عادل فراز
بالآخر با بری مسجد اور رام مندر قضیے کا عدالتی حل سامنے ا?ہی گیا۔اس فیصلے کا تمام سیاسی جماعتوں،مذہبی رہنماؤں اور سماجی شخصیتوں نے احترام کرتے ہوئے کوئی قابل اعتراض ردعمل پیش نہیں کیا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام لازم تھا کیونکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے سالوں پرانے تنازع کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔اس سے قطع نظر کہ اس فیصلے میں ہندوؤں کی آستھا کو ترجیح دی گئی ہے اور دیوتا (یعنی بھگوان رام) کو ایک مدعی کی حیثیت سے زمین کا مالک قراردیا گیا،سپریم کورٹ نے دوراندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے ایسا فیصلہ دیا جس سے ملک میں امن و سکون برقراررہے۔ظاہرہے کہ اگر ایسