مفتی صدیق احمد جوگواڑ نوساری گجرات
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حق اور باطل کی کشمکش ہر زمانے میں ہوتی رہتی ہے، پہلے حق دبتا ہے باطل ابھر کر سامنے آتا ہے، لیکن بعد میں جب حق کو غلبہ ہوجاتاہے تووہ باطل کو ڈوبادیتاہے، البتہ حالات اور زمانےکے اعتبار سے حق اورباطل کی شکلیں بدلتی رہتی ہے، اور اس زمانے میں سب سے زیادہ خطرناک اورتیزی سے پھیل کر خوشگوار فضا کو زہر آلود کرنے والی شئ عصبیت اور تعصب ہے ،جس نے ایسا تشدد اختیار کرلیاہے کہ اب امّ الرذائل بن چکا ہے، اس کے سبب وجود میں آنے والے گناہوں کی ایک لمبی فہرست ہے ،
نیز اس کی اتنی زیادہ اقسام وجود میں آچکی ہے کہ اس سے کسی کا محفوظ رہنا بہت مشکل نظر آتاہے، اور آج کل ہمارے معاشرے میں اسی کے سبب بہت سی برائیاں وجود میں آرہی ہیں، جن کی وجہ سے پوری نوع انسانی کا امن وامان اورچین وسکون سے زندگی گزارنا دشوار ہوچکاہے ،
لیکن اب تک اس کے مضراثرات سے کوئ محفوظ نہیں رہ سکا،اورابھی تومعاملہ اتنازیادہ آگے نکل چکا ہے کہ اس کی وجہ سے قتل وقتال سے بھی دریغ نہیں کیا جارہاہے، اسی تعصب نے بھائ کو بھائ سے، رشتہ داروں کو ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے ،اور ان کے درمیان ایسی دراڑ پیدا کردی ہے کہ جس کا خاتمہ ناممکن سا نظر آرہاہے،
ظلم وتشدد، عدوان وسرکشی، بغض وحسد اور کبر سے لیکر قتل وقتال تک تمام برائیاں روز بہ روز بڑھتی جارہی ہے، انسانیت شرم سے پانی پانی ہورہی ہے،
غرض ان تمام برائیوں نے دنیا کو ظلم وتشدد اور عصیان ونافرمانی سے بھردیاہے، اور لوگوں نے نفسانی خواہشات کی پیروی شروع کردی ہے ،ایسے حالات میں ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو دیکھ کر اس کےمطابق زندگی گزارنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة ※ یقینا اللہ کے رسول میں تمھارے لیے نمونہ ہے،
معززقارئین! کیا آپ جانتے ہیں کہ: تعصّب کیا ہے؟
تعصب کے لغوی معنی : بےجا طرف داری کرنا، یاکسی کےمقابلے میں گروہ بندی کرنا،
اصطلاحی معنی: حق کے ظہور کے بعد کسی ایک جانب مائل ہونے کی وجہ سے اسے قبول نہ کرنا،یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے دل کے اندر ایسے شعور کا پایا جانا جسکی وجہ سے انسان متشدّد بن جائے ،اوربلا کسی دلیل کےاپنے آپ کو حق پر سمجھتاہو،
اللہ تعالی نے تعصب سے منع فرمایا جیساکہ قرآن مجید میں ہے.
یاایھا الناس اناخلقناکم من ذکر وانثی وجعلناکم شعبا وقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم ان اللہ علیم خبیر※
اے لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور مختلف خاندان اور کنبے بنادیئے ہیں ؛ تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو ، یقیناً اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہو ، یقیناً اللہ تعالی بہت جاننے والے اور بہت باخبر ہیں،
نیزحدیث شریف میں ہے يَاأَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلَا أَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلَّا بِالتَّقْوَى،
اے لوگو!تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ آدم علیہ السلام ایک ہے، کسی عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں، نہ کسی عجمی کو عربی پر فضیلت ہے اور نہ سرخ کو سیاہ پر فضیلت ہے اور نہ سیاہ فام کو سرخ پر فضیلت ہے، مگر تقویٰ پر فضیلت کا مدار ہے۔
عن فُسَيْلَة قَالَتْ : سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ : سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمِنَ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يُحِبَّ الرَّجُلُ قَوْمَهُ ؟ قَالَ : " لَا، وَلَكِنْ مِنَ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يَنْصُرَ الرَّجُلُ قَوْمَهُ عَلَى الظُّلْمِ ".
حضرت عسیلہ فرماتی ہیں میں نے اپنے والد صاحب سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انھوں نے رسول اللہ سے سوال کیا کہ کیااپنے قوم کے کسی فرد کی مدد کرنا تعصب ہے؟ فرمایا نہیں ،عصبیت یہ ہے کہ آدمی کسی آدمی کی ظلم پر مدد کرے.
اور دوسری حدیث میں ہے،
عن جبير بن مطعم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" ليس منا من دعا إلى عصبية، وليس منا من قاتل على عصبية، وليس منا من مات على عصبية".
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو کسی عصبیت کی طرف بلائے، وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی بنیاد پر لڑائی لڑے، اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جو تعصب کا تصور لیے ہوئے مرے“۔
قرآن مجید اوراحادیث مبارکہ سےصاف پتہ چلتاہےکہ تعصب کی شریعت میں قطعًا اجازت نہیں ہے، اس لیے اس سے بچنا ازحد ضروری ہے،
تعصب کے چند اقسام ہیں
(۱)دینی: جیسا کہ دنیا بھر میں یہ مشاہدہ کیا جارہا ہے کہ مسلمانوں سے نفرت آئے دن بڑھتی جارہی ہے اسلام اورمسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ،دنیا بھر میں مسلمانوں کے تئیں نفرت کا زہر گھولا جارہا ہے، صرف اس لیے کہ ان کے پاس نظام حیات موجود ہے ،قرآن مجید اوراحادیث مبارکہ نے زندگی کے ہر موڑ کو محفوظ کیا ہے، جسکی روشنی میں وہ زندگی گزارتے ہیں ،رہی بات اہل باطل کی تو انھوں نے اپنی کتاب کو ضائع کردیا اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے دین اسلام کو قبول کرنے سے انکار کردیا، اب تعصب کی وجہ سے وہ چاہتے ہیں کہ ہم تو برباد ہے ہی،
لہٰذا انھیں بھی برباد کردیں،نیز انھیں یہ بھی خوف ہے کہ جب ہمارے لوگ اسلامی تعلیمات کو یا مسلمانوں کے اخلاق واطوار کو قریب سے دیکھیں گے ،تو وہ لامحالہ اسلام قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں گے،کیونکہ در اصل اسلام ہی ایک سچا اورامن وسلامتی والا مذہب ہے، اس لیے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، ناحق خون بہایا جارہا ہے ،انھیں پورے طور پر ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، لیکن یہ محاورہ بہت مشہور ہے "جسے اللہ رکّھے اسے کون چکّھے" بس ضرورت ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات پر مکمل عمل پیرارہیں ،جیسا کہ قرآن کریم میں ہے، وَ لَا تَہِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
( اے مسلمانو ! )تم نہ ہمت ہارو اورنہ غم کھاؤ ، اگر تم ایمان رکھتے ہوتو تم ہی غالب رہو گے.
اس تعصب کا سب سے بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ دو مختلف مذہب کے افراد میں آئے دن دوریاں بڑھتی جارہی ہیں، اور نفرت زور پکڑ رہا ہے،اب تو اتنا زیادہ تعصب بڑھ چکا ہے کہ بلا سوچے سمجھے دوسرے مذہب والوں کی تمام باتوں کو غلط ٹہرا دیتے ہیں،اس لیے ضرورت ہے کہ اسے ختم کیا جائے اخوت ومحبت اور بھائ چارگی قائم کی جائے،اچھے اخلاق کا اظہار کیاجائے، بلاتفریق مذہب وقت ضرورت پر ایک دوسرے کی امداد کریں تو ان شاء اللہ اس نفرت کو محبت سے بدلنے میں ہم کامیاب ہوجائیں گے،
(۲)مسلکی: اس زمانے میں مسلکی اختلاف اتنا فروغ پارہا ہے کہ کافر سے بھی زیادہ دوسرے مسلک کے لوگوں سے نفرت کی جارہی ہے ،اور مسلکی اختلاف نے پوری قوم کے شیرازہ کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تقسیم کردیا ہے، جس کا باطل طاقتیں غلط فائدہ اٹھا رہی ہیں، در اصل مسلکی اختلاف ان ہی کی ایجاد ہے ،جو مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے لایا گیا ہے، لیکن ہم بالکل سمجھتے نہیں اور جزوی اختلاف کو لے کر آپس میں دوریاں تعصب اور نفرت لیے پھرتے ہیں، جبکہ باطل طاقتیں جزوی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ہمارے خلاف سازشیں کرتی ہیں، اور ہر طرف سے حملہ آور ہوتی ہیں، اب تو مسلک ایک بھی ہو تب بھی ایک دو نظریہ کے اختلاف کی وجہ سے ہماری قوم چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں تقسیم ہوجاتی ہے، جس کاباطل طاقتیں غلط فائدہ اٹھا رہی ہے،اور یہی چیزیں ہمارے لیےبڑے بڑے علماء قائدین وغیرہ سے بدظنی ،نفرت اور دوری کا سبب بن رہی ہے ،حالانکہ تاریخ بھری پڑی ہے کہ جب بھی باطل نے مسلمانوں سے کھلواڑ کرنا چاہاسب سے پہلے علماء سے عوام کے اعتقاد کو ختم کیا،اس کے بعد جب ان کی قوم بلا کسی سے پوچھی من مانی طور پر چلتی ہوگئ تو اچانک سےایمان پر اوراعتقاد پرحملہ کردیا،اور اب تو تعصب کی وجہ سےذات پر بھی حملے ہونے لگے ہیں، جس کا نقصان یہ ہورہا ہے بڑوں کا ادب واحترام ختم ہوگیا،آپسی تعلقات خراب ہوگئے،حسد اور بغض بڑھ گیا،اس لیے ایسے پر فتن حالات میں ہمیں محتاط رہ کر اتحاد واتفاق کی طاقت سے باطل کے یلغارون کا منہ توڑ جواب دینا ہوگا،
(۳)سیاسی : سیاسی تعصب اتنا زیادہ بڑھ چکا ہے کہ ہمہ وقت ایک پارٹی دوسری پارٹی کے عیوب ونقائص اور غلطیوں کولوگوں کے سامنے لانے میں لگی رہتی ہے، حتی کہ اُس پارٹی سے متنفّر کردیتی ہے ،
نیز سیاست کا معاملہ بھی ایسا ہی ہوچکا ہے کہ جب سیاسی حضرات کو ضرورت ہوتی ہے تو لوگوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ: اگر آپ کے ووٹوں کی بہ دولت ہم جیت جائیں گے تو فلاں کام کروادیں گے ،فلاں روڈ بنوادیں گے وغیرہ وغیرہ ،لیکن جب الیکشن ختم ہوجاتا ہے تو سارے وعدے ختم ہوجاتے ہیں ،اور وہ خود بھی لوگوں کے درمیان کبھی نہیں آتے ،مطلب یہ ہے کہ وہ عوام سے کھلواڑ کرتے ہیں، جب کھیل ختم ہوتا ہے انھیں لات مار کر بھگا دیتے ہیں ،ظاہر سی بات ہے ایسی برتاؤ سے عوام متعصب ہوہی جائے گی اور انھیں دیکھنا بھی گوارا نہیں کرے گی، البتہ بعض امانت دار مخلص اب بھی موجود ہیں جو کام کر رہے ہیں اور عوام کی محبت اور دعاءیں بھی حاصل کر رہے ہیں.
نیز حکومت بھی اپنی رعایا کے ساتھ کھلواڑ کرتی ہے، اور سب سے پہلے رعایا کے حقوق کو چھین لیتی ہے ،اور الیکشن میں ان ہی حقوق کو واپس لوٹانے کاعہد کرتی ہے ،جسکی وجہ سے حکومت سے رعایا متنفّر ہوجاتی ہے، موجودہ حکومت کاتعصّب تو اتنازور پکڑ چکا ہے کہ پوری سیاست جھوٹ بول کر،ڈرا دھمکاکر،دھوکہ بازی کرکےاور ہندو مسلم کر کے کھیلتی ہے، اور ان تمام کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر ایک کے دل میں دوسرے مذہب کے تئیں تعصب اورنفرت بیٹھ جاتی ہے، اور حکومت سےعداوت بڑھ جاتی، یہاں تک کہ ہر ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہوجاتاہےاور قتل وقتال کادروازہ کھل جاتا ہے،کھلے عام حق تلفی ہونے لگتی ہے،
(۴)اجتماعی: ہر خاندان کا الگ الگ انداز طور وطریقہ ہوتا ہے، نیز ایک خاندان میں بھی مختلف مزاج کےافرادرہتے ہیں، اسی وجہ سے کسی کوکوئ چیز ناپسند ہوتی ہے، اورہر ایک کے نظریے میں بھی کچھ فرق ہوتا ہے ،اسی وجہ سے اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے ،لیکن یہ اس وقت خطرناک ثابت ہوتی ہے ،جب کہ تعصب کی شکل اختیار کر لیتی ہے ،حالاں کہ اللہ تعالی نے لوگوں کو مختلف قبائل میں تقسیم اس لیے کیا ،تا کہ ایک دوسرے کی شناخت اور پہچان میں آسانی ہو، جبکہ صورت حال یہ ہے کہ ایک خاندان دوسرے خاندان سے حسد اوربغض رکھتا ہے، اگر کوئ ترقی کرتا ہے تو اس کو گرانے کی ناکام کوششیں کی جاتی ہے، آپس میں ایک دوسرے کے تعاون کی بات تو دور، ہمیشہ عیب جوئ میں لگے رہتے ہیں، ان تمام کا منفی اثر پڑتا ہے اور تعصب میں شدت پیدا ہوجاتی ہے، جو قتل وقتال تک لے جاتی ہے،اورظلم و عصیان اور سرکشی پر ابھارتی ہے،
(۵)لسانی: مختلف زبان کے افراد محض زبان کی وجہ سے آپس میں متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں ،اپنی زبان کو زیادہ اچھا سمجھنے کی وجہ سے ،حالاں کہ زبان کا مختلف ہونا انسان کی وقعت وعزت کو نہیں گھٹاتا،اور نہ ہی کسی کو نقصان پہنچاتا ہے ، اسکا نقصان یہ ہوتا ہے کہ نااہلوں کو بلند مناصب دیدیے جاتے ہیں اور قابل وصلاحیت مند افراد کی حق تلفی کی جاتی ہے،
(۶)بلادی : کچھ لوگ تو صوبے کے مختلف ہونے کی وجہ سے تعصب رکھتے ہیں کہ فلاں صوبے کے افراد بُرے ہوتے ہیں، انکے اندر اس طرح کی خامیاں پائ جاتی ہیں،اور کچھ لوگ ملک کے مختلف ہونے کی وجہ سے متعصبانہ رویہ اختیار کرتے ہیں کہ فلاں ملک کے افراد میں یہ بُری خصلت پائ جاتی ہے ،اسکی وجہ سے تکبر پیدا ہوجاتا ہے، پھر تنزّلی شروع ہوجاتی ہے، اور جلد ہی اللہ ایسے شخص کو ذلّت و رسوائ کا مزہ چکھاتا ہے،
غرض ان تمام اقسام کو سامنے رکھ کر آپ ہی سوچیے کہ اگر اس طرح ہم اپنے بھائیوں کوالگ الگ گروپ میں تقسیم کر دیں گے، اور ان سب امور کی وجہ سے ان کے ساتھ تعصبانہ رویّہ رکھتے ہوئے نااہلوں کو عہدے سپرد کریں گے تو امت کا ،طلبہ کا، تنظیم کا نقصان تو ہوگا ہی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ خدا کی بارگاہ میں بھی جواب دینا ہوگا، کیونکہ اسلام نے اس طرح امتیازی سلوک کرنے کی قطعا اجازت نہیں دی ہے ،اور تمام مسلمان بھائیوں کو آپس میں بھائ بھائ قرار دیا ،جیسا کہ حدیث پاک میں ہے
انما المؤمنون اخوة مسلمان آپس میں بھائ بھائ ہیں،
نیز حدیث پاک میں یہ بھی ہے. عن أبي موسى ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال "المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا". وشبّك بين أصابعه.حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےنقل فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مومن دوسرے مومن کے ساتھ ایک عمارت کے حکم میں ہے کہ ایک کو دسرے سے قوّت پہنچتی ہے۔ اورآپ نے اپنی ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کے اندرکیا.
تعصب کے سبب وجود پذیر ہونے والی بیماریاں:
کبر: ایک ایسی انسانی کیفیت جس میں انسان اپنے آپ کو دوسرے سے زیادہ فوقیت دے، اور افضل سمجھے، تکبر کی ایک قسم حق کو رد کرنا اور اسے قبول نہ کرناہے.
حسد:کسی شخص کو صاحب نعمت دیکھ کر اسکے زوال کی تمنا کرنا،
ریاء:اللہ کو چھوڑکر دوسروں کو دکھانے کے لیے کوئ کام کیا جائے، تاکہ لوگ تعریف کریں ،
غیبت:کسی کی عدم موجودگی میں ایسی بات کرنا جو واقعةً اس میں موجود ہو، لیکن اگر وہ سنے تو ناراض ہو اور ناپسند کرے
بہتان:کسی کی غائبانہ ایسی برائ بیان کرنا جو اس میں نہ ہو ،
ظلم:کسی شئ سے اس کی فطرت کے خلاف کام لینا،
کبر انسان کی تنزلی کا سبب بنتا ہے،حسد انسان کے اعمال صالحہ کو جلادینے کا سبب بنتا ہے،ریاء اعمال صالحہ کو ضائع کردینے کا سبب بنتا ہے،غیبت نیکیوں کو کھا جانے کا سبب بنتا ہے،بہتان لوگوں کو ذلیل کرنے کا سبب بنتا ہے،اورظلم اللہ کے عذاب اور نسلوں کی تباہی کا سبب بنتا ہے،
اور یہ تمام چیزیں حرام اور ناجائز ہے ،ان سے بچنا نہایت ہی ضروری ہے، جیساکہ حدیث پاک میں ہے ،
لاتحاسدوا ولا تناجشوا ولا تباغضوا ولا تدابروا ولا یبع بعضکم علی بیع بعض وکونوا عباداﷲ إخوانًا.
'' آپس میں حسد نہ کرو،بولی پہ بولی نہ لگاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے دشمنی نہ رکھو، اور نہ ہی کوئی شخص کسی شخص کی بیع پر بیع کرے۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔''
نیزبرطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ: مسلسل نسلی تعصب کرنے والوں کی جسمانی اور دماغی صحت دونوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے ،جس سے ان کی صلاحیت بھی متأثر ہوتی ہے،
آخرت میں اسکےذریعے وجود میں آنے والی ہر بیماری سزا کاسبب بنتی ہے ،اور ہر ایک کے متعلق خدا کے یہاں جواب دینا ہوگا،
احادیث مبارکہ اس پر شاہد ہے ،اللہ کے رسول نے فرمایا: جو عصبیت اختیار کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے،اس کے علاوہ بھی بے شمار وعیدیں ہیں،
اسباب :
(۱)کسی کاخاص ایک ماحول میں پرورش پانااور دوسرے ماحول کو غلط سمجھنا، اس سے متنفر ہونا،
(۲)کسی کو نیچا دکھا نے کے لیے مناظرہ کرنا،
(۳)غلط بیانی کرنا یا کسی بڑے کےمتعلق کوئ بات سنے اور وہ صحیح ہو ان سے غلطی ہوئ ہو تب بھی تسلیم نہ کرنا،
(۴)کسی بھی بات کودلیل کے ظہور کے باوجود محض اپنے مزاج یا معلومات کے خلاف ہونے کی وجہ سے نہ ماننا ،
(۵)بعض فضلاء اجتھادی قواعد کی وجہ سے کچھ بھی فیصلہ کرتے ہیں،اور بعض مرجوح قول کو راجح قرار دیتے ہیں ،جس کی وجہ سے اہل علم پر سوال اٹھتا ہے اور دونوں میں بغض پیدا ہوجاتا ہے ،جو تعصب تک لیجاتا ہے،
(۶)کسی دوسرے مسلک کے خلاف مسلکی علماء کی کتاب پڑھ کر اسے ہی حتمی مان لینا ،جبکہ ممکن ہے کہ یہ کتاب جس وقت لکھی گئ ہو اس وقت کی بات ہو، بعد میں معاملہ بدل چکا ہو ،اس سے ہٹ دھرمی بڑھ جاتی ہے ،پھر دشمنی ہوجاتی ہے
(۷)کسی کی جرح و تعدیل میں تقلید کرنا، یعنی اگر کسی نے ایک شخص کے متعلق برا بھلا کہا، اسی کو دلیل بنا کر بلا تحقیق اسے برا سمجھنا اور کہنا،
(۸)اپنے ہم عمروں کے مابین عداوت بغض اور دشمنی کا پیدا ہوجانا، چونکہ مختلف مزاج کے لوگ ہوا کرتے ہیں اس لیے ہر ایک کی رعایت ضروری ہوتی ہے ورنہ انکے مابین افتراق و جدائیگی پیدا ہوجاتی ہے ،جو تعصب و دشمنی کا سبب بنتی ہے ،پھر مدّمقابل کی صحیح بات بھی غلط دکھائ دیتی ہے ،اور ہمیشہ اسکے عیب جوئ میں مصروف رہتا ہے.
