انھوں نے یوپی کے وزیرشہری ترقیات اعظم خان کی آواز میں آواز ملایا ہے۔انھوں نے کہا تھا کہ تاج محل کا انتظام و انصرام سنٹرل سنی وقف کونسل کے ہاتھ میں ہونا چاہئے اور اس کی آمدنی بھی اسے ہی ملنی چاہئے تاکہ اسے مسلمانوں کی تعلیم وترقی پر خرچ کیا جاسکے۔ ان کی دلیل ہے کہ ملک کے تمام مسلم مقبرے اور قبرستان وقف بورڈ کے اندر آتے ہیں،مسجدیں بھی اسی کے ماتحت آتی ہیں اور ان کی دیکھ ریکھ وقف بورڈ کے ذمے ہے لہٰذا تاج محل کو بھی اسی کے ماتحت ہونا چاہئے۔ اعظم خان کی تائیدمیں مسلمانوں کا ایک طبقہ آگیا ہے اور وہ بھی ان کی آواز میں آواز ملاکر مطالبہ کرنے لگا ہے کہ تاج محل کو مرکزی وقف کونسل کے حوالے کیا جائے ۔ خاص طور پر لکھنو کے مولانا خالد رشید فرنگی محلی بھی اس مطالبے کی تائید میں ہیں اور وہ بھی یہی بات دہرارہے ہیں کہ تاج محل کو وقف کے حوالے کیا جائے،ویسے بھی وقف بورڈ سرکاری ادارہ ہے اور اسی کے ماتحت چلتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا ہے کہ تاج محل کے احاطے میں واقع مسجد کو عام نمازیوں کے لئے کھولا جائے اور انھیں یہاں نماز ادائیگی کی کھلی چھوٹ دی جائے۔ حالانکہ مرکزی وزیر مملکت برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے اس مطالبے کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ اوقاف کی جائیدادیں پہلے ہی سے تباہ حال ہیں ،اب ایسے میں وقف بورڈ کے حوالے تاج محل کو کرنے کا کیا مطلب ہے؟ کیا ایسا کرنے سے اس کی بربادی نہیں ہوجائیگی؟ اور مختار عباس نقوی کے اٹھائے سوالات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا؟ شاید وقف بورڈ ملک کا سب سے تباہ حال ادار ہ ہے جسے غیروں سے زیادہ اپنوں نے لوٹا ہے اور اس کے احیاء نو کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔اعظم خاں نے جو غیر ضروری بحث چھیڑی تھی اسے ایک قدم اور آگے بڑھادیا لکشمی کانت واجپائی نے،اسے شیومندر قرار دے کر۔ اس پر کسی کو حیرت بھی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ سنگھ پریوار کی لسٹ میں لال قلعہ،جامع مسجد، مسجد قوت الاسلام، قطب مینار، خواجہ معین الدین اجمیری کی درگاہ سمیت ہزاروں مساجد اور اسلامی آثار مندر ہیں۔ جس طرح سنگھ پریوار کا علم جغرافیہ انوکھا ہے اسی طرح اس کا علم تاریخ بھی نرالا ہے اور ان دنوں ملک کی تاریخ کو اسی انداز میں لکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں سنگھی تاریخ داں۔ لکشمی کانت واجپائی کی بکواس کی
گونج پارلیمنٹ کے اندر تک سنائی دی مگر اس بحث کو چھیڑنے کی ذمہ داری اعظم خاں کے اوپر جاتی ہے۔ تاج محل محکمہ آثار قدیمہ کے تحت ہے اور اگر اس کی دیکھ ریکھ وقف بورڈ کو مل جائے تو بھی مسلمانوں کو کچھ فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔
تاج محل عالمی ورثہ
تاج محل دنیا کی سب سے خوبصورت عمارت ہے۔ اس سے بہتر کسی عمارت کی تعمیر کا ہم آج کے سائنسی دور میں بھی تصور نہیں کرسکتے۔ اس کے چاہنے والوں میں دنیا بھر کی شخصیتیں ہیں۔ اگر اس کی تعمیر نو ممکن ہوتی تو دنیا کے کئی ملکوں میں تاج محل بن چکا ہوتا اور اگر اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا ممکن ہوتا تو آج یہ بھارت کے آگرہ میں نہیں بلکہ لندن میں کھڑا ہوتا۔ جس طرح سے کوہ نور ہیرا انگریز لے گئے اسی طرح اسے بھی اٹھا لے جاتے۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کا کہنا ہے کہ دنیا کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ طبقہ جس نے تاج محل دیکھا ہے اور دوسرا وہ طبقہ جس نے تاج محل نہیں دیکھا۔ کلنٹن نے تاج کے سامنے بیٹھ کر اپنی بیوی ہلیری کے ساتھ یادگار تصویریں اتاری تھیں۔ دنیا بھر کے سیاح یہاں آکر ایسا ہی کرتے ہیں۔