۔موسم کے اعتبار سے ٹوگوافریقہ کاحصہ ہونے کے باعث گرم آب و ہوا کاملک ہے تاہم اسکے جنوبی خطے زیادہ تر ہوائی نمی سے بھرپور رہتے ہیں۔
یہ ایک جمہوری ملک ہے لیکن ایک عرصہ تک یہاں فوجی آمریت مسلط رہی ہے۔1967میں ایک فوجی آمر نے یہاں کا دستور معطل کر دیااور قومی اسمبلی توڑ دی اور خود صدر بن کر ایک طویل عرصہ حکومت کی۔فوجیوں کالکھاہوا دستور یہاں کی ہائی کونسل نے یکم جولائی 1992کو منظور کیا اور پھر ایک ریفرنڈم کے بعد27ستمبر1992کو یہی آئین ملک میں نافذ کر دیاگیا۔آئین کے مطابق صدریہاں کاآئینی سربراہ مملکت ہوتا ہے اورپانچ سالوں کے لیے اسکاانتخاب کیاجاتاہے،لیکن آزاد ٹوگومیں اب تک ایک ہی صدر رہااوراسکی وفات کے بعد اسکے بیٹے کو اسکے جانشین کے طور پر صدر بنالیاگیااگرچہ اس مقصد کے لیے مملکت میں انتخابات بھی کرائے گئے۔قومی انتخابات میں اکیاسی ارکان کو چناجاتاہے جن کی مدت انتخابات پانچ سالوں پر محیط ہوتی ہے۔ وزیراعظم ملک کاانتظامی نگران ہوتاہے،صدر اور وزیراعظم مل کر وزراکی ایک ٹیم تشکیل دیتے ہیں جس سے کاروبار ریاست چلایاجاتاہے۔ مملکت کو پانچ صوبوں اوراکیس ضلعوں میں تقسیم کیاہواہے۔صوبوں اور ضلعوں میں اگرچہ انتظامی سربراہان کاتقرر کیاجاتا ہے لیکن قبائلی سرداروں اور خاندانی سرپرستوں کے بغیر یہاں کاانتظام چلانا ممکن نہیں۔ان بااثرافرادکے بغیر یہاں کی عدالتیں بھی کام نہیں کر سکتیں۔ٹوگوکی عدالتیں اب تک فرانسیسی قوانین کے تحت ہی فیصلے کرتی ہیں اور ملک کی سپریم کورٹ سب سے بڑا عدالتی ادارہ ہے۔
1965میں ایک قانون کے تحت یہاں پر غیرملکیوں کو مکمل کاروباری اور تجارتی تحفظ اور آزادانہ تجارت اور رقوم کی آزادانہ منتقلی کی ضمانت فراہم کی گئی۔آزادانہ تجارت کی حوصلہ افزائی کے لیے یہاں کے ٹیکس قوانین میں وسیع تبدیلیاں بروئے کار لائی گئیں۔فاسفیٹ یہاں کی بہت بڑی دولت ہے جس کے وسیع ذخائر یہاں کی زمین نے اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔فاسفیٹ درآمد بھی کی جاتی ہے جس کے باعث حکومت کو بہت سی آمدن ہوتی ہے کیونکہ ٹوگو دنیابھر میں فاسفیٹ کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔فاسفیٹ کے علاوہ یہاں کے پتھر کی بھی دنیامیں بہت مانگ ہے۔کافی،کوکا،کپاس،مکئی،اورچاول یہاں کی زرعی پیداوار ہیں اور ساحلی علاقے کے لوگ مچھلی کاکاروبار بھی وسیع پیمانے پر کرتے ہیں۔ملک بھر میں سات ہوائی اڈے ہیں اور 568کلومیٹر لمبی ریلوے لائن بھی ہے ۔
جنوبی افریقہ میں اسلام کی آمد کے ساتھ ہی یہاں بھی اس نور کی کرنیں پہنچناشروع ہوگئیں۔’’سحارا‘‘نامی افریقی شہر میں بربرقبائل اور ’’ٹورگ‘‘قبائل کے مسلمان تاجروں نے اپنے حسن اخلاق اورحسن کردار سے اسلام کو یہاں روشناس کرایا۔اس وقت کے مسلمان بزرگوں نے افریقہ کے ان علاقوں میں مساجد اور تبیلغ و ارشاد کے بڑے بڑے مراکزبنائے اور مبلغین کے گروہ دوردرازکے دیہاتی علاقوں میں روانہ کیے جس سے توحید کا پیغام ہر جگہ پہنچتاچلاگیااور لوگوں کی ایک معقول تعداد اسلام قبول کرتی گئی۔اب ٹوگومیں جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں وہاں انہوں نے مساجد کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی دینی تعلیم کاانتظام بھی کررکھاہے۔ٹوگومیں تقریباََہرقبیلے کے اندر فرزندان توحید کی ایک معقول تعداد موجود ہے تاہم ’’کوٹوکولی‘‘قبیلہ جوااٹھارویں صدی میں مسلمان ہوا تھا اس وقت مملکت کے سب سے بڑے مسلمان گروہ کی حیثیت رکھتاہے۔مسلمانوں کی متعدد تنظیمیں محوعمل ہیں جودوردرازدیہاتی علاقوں میں بھی مسلمانوں تک پہنچی ہیں جس سے افریقی ٹوگومسلمانوں میں جہاں ایمان و عقیدہ وعمل کی پختگی آئی ہے وہاں ان کے رہن سہن کے طریقوں میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔ فیڈریشن آف ٹوگومسلمز(Federation of Togo Muslims )یہاں کی سب سے بڑی مسلمان تنظیم ہے جو نو مسلموں کو بھی اسلامی شعائر سے آگاہ کرتی ہے کیونکہ یہاں کے مسیحیوں میں مسلمان ہونے کی شرح بہت زیادہ ہے۔مسلمانوں کی ایک قابل قدر تعدادحکومتی اداروں میں بھی اعلی مناصب پر تعینات ہے جبکہ وزیروں سمیت اعلی سیاسی و انتظامی اداروں میں اور عدلیہ میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی دیکھی جا سکتی ہے اور کچھ ہی عرصہ پہلے ٹوگو کے وزیربلدیات نے بھی اسلام قبول کر لیاتھا۔مسلمانوں کی سیاسی و معاشرتی کامیابی کا راز ان کے بہترین نظام تعلیم میں پنہاں ہے جہاں عربی اور فرانسیسی دونوں زبان میں مذہبی و عصری تعلیم فراہم کی جاتی ہے نیزان کے تربیتی اداروں نے قدیم و جدید مسلمانوں کی تربیت کا بیڑہ بھی اٹھا رکھاہے ،ان اداروں کی مالی اعانت میں دنیابھرکے متمول مسلمان پیش پیش ہیں۔ماضی قریب میں ٹوگواب اوآئی سی (Organization of Islamic Cooperation (OIC))کارکن بھی بناہے۔

«
»

سرکا بدلی مگر حالات نہیں بدلے!!

یمن کے ’’حوثی‘‘کون ہیں؟؟؟!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے