وہ بیت اللہ جس کی تعمیر اللہ کے فرشتوں کے ہاتھوں ہوئی تھی اور جس کی تعمیر نو جناب ابراہیم و اسمٰعیل جیسے اولولعزم پیغمبروں کے ہاتھوں ہوئی،اسی پر منجنیق کے ذریعے بڑے بڑے پتھروں کی بارش کی گئی جس سے حرم محترم کی دیواریں مخدوش ہوگئیں،دروازے اور کھڑکی کو توڑا گیااور وہ مقدس پتھر جو حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ جنت سے زمین پر آیا تھا اور جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بوسہ دیا تھااسے بھی گرز مار کر توڑ دیا گیا۔ وہ پاک مقام جہاں ایک چیونٹی مارنے کی اجازت نہیں وہاں انسانوں کو قتل کیا گیا، انسانی سر کو خانہ کعبہ پر لٹکادیا گیااور درندگی کی جتنی حدیں ہوسکتی تھیں سب کو پھلانگنے کی کوشش ہوئی۔ حاجیوں کو حج سے روک دیا گیا اور جو حج کرنے آئے تھے ان سے لوٹ پاٹ کی گئی۔ تب خانہ کعبہ کی حفاظت کے لئے کوئی کرشمہ نہیں ہوا اور نہ ہی ابابیلوں کا لشکر آیا بلکہ اللہ کی طرف سے غیبی پیغام اہلِ ایمان کے دلوں میں القا ہوتا رہا کہ:
اپنے کعبہ کی حفاظت تمہیں خود کرنی ہے
اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا
تاریخ نے ایسے کئی مواقع دیکھے ہیں کہ جب کسی قوم کی عظمت عروج پر ہوتی ہے اور اسی بیچ وہ ذلت کے دور سے بھی گذر رہی ہوتی ہے۔بنو امیہ اور بنو عباسیہ کے عہد حکومت میں جب مسلمان ساری دنیا میں ایک طاقت ور ترین قوم سمجھے جاتے تھے اور ان کے نام سے قیصران وقت کانپتے تھے ٹھیک اسی دور میں اسلام کے مقدس ترین شہر مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ کی حرمت پامال کی گئی اور بردار کشی کی ایسی تاریخ رچی گئی جس کی مثال عالمی تاریخ میں شاید ہی ملے۔ کلمہ اسلام پڑھنے والوں اور ایک اللہ و ایک رسول کا نام لینے والوں نے ایسی حرکات کا ارتکاب کیا جس کے تصور سے کافرافرنگ کی روح بھی کانپ اٹھے۔ ایسے کئی مواقع آئے جب خانہ کعبہ پر حملے ہوئے اور حرم مقدس میں قتال وجدال ہوا۔ ہم اس کی مختصر تاریخ پر اکتفا کرتے ہیں۔
ابابیلوں نے کعبہ کی حفاظت کی
رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے ایک سال قبل مکہ معظمہ میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ یمن کے بادشاہ ابرہہ نے مکہ پر حملہ کیا اور خانہ کعبہ کو مسمار کردینا چاہا۔ اسے کعبہ کے تقدس سے حسد تھی کیونکہ اہل عرب یہاں حج کے لئے آتے تھے اور اس نے اپنے ملک میں ایک مندر بنایا تھا جو بہت عالیشان تھا مگر اس کی طرف کوئی بھی احترام و عقیدت سے نہیں جاتا تھا لہٰذا اسے خیال آیا کہ اگر کعبہ کو مسمار کردیا جائے تو ممکن ہے اہل عرب اس کے مندر کی طرف آنے لگیں۔ اسی خام خیالی میں وہ ہاتھیوں کے ایک لشکر عظیم کے ساتھ مکہ کی طرف بڑھا۔ جب مکہ کے قریب خیمہ زن ہوا تو اہل مکہ اپنے اپنے گھر بار چھوڑ کر شہر سے باہر چلے گئے۔ اللہ کی طرف سے کعبہ کی حفاظت کا انتظام کیا گیا اور ابابیلوں کا ایک لشکر آسمان پر نمودار ہوا۔ ان ننھی چڑیوں کی چونچوں میں ایک ایک کنکری تھی جنھیں انھوں نے ہاتھی والے فوجیوں پر گرادیں۔ اللہ کے کرم سے ان کنکریوں میں اتنی طاقت آگئی کہ وہ جس فیل سوار کے سرپر گریں اس کے جسم کو چھیدتی ہوئی اور ہاتھی کے جسم کو چیرتی ہوئی نیچے سے نکل جاتیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا خاتمہ ہوجاتا۔ خانہ کعبہ کو تباہ وبرباد کرنے کی یہ کوشش اللہ کی خفیہ حکمت نے ناکام بنادی اور ابرہہ کے ساتھ ساتھ اس کا لشکر بھی برباد ہوگیا۔اس واقعے کا ذکر اللہ نے قرآن مقدس کی سورہ فیل میں بھی کیاہے۔
یزیدیوں نے جب کعبہ پرآگ اور پتھروں کی بارش کی
بنو امیہ کے حکمراں یزید بن معاویہ کو تاریخ میں ایک ظالم و جابر اور دشمن اہل بیت فرمانروا کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس نے نواسۂ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اوران کے اہل بیت کا خون بہایا تھا اور اپنے اس جرم کے سبب تاقیامت وہ اہل ایمان کی نفرت کا مرکز بنا رہے گا مگر اسی کے ساتھ اس کے دامن پر ایک دوسرا داغ بھی ہے اور وہ ہے مکہ اور مدینہ کی حرمت کو پامال کرنا۔ اسی کے عہد حکومت میں اللہ کے مقدس گھر کعبہ پر پتھروں کی بارش کی گئی جس سے کعبہ کی دیواریں مخدوش ہوگئیں۔ واقعہ یوں ہے کہ جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوگئی تو حجاز میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یزیدی اقتدار کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیا اور مکہ و مدینہ سمیت پورے حجاز کے لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے انھیں خلیفہ تسلیم کرلیا۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپی حضرت صفیہ کے پوتے اور حضرت ابوبکر صدیق کے نواسے تھے۔ مکہ و مدینہ والوں کے علاوہ عرب کے کچھ اہم اور بااثر لوگوں نے ان کی مدد کی اور خوارج بھی ان کے ساتھ آملے۔ وہ مکہ معظمہ میں مقیم تھے۔ اسی بیچ یزیدی لشکر مکہ پر حملہ آور ہوا اورشہر کا محاصرہ کر کے آس پاس کی پہاڑیوں پر منجنیقیں نصب کردیں۔ ان منجنیقوں میں بڑے بڑے پتھربھرے گئے اورمکہ کی آبادی نیز خانہ کعبہ پر پتھروں کی بارش شروع کی گئی۔ حملہ اتنا شدید تھا کہ مکہ والوں کا گھر سے نکلنا دشوار ہوگیا۔اسی کے ساتھ روئی اور گندھک کے بڑے بڑے گولے بنائے گئے جن میں آگ لگاکر بیت اللہ پر پھینکا گیا۔یزیدی لشکر کی اس حرکت سے غلافِ کعبہ میں آگ لگ گئی اور جل گیا۔ کعبہ کی دیواریں جل کر سیاہ او ر شکستہ ہوگئیں نیز چھت گر گئی۔ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ یزید کی موت کی خبر آئی اور حملہ آوروں کو محاصرہ اٹھانا پڑا۔ یہ واقعہ ۶۴ ھ کا ہے۔ حالات معمول پر آگئے تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کعبہ کی دوبارہ تعمیر کرائی۔
حجاج بن یوسف کا کعبہ پر حملہ
بنو امیہ کے عہد میں ہی خانہ کعبہ پر دوبارہ حملہ کیا گیااور دوسری بار نہ صرف کعبہ کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ حدودحرم میں قتل و غارت گری بھی کی گئی۔اوپر مذکور واقعے کے ٹھیک آٹھ سال بعد ۷۲ھ میں جب کہ عبدالملک بن مروان حکمراں تھا او ر حجاز مقد س میں حسب سابق عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی حکومت تھی ایک لشکر حجاج بن یوسف کی قیادت میں مکہ پر حملہ آور ہوا۔ عبدالملک نے کئی لوگوں کو مکہ پر حملہ کرنے اور حجاز پر قبضہ کرنے کو کہا تھا مگر سب نے حرم شریف کو جنگ و جدال کا مرکز بنانے سے انکار کردیا۔ حجاج بن یوسف جو کہ انتہائی ظالم و جابر فطرت کا انسان تھا اور جس کے دامن پر بہت سے صحابہ و اہل ا للہ کے خون کے چھینٹے ہیں اس حکم کو قبول کرلیا اور مکہ پر حملہ آور ہوگیا۔