اس دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنھیں یقین ہوجائے کہ ایسی عمارت ان کی قبر پر بن سکتی ہے تو وہ ابھی مرنے کو تیار ہوجائیں۔ اصل بات یہ ہے کہ تاج کی مقبولیت ساری دنیا میں ہے اور اس کی محبوبیت کا یہ عالم ہے کہ سالانہ ۸ لاکھ سیاح تو صرف بیرون ملک سے اسے دیکھنے آتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ عالمی ورثہ ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری ساری دنیا کے کندھوں پر ہے ۔ یہ بھارت کی سرزمین پر واقع ہے لہٰذا یہاں کا ہر شہری اس کے وجود پر فخر کرسکتا ہے مگر اس لحاظ سے ہماری ذمہ داریاں اس کے تئیں بڑھ جاتی ہیں۔ فی الحال یہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ماتحت آتا ہے جو تمام تاریخی عمارتوں اور آثار کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ یہ ادارہ پورے ملک میں تاریخی عمارتوں پر نظر رکھتا ہے اور کئی مقامات پر تو یہ زمین کی کھدائی کر کے بھی تاریخی آثار کو نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس کے ماتحت آنے والی بہت سی عمارتیں تباہ بھی ہوگئی ہیں۔ راجدھانی دلی میں تو ایسی عمارتیں بے شمار ہیں جو اس کی ان دیکھی کا شکار ہیں۔ ایسے میں اگر وہ تاج محل کی دیکھ ریکھ بہتر ڈھنگ سے کر رہا ہے تو یہ بڑی بات ہے۔ البتہ تاج محل کے حفاظتی انتظامات اور اس کی دیکھ ریکھ پر مزید توجہ کی ضرورت ہے۔
وقف بورڈ تاج کا ٹنڈر نکال دیگا
بھارت میں وقف بورڈ موجود ہے جس کے ذمہ وقف املاک کی دیکھ ریکھ ہے۔ تمام مساجد اور مقابر اسی کے ذمہ ہیں اور اس لحاظ سے یہ امیرترین ادارہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کے پاس زمین بے تحاشہ ہے۔ لیکن سب کچھ ہونے کے باوجود یہ ملک کا سب سے نکما ادارہ ہے اور سب سے بڑا کرپٹ بھی۔ اس کے اندر موجود املاک کا اگر دیانتداری سے استعمال کیا جاتا تو ملک کا کوئی مسلمان غریب نہیں رہتا۔ یہاں بدعنوانی کا یہ عالم ہے کہ کروڑوں کی زمین کوڑیوں کے مول فروخت کردی جاتی ہے اور یہ سب کام وقف بورڈ کے ذمہ داروں کی ملی بھگت سے ہوتا ہے۔ کئی مقامات پر تو مسجدوں کو بھی وقف بورڈ کے ذمہ داروں نے فروخت کردیا ہے اور کسی نے اس کی خبر تک نہ لی۔ دلی میں حکومت کی ناک کے نیچے آئے دن وقف کی زمینوں پر دلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی(ڈی ڈی اے) کا قبضہ ہوتا جارہا ہے اور اس پر روک ٹوک کی کوشش نہ حکومت کرتی ہے اور نہ مسلمانوں کی طرف سے ہی اسے روکنے کے لئے کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے۔ جب راجدھانی دلی میں وقف
املاک کی لوٹ پاٹ کا یہ حال ہے تو باقی ملک میں کیا حال ہوگا؟ ظاہر ہے کہ وقف بورڈ میں لوٹ پاٹ کرنے والے عموماً مسلمان ہی ہوتے ہیں اور سیاسی اثر ورسوخ کے ذریعے یہاں تک پہنچتے ہیں۔ یہاں تک ان کے آنے کا مقصد ہی ہوتا ہے مسلمانوں کی اوقاف کی لوٹ پاٹ کرنا۔ اس تعلق سے کئی بار آوازیں اٹھی ہیں اور انکوائری کرائی گئی مگر جانچ کرنے والے بھی حکومت کے ہی لوگ ہوتے ہیں جو چند معمولی لوگوں کو ذمہ دار ٹھہراکر باقی لوگوں کو بچا لیتے ہیں۔ مغربی بنگال میں اوقاف گھوٹالے کی انکوائری ہوئی تھی مگر اس کے لئے صرف حمیم الہدیٰ نامی ایک شخص کو پکڑا گیا جب کہ اس کیس میں بایاں محاذ سرکار کے کئی منتریوں کے ملوث ہونے کی خبر تھی۔ یوپی، بہار، سے لے کر جنوبی ہند تک وقف املاک میں خرد برد کا سلسلہ جاری ہے، اب ایسے میں تاج محل کو اگر وقف بورڈ کے حوالے کیا گیا تو کیا یہ ممکن نہیں کہ کل اس کا بھی ٹنڈر نکل جائے اور دیگر املاک کی طرح اسے بھی کوڑیوں کے مول نیلام کردیا جائے۔ مختار عباس نقوی کے مطابق اگر آج تاج محل کو وقف کے حوالے کرنے کو کہا جارہا ہے تو کل جامع مسجد کو مانگا جائے گا اور پرسوں لال قلعہ کو بورڈ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔اعظم خاں کے بیان کے ردعمل میں کئی لوگوں کے بیانات آرہے ہیں اور ٹوئٹرو فیس بک پر لوگ اپنے اپنے انداز میں اس پر اظہار خیال کر رہے ہیں۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ابھی ضرورت اس بات کی ہے کہ وقف کی تمام جائیدادوں کی تفصیلات کو ڈیجیٹلائز کیا جائے اور انٹرنیٹ پر ڈالا جائے تاکہ کوئی ہیر پھیر نہ کرے مگر کرنے کے ان کاموں کو چھوڑ کر اب تاج محل پر سیاست ہو رہی ہے۔لکشمی کانت واجپائی کے بیان کو بھی اعظم خان کے بیان کے پس منظر میں دیکھنا چاہئے۔
تاج محل پرسیاست نہ ہو
کونسی عمارت کس ادارے کے ماتحت ہو ،یہ ایک تکنیکی سوال ہوسکتا ہے مگر اس قسم کے سوالات اٹھانے سے پہلے یہ سوچنا ضروری ہے کہ اس کا حشر کیا ہوگا؟ اتر پردیش میں ہزاروں عمارتیں مسلم اوقاف کے ماتحت آتی ہیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اعظم خاں اگر لکھنو اور رام پور کی ایسی عمارتوں کی ہی صحیح طور پر دیکھ بھال کر لیتے تو بڑی بات ہوتی اور ان کی باتوں پر توجہ بھی دی جاتی مگر یوپی کے وزیر اقلیتی امور کے طور پر انھوں نے اب تک اوقاف کا کوئی بڑا کام نہیں کیا ہے اور باوجود اس کے وہ تاج محل مانگ رہے ہیں جسے لوگ سیاست کے سواکچھ نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ بات انھوں نے بغیر سوچے سمجھے کہہ دی ہے ۔ اس سے مسلمان خوش ہوسکتے ہیں مگر ان کی ایک بات بہت سے سوالات کھڑے کرسکتی ہے۔
تاج کے دیدار کے لئے نئے ضابطے بنائے جائیں
تاج محل کی دیکھ ریکھ کا درست انتظام لازمی ہے۔ ہم اس پر پہلے بھی لکھتے رہے ہیں اور اب بھی یہی کہنا چاہتے ہیں کہ اس معاملے پر سیاست کرنے کے بجائے اس عالمی وراثت کو محفوظ کرنے کے پہلووں پر غور کرنا چاہئے۔ یہاں آنے جانے والوں کی کثرت سے تاج کو نقصان پہنچ رہا ہے لہٰذا سیاحوں کی تعداد محدود کرنی چاہئے۔ اس کے ٹکٹ کی فروخت انٹرنیٹ سے بھی ہونی چاہئے جیسا کہ تمام عالمی اہمیت کی حامل عمارتوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسپین کے محل الحمراء اور مسجد قرطبہ کو دیکھنے کے لئے آسانی سے ٹکٹ نہیں ملتا کیونکہ اندر جانے والوں کی تعداد محدود ہوتی ہے لہٰذا مہنیوں قبل بکنگ کرانی پڑتی ہے ۔ اس کے لئے اچھی خاصی رقم خرچ ہوتی ہے اور یہاں آنے والے تھوڑی دیر ہی
ٹھہر سکتے ہیں۔ تاج محل کی اہمیت اس سے کم نہیں ہے مگر یہاں ایک وقت میں بہت زیادہ تعداد میں سیاح جمع ہوجاتے ہیں اور ان میں نادان و غیر مہذب قسم کے لوگوں کی کمی نہیں ہوتی جو عمارت پر لکھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ عمارت کے چبوترے پر جوتے چپل کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں ہے مگر کئی سیاح جوتے چپل پہن کر چلے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سیاحوں کو کچھ طور طریقے سکھانے کے بعد ہی اندر جانے دینا چاہئے اور اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرے تو اس پر جرمانہ کیا جانا چاہئے۔ ہماری بے احتیاطیوں سے تاج کو نقصان پہنچتا ہے۔ پورے آگرہ شہر کی سجاوٹ اور سیاحت کے نقطۂ نظر سے فروغ کے لئے پروگرام بننا چاہئے کیونکہ تاج کی نگری کو دیکھ کر بہت مایوسی ہوتی ہے۔اصل میں ہمارے کرنے کا کام یہی تھا نہ وہ جو لکشمی کانت واجپائی یا اعظم خان کر رہے ہیں۔ اس عالمی ورثے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے ،اس پر سیاست نہ کیا جائے۔اعظم خان ایک اقلیتی کردار کی حامل یونیورسٹی قائم کرکے بڑا تعمیری کام کر رہے ہیں جس کے سبب انھیں تاریخ میں یاد کیا جائے گا اور سرسید کی صف میں رکھا جائے گا اگر وہ خود کو اچھے کاموں تک محدود رکھیں۔
جواب دیں