اسی کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ حکومت ہند مقررہ مدت کے اندر زمینی سطح پر صلح اورمشورے کا عمل شروع کررہی ہے جس کے تحت پونے تین لاکھ افرادوادروں سے راست رابطہ کیا جائیگا۔ لوگ براہ راست بھی اپنے مشورے وزارت کو آن لائن بھیج سکتے ہیں۔چنانچہ مشاورت کا یہ سلسلہ ان دنوں شباب پر ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے اس میں دلچسپی صرف آرایس ایس اوراس سے متعلق تنظیمیں ہی لے رہی ہے ۔دیگرافرادوادارے خصوصاً مسلم اقلیت کے نمائندوں نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس کا کیا نتیجہ برامد ہوگا؟
تعلیمی پالیسی کے تعلق سے ایک بات وزیراعظم نے بھی بار بار کہی ہے اوراسی ہفتہ 16جولائی کو دہلی میں ’اسکل انڈیا مشن‘ عنوان سے ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تعلیم کے ساتھ روزگار کیلئے کارگر تربیت پر زوردیا ہے۔ ہرچند کہ تعلیم کے شانہ بشانہ ہنرمندی کا تصورنیا نہیں، مگر مودی حکومت اس کو زوروشور سے نافذ کرنے کا ارادہ ظاہر کررہی ہے۔یہ اسکیم خصوصاً طلباء اورطالبات کی اس عظیم اکثریت کے لئے نہایت مفیدہے جوکسی بھی وجہ سے تعلیم میں زیادہ آگے نہیں جاسکتے۔ ان کو کسی باعزت اورمعقول روزگار کے اہل بنانے کا مطلب ہے ان کے خاندان کیلئے خوشحالی کا در کھولنا۔ اسکل ڈولپمنٹ کے اس منصوبہ پر مرکزی سرکارعرصہ سے مصروف ہے۔ ہرچند کہ ہنرمندی کا یہ نظریہ مسلم برادریوں لئے زیادہ ساز گار ہے ، مگراس میں کوئی دلچسپی ہماری طرف سے نظرنہیںآئی۔ آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ نے شمالی ہند میں اس طرح کے ادارے قائم کرنے کیلئے تعاون کی پیش کش کی تھی جس کو کئی ماہ گزرگئے ہیں، مگرابھی تک کسی طرف سے کوئی پیش قدمی نظر نہیں آئی حالانکہ اس کے بڑے اچھے ثمرات سامنے نظروں کے سامنے موجود ہیں۔ مثلا جودھپور میں مارواڑ مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی اسی نظریہ کے تحت گزشتہ کئی دہائیوں سے صاف ستھرے اسلامی ماحول میں تعلیمی وتربیتی خدمات انجام دے رہی ہے ۔ اس کے تربیت یافتہ سینکڑوں طلباء باعزت روزگار سے لگے ہوئے ہیں اوراندرو ن ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی ان کی خوب پذیرائی ہورہی ہے۔
ہندستانی شہری ہونے کے ناطے ہماراسروکار ان تمام اسکیموں سے ہونا چاہئے اوراس سے زیادہ ہونا چاہئے جتنا دیگر شہریوں کو ہے ۔ کیونکہ ہم یہ با ت جانتے اورکہتے رہے ہیں کہ ہندستان کی مسلم اقلیت تعلیم میں پھسڈی ہے ۔ہنرمندی میں بیشک دوسروں سے آگے ہے، مگر یہ ہنرمندی خانہ ساز ہے ،جب کہ دنیا میں قیمت سندیافتہ ہنرمندی کی ہے جو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔مثال کے طور پرہمارے کاریگرفرنیچرسازی میں بڑے مشاق ہیں۔ مگراب فرنیچر کے ڈیزائن سے لیکراس کی تیاری تک کمپیوٹر سے چلنے والی مشینیں کام میں لائی جاتی ہیں۔ اسی طرح پارچہ بافی اورڈیزائن سازی بھی کمپیوٹرکی مدد سے ہونے لگی ہے۔ وغیرہ ۔مارکیٹ میں بہتر حصہ پانے کے لئے ضروری ہے ہمارے کاریگر ان تمام شعبوں سے واقف ہوں۔لیکن بدقسمتی سے ’ملت کیلئے ’فکر مند‘ہماری تنظیموں کو ،ان چیزوں میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی۔ہم صرف بیان جاری کرتے ہیں جب کہ آرایس ایس سے وابستہ تنظیمیں کام کررہی ہیں اورحکومت پر اثرانداز ہونے کیلئے ان سب میں گہری دلچسپی لے رہی ہے۔ انہی کے آدمی مختلف اداروں میں اہم منصبوں پر بٹھائے جارہے ہیں۔
زیر غورتعلیمی پالیسی سے متعلق تازہ خبر یہ ہے کہ شعبہ تعلیم سے وابستہ وہ لوگ جوآرایس ایس کے نظریہ کے حامل ہیں، مسلسل گروپوں میں مرکزی وزیر ایچ آرڈی اسمرتی ایرانی سے مل رہے ہیں اوران پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ تعلیمی پالیسی میں وہ چیزیں شامل کرلی جائیں جن سے آرایس ایس کی ثقافتی اجارہ داری کی منشاء پوری ہوجائے۔ مثلاً ایک دباؤ یہ ہے کہ تاریخ کی کتابوں کو بدلا جائے۔سماجیات کے نصاب میں تبدیلی لائی جائے اورخصوصاً اسکولوں میں ان عقائد کی تعلیم دی جائے اور ان مراسم کو رواج دیا جائے جن کا تعلق خالصتاً برہمنی کلچرسے ہے۔ اسی ہفتہ 17جولائی (بروزعید) وزیر موصوف نے اپنی رہائش گاہ پر آرایس ایس سے وابستہ ایک درجن سے زیادہ تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ کئی گھنٹہ تک قومی تعلیمی پالیسی کے مختلف پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا ۔ ظاہر ہے بیچاری وزیر صاحبہ سنگھی تنظیموں کی تجاویز کو کوڑے دان میں نہیں ڈال دیں گی۔ خصوصاً اس صورت میں جب ان کے سامنے کسی دوسرے نظریہ کی کوئی نمائندگی نہ ہو۔اسی کے ساتھ یہ خبر بھی آئی ہے کہ پالیسی کا اعلان نومبرتک کیا جاسکتا ہے۔
ایک ماہ قبل 17جون کواس موقرروزنامہ میں ’’مسلمانوں کی تعلیم اورمودی کے خوش کن ارادے ‘‘ عنوان سے اپنے کالم میں بھی ہم نے اس پہلو پر توجہ دلائی تھی کہ قومی تعلیمی پالیسی کے تشکیل کے عمل میں تعلیم سے وابستہ مسلم این جی اوز اور شخصیات کو صاف ذہن دیگرشخصیات کے ساتھ مل کر مداخلت کرنی چاہئے اورحکومت کے سامنے دوپہلوؤں سے اپنا مدعارکھنا چاہئے۔ اول تو پوری قومی پالیسی کے بارے میں عمومی نکات پر توجہ دلائی جائے ۔جو بھی قومی پالیسی بنے گی وہ سب کے لئے ہوگی ۔ اس لئے ہمارا بھی اس سے برابر کا سروکار ہے۔ ہمیں پہلے حصہ میں بات قومی سطح کی کرنی ہوگی۔ البتہ اس میں ضمناً وہ نکات بھی شامل کئے جائیں جو خصوصاً تعلیمی طور سے پسماندہ مسلم اقلیت میں فروغ تعلیم کیلئے خاص سمجھے جائیں۔مشورے اس نوعیت کے دئے جائیں جو طلباء کی عمومی بہبود کے ہوں، جن کا تعلق ہمارے دماغ سے زیادہ ہو اور ان نعروں سے گریز کیا جائے جو ذہنی تنگی کے غماز ہیں۔ محاذ آرائی کے مقابلہ ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے جس کے تائید دیگر اقلیتی نمائندے اورقوم کے لئے فکرمند برادران قوم بھی کرسکیں۔ اس سلسلہ میں ہم نے ای میل سے ذاتی خطوط کے زریعہ بھی متوجہ کرایا ہے۔ لیکن ہمارے علم کی حدتک ابھی تک اس سمت کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ تعلیمی پالیسی میں مداخلت ہرکس وناکس کا کام نہیں ہے۔ وہی افراد یا انجمنیں اس کیلئے موزوں ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں اس کام میں کھپادی ہیں۔
پرسنل بورڑ کی خدمت میں
ہم خاص طور سے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ارباب حل وعقد کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں عقیدہ توحید کے تعلق سے جس تشویش کا اظہار کیا گیاہے اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ فوری طورسے اس مسئلہ پر غور کریں۔ ماہرین تعلیم کو اس کام کے لئے مصروف کرنا ہوگاجو کوٹھاری کمیشن کی سفارشات پر مبنی 1986کی تعلیمی پالیسی اوراس میں 1992کی اصلاحات پر وسیع ترپس منظرمیں غور و خوض کرکے نشاندہی فرمائیں کہ دورحاضرکے تقاضوں کے پیش نظر کیا اصلاحات کی جاسکتی ہیں۔ ہمارا اندازہ ہے کہ یہ کام عجلت میں نہیں ہوسکے گا ۔اس لئے ایچ آرڈی منسٹر کو پہلے ہی مطلع کردیا جانا چاہئے اوران کے یہ گزارش کرنی چاہئے کہ پالیسی کو حتمی شکل دینے سے پہلے ہماری تجاویزکو بھی زیرغورلایا جائے اوراگران میں کچھ تاخیرہو تو عجلت پسندی سے کام نہیں لیا جائے۔ ہمیں بورڈ سے نہایت ادب سے یہ بھی عرض کرنا ہے کہ سڑکوں پراترکر سیاست کرنا اس کے وقار کے منافی ہے۔ اس کو اپنے وسائل سنجیدہ اورفکری کاموں میں لگانے درکارہیں۔ بورڈ کو اس کام میں دیگراہم ملی تنظیموں کو بھی شریک کرلیا جائے تو مناسب ہوگا۔ دیگر ملی تنظیموں کو بھی اس پر ترجیح کے ساتھ توجہ دینی چاہئے۔ پالیسی کے اعلان کے بعد یقیناًہمیں اس میں بہت ساری خامیاں نظرآئیں گیں اورہر کس وناکس اس پربیان شروع کردیگا۔ مگرمارپیچھے پکار سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
عید مبارک
الحمدللہ اس سال عید ملک بھرمیں سکون اوراطمینان کے ساتھ گزرگئی اورکہیں سے کسی ناخوشگوار واقعہ کی خبرنہیں آئی۔ اندیشوں کے برخلاف کچھ اچھی خبریں ضرورآئیں۔ مثلا اٹالی میں جہاں حال ہی میں فساد ہواتھا اورفسادی ذہن رکھنے والوں نے سکون سے تراویح بھی نہیں پڑھنے دی، عید کی نماز حسب سابق ادا کی گئی اورخوش اخلاق ہندوبھائیوں نے بھی عیدگاہ جاکر خیرسگالی کے جذبہ کا اظہار کیا۔ لکھنؤ سے خبرآئی کہ عیش باغ عیدگاہ میں نمازیوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ جگہ تنگ پڑگئی۔ اس موقع پر عیدگاہ سے متصل شیومندر کے منتظمیں نے مندر کے وسیع احاطہ کا دروازہ کھول دیا اورجگہ کو صاف کرکے بخوشی اپنے احاطہ میں نماز پڑھنے کی فراخدلی دکھائی اورخیرسگالی کا مظاہرہ کیا۔ سیاست ہی سہی مگررمضان میں دہلی میں آرایس ایس کے صدردفترواقع جھنڈے والان میں روزہ افطار کا بھی اہتمام کیا گیا اورمرکزی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے عید ملن کی ایک تقریب میں شرکت کی۔
ایک نہایت خوشگوار منظرجامعہ ملیہ اسلامیہ کی مسجدمیں نظرآیا، جہاں شیعہ بھائیوں نے سنی امام کے پیچھے دیگرنمازیوں سے ساتھ صفوں میں شریک ہوکر نماز عید اداکی۔لیکن اس کے برخلاف ایک افسوسناک خبربریلی کے ایک گاؤں سے آئی جہاں ایک مسجد پر قبضہ کی کوشس میں حنفی مسلک کے ہی دوگروہوں میں تصادم ہوگیا۔ حتٰی کہ پولیس کو مداخلت کرنی پڑی ۔ مسلکی فساد کانتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے گھر پر تالا پڑگیا۔اوراللہ پرایمان اوراس کے رسول ؐ سے محبت کے دعویدار اس فساد پر خوش ہوگئے کہ ہم نے بڑی کامیابی حاصل کرلی۔ اللہ عقل کے ان دشمنوں کو راہ مستقیم دکھائے جنہوں نے اپنے مسلک کو اصل دین سمجھ لیا اوربھائیوں کوبھائیوں سے لڑادیا۔ یہ کام ایک خاص ذہنیت کے وہ کوتاہ علم ملا، مولوی اورمشائخ انجام دے رہے ہیں جن کو مسلکی تنگ نظری نے اپنا غلام بنا لیا ہے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرما۔
جواب دیں