عین رمضان المبارک کے مہینے میں جب کہ دوسرے خطوں سے بھی یہاں مسلمان عبادت کے لئے آجاتے ہیں، حجاج نے محاصرہ کرلیا اور سنگ باری شروع کردی۔ پتھروں کی بارش اس قدر زبردست تھی کہ لوگوں کا اپنے سر بچانا مشکل ہوگیا اور وہ مکہ چھوڑ چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ یہاں لوگوں کے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہ رہا اور وہ دانے دانے کو ترسنے لگے۔سنگ باری کے دوران ایک بڑا پتھر خانہ کعبہ کی چھت پر آگراجس سے کعبہ کی چھت گر گئی۔اسی وقت زبردست آسمانی بجلی کڑکی جس سے لوگوں کے دل لرز اٹھے اور خوف کا ماحول بن گیا۔ اس زور دار آواز کے صدمے سے حجاج کی فوج کے کئی لوگوں کی موت بھی ہوگئی۔ تین دن تک مکہ اور آس پاس کے علاقوں میں اندھیرا چھایا رہا اور آسمان سیاہ ہوگیا۔ مگر حجاج نے اپنے لوگوں کو بھروسہ دلایا کہ بجلی اور بادل ایک فطری معاملہ ہے اس سے خوفزدہ ہونے کے ضرورت نہیں، اس نے خود اپنے ہاتھوں سے منجنیق میں پتھر رکھنا شروع کیا تب جاکر فوجیوں کی جان میں جان آئی اور آگے بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ احاطۂ خانہ کعبہ میں نماز پڑھتے تھے اور ان کے اردگرد پتھر آکر گرتے تھے۔ آخرکار وہ اور ان کے ساتھی اس لڑائی میں شہید ہوئے اور مکہ معظمہ پر حجاج بن یوسف کا قبضہ ہوگیا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عبداللہ بن زبیر کا سر کاٹ کر اسے کعبہ کے پرنالے میں لٹکادیا گیا اور لاش کو سولی پر لٹکادیا۔ اس نے حرم شریف میں داخل ہوکر دیکھا کہ ہر طرف پتھر بکھرے ہیں اور خون کے دھبے پھیلے ہوئے ہیں تو فرش کو دھلوایا اور کعبہ کی دوبارہ تعمیر کا حکم دیا۔ اس نے تمام اہل مکہ کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا قاتل سمجھ کر ان پر سختیاں کیں اور بہت سے صحابہ کو تکلیف پہنچائی یا قتل کرادیا۔شہادت کا واقعہ ۷۳ھ میں پیش آیا۔
جب قرامطہ نے حجر اسود کو توڑ ڈالا
تاریخ اسلام میں ایک ایسے فرقے کا ذکر ملتا ہے جو حضرت محمدبن الحنفیہ کو رسول مانتا تھا اور اس نے اذان میں’’ اشہد ان محمد بن الحنفیہ رسول اللہ‘‘کا اضافہ کردیا تھا۔ اس فرقے کے لوگ صبح اور شام کو دو وقت کی نماز پڑھتے تھے اور سال میں دو دن روزے رکھتے تھے۔ ان کے یہاں شراب جائز تھی اور کھجور کے جوس کو ناجائز قرار دیتے تھے۔ انھوں نے اپنا قبلہ کعبہ کے بجائے بیت المقدس کو قرارا دے رکھا تھا۔اس فرقہ کو قرامطہ کہا جاتا تھا اور ایک زمانے میں ان کا اثر اس قدر بڑھ گیا تھا کہ کعبہ پر حملہ آور ہوگئے اور حاجیوں کے ساتھ مارپیٹ کر کے ان کے سامان کو لوٹ لیا۔ انھوں نے کعبہ کے اندر حاجیوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں زمزم کے کنواں میں ڈال دیں، اور کعبہ کی عمارت کو توڑ ڈالا۔اس کے سردار طاہر نے حجر اسود کو گرز مارکر توڑ ڈالا اور اٹھاکر یمن لے گیا جہاں اس کی حکومت قائم ہوگئی تھی۔ وہ یہ بھی اعلان کرتا گیا کہ آئندہ حج مکہ میں نہیں یمن میں ہوا کرے گا۔ بیس سال تک حجر اسود کعبہ سے دور رہا۔یہ واقعہ ۳۱۸ھ کا ہے جب کہ بنو عباس کی خلافت کا زمانہ تھا اور مقتدربااللہ خلیفہ تھا۔اسی کے ساتھ مصر میں فاطمی سلطنت کا بھی آغاز ہوچکا تھا۔
جواب دیں