خاص طور پر پنڈت جواہر لال نہرو سے مولانا ابوالکلام آزاد تک اور ڈاکٹر ذاکر حسین سے اندرا گاندھی اور راجیوگاندھی تک سب نے نصاب تعلیم کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ قوم میں اتحاد کے بجائے نفاق کے بیج بونے اور نوآبادیاتی سماج کو تقویت پہونچانے کا کام انجا م دے رہا ہے لیکن عملی طور پر اس شعبہ میں اصلاح کی فکر نہیں کی گئی، نہ نصابی کتب سے ایسے مضامین کو حذف کرنے پر سنجیدگی سے توجہ ہوئی، جو نئی نسل کے ذہن ومزاج کو بگاڑنے کا موجب بن رہا ہے۔
این ڈی اے کی پچھلی مرکزی حکومت کے چھ سالہ دور میں تو منصوبہ بند طریقے سے اسکول اور کالجوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو ایک خاص فکر اور رنگ میں رنگنے کی کوشش ہوئی تاکہ اس کا سیاسی فائدہ برسراقتدار گروہ کو پہونچے اور نوخیز نسل میں اتحاد کے بجائے تفریق کی تخم ریزی ہو، وزارتِ فروغ انسانی وسائل نے تاریخ کی ایسی کتابیں تیار کرائیں جن میں ماضی کے تاریخی حقائق من گھڑت طریقے سے تبدیل کیا گیا، بالخصوص این سی ای آر ٹی نے جو کتابیں تیار کیں ان میں اسکول کی تعلیم کو مذہبیت سے آراستہ کرنے کی سعی ہوئی۔اور یہ بھی باور کرایا گیا کہ مسلم حکمرانوں کے عہد میں ہندوستان کی اکثریت کو جو ہندوؤں پر مشتمل تھی مختلف مظالم کا شکار بنایا گیا، ان کی عبادت گاہوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ پچھلے ۲۰ ۔۲۵ سال میں تعلیم کا دائرہ تیزی سے وسیع ہورہا ہے ، گاؤں گاؤں، قریہ قریہ، اسکول کھل چکے ہیں، نئی نسل جب ان درسگاہوں سے نفرت وتفریق کی تعلیم پاتی ہے تو اس کا ذہن بگڑنا فطری ہے اس کی مزاجی کیفیت میں انتشار وتعصب در آئے گا، آج معاشرہ میں جس تفریق وبد نظمی کا مظاہرہ ہورہا ہے ، اس کی بڑی وجہ کچھ اور نہیں ملک کا یہی نصاب تعلیم ہے، جو جہالت، توہمات تنگ نظری، تعصب ونفرت کا خاتمہ کرنے کے بجائے ان برائیوں کو فروغ دے رہا ہے، خاص طور پر تاریخی حقائق مسخ کرکے پیش کرنا اور مسلم حکمرانوں نیز ہندوؤں میں لڑی جانے والی جنگوں کو ایک خاص نقطہ نظر سے پیش کرنا تیزی سے ذہنوں کو بگاڑ رہا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ماضی کے ہندوستان میں ہونے والی جنگیں دو فرقوں یا قوموں کے درمیان نہیں، دوبادشاہوں یا دوحکمرانوں کے مابین لڑی گئیں، جن میں سے کوئی ایک ہندو تو دوسرا مسلمان ہوا کرتا تھا اور اکثر مسلمان بادشاہ کی فوج میں ہندو سپاہیوں کی بڑی تعداد اور ہندو راجاؤں کے ساتھ مسلمانوں کی شرکت کا تاریخ سے ثبوت ملتا ہے، مثال کے طور پر محمود غزنوی کی فوج میں ہندوؤں کی پلٹن اور اکبر کے عہد میں ہندوؤں کا عمل دخل وہ تاریخی حقائق ہیں جن سے انکار ممکن نہیں۔
اسی طرح سلطان ناصرالدین محمود، محمد بن تعلق اور اورنگ زیب کو جو مورخ متعصب قرار دیتے ہیں، وہ یہ کیوں نظر انداز کردیتے ہیں کہ ان سب نے ہندوؤں کی عبادت گاہوں کو بڑی بڑی جاگیریں عطا کیں، ان میں سب سے زیادہ بدنام کی جانے والی ہستی اورنگ زیب کے دربار میں راجپوت اور ہندو منصب داروں کی تعداد دوسروں سے کہیں زیادہ تھی، اورنگ زیب نے جہاں اسلامی فقہ کی تدوین کرائی وہیں ہندو دھرم کی بھی متعدد کتابیں سنسکرت کے ہندو پنڈتوں سے مرتب کرائیں اور سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ دھرم کے معاملہ میں جو رعایتیں ہندوؤں کو حاصل تھیں وہ مسلمانوں کو نہ تھیں مسلمانوں کے بارے فیصلے عام عدالتوں میں اور ہندوؤں کا فیصلہ ان کی مخصوص عدالتوں میں پنڈتوں کے ذریعہ ہوا کرتے تھے۔مسلم حکمرانوں کی اس رواداری بلکہ ایک تاریخی حقیقت کو نصاب تعلیم کے ذریعہ نئی نسل کے سامنے آنا چاہئے تاکہ تنگ مورخوں کے پروپیگنڈہ کی کاٹ ہوسکے۔
جواب دیں