علامت:
تسلط یعنی کسی غلط بات پر یا دوسرے کی چیزوں پرناحق قبضہ جمالینا اور غلبہ پالینا،
تشدد پیدا ہوجاتا ہے، ہر معاملے میں سخت رویّہ رہتا ہے،
جمود فکری، تنگ ذہنی کی وجہ سے نہ تو صحیح سمجھنے کی صلاحیت ہوتی اور نہ ہی کسی پرائے کے لیے ہمدردی دکھانے کی ،
ضد اور ہٹ دھرمی پیدا ہوجاتی ہے، یعنی کسی بھی بات کو کہ کر یا کسی کام کو کرکے اسی پر اڑے رہنا ،خواہ وہ غلط ہو یا صحیح ،
خلاصئہ کلام یہ ہےکہ اس وقت سب سے زیادہ تیزی سے پھیل کرایک منظم معاشرے کو تباہی کی راہ پر لے جانی والا یہی تعصب ہے ،جس نے کتنے گھروں کو اجاڑدیا، کتنے بچوں کو یتیم، کتنی ماؤوں کو بیوہ کردیا، اور اسی کی وجہ سے کتنی ماؤں سے بچے چھینے گئے، کتنے ماہر ،قابل اور صلاحیت مند افراد کو انکی صلاحیت محض عصبیت کی وجہ سے کوئ فائدہ نہیں پہنچاسکی ،اور تعصب کے سبب وجود میں آنے والی جتنی روحانی، جسمانی بیماریاں ہیں انکا علاج فضا کے مسموم ہونے کی وجہ سے مشکل ہی نہیں، بلکہ نا ممکن سا نظر آتا ہے، لیکن جسے انسان آسان سمجھ لے اور کرنا شروع کردے کوئ مشکلات اسکے راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی ،بلکہ اگلی منزلیں اس کے لیے خود بخود ہموار ہوتی رہتی ہے،بس ثابت قدمی اور احساس ذمہ داری چاہیے،
اس کے لیے سب سے پہلے تو ہمیں اپنے اندر فہم سلیم پیدا کرنی ہوگی، اور اعمال بد کو ترک کرنا ہوگا، جہاں بھی صحیح بات سامنے آئے ضد اور ہٹ دھرمی کے بجائے اسے دل سے تسلیم کرنی ہوگی،اللہ کے فیصلے پر ہمیشہ راضی رہنا ہوگا، اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکےجرح وتعدیل قبول کرنا ہوگا، اس غلطی کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہوگی،جہاں کہیں اس طرح کا معاملہ درپیش ہوفتنوں کا تعاقب کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کی خبر دینااورانکی عیاریوں اور مکاریوں کو سب کے سامنے لانا نہایت ضروری ہے، تاکہ ان کے زہر سے لوگ محفوظ رہ سکیں، دینی علوم کی نشر واشاعت بھی کریں، تا کہ علم کی وجہ سے جہالت اور تاریکی ختم ہوجائے،اور ایک بات ہمیشہ کے لیے ذہن میں بٹھا لیں کہ: بغیر تعاون کے دنیا کا کوئ کام نہیں ہوسکتا، کیونکہ اللہ تعالی نے سب کو محتاج بنا یاہے،ایک کام بھی انسان بلا کسی کی مدد کے نہیں کر سکتا، مثلا کسی کو روٹی کھانا ہے تو پہلے کھیت میں بیج ڈالے گا،اسکے بعد اسے کاٹ کر سکھائے گا، پھر آٹا پسائے گا،پھر گوندھے گا، اسکے بعد جاکر آگ پر رکھے گا، تب جاکر ایک روٹی تیار ہوگی ،اب سوچ لیجیے کہ ایک روٹی کے لیے کتنے لوگوں کی ضرورت پڑی، دیگر معاملات کا بھی حال اسی طرح ہے،اس لیے ہر ایک کا تعاون کرتے رہیں اور باہمی تعاون سے آگے بڑھتے رہیں ،خدا ترقی دے گا،اورحق کو حق باطل کو باطل کہیں ،لوگوں کی اظہار رائے کااحترام کیاجائے،اگر غلط ہو تو انہیں سمجھا یا جائے،کبھی طبیعت کے خلاف کوئ بات پیش آجائے تو صبر کریں اورغصہ کو پی جائیں، اپنی غلطیوں کا جج بنیں نہ کہ دوسروں کا، کیونکہ اپنی اصلاح آپ خود کر سکتے ہیں ،لیکن دوسروں کی اصلاح نہ ہی آپ کے بس میں ہے اور نہ تو آپ کی ذمہ داری ہے،اور مصالح عامہ کو مصالح خاصہ پر مقدم کریں ،
ان تمام باتوں پر عمل کرنے سے ان شاء اللہ تعصب کے نقصانات اور گناہ سے بچا جا سکتا ہے،
امید ہے کہ قارئین ان پر عمل پیرا ہو کر دونوں جہاں میں سرخرو اور کامیابی سے ہمکنار ہوں گے،
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
04جنوری 2020
جواب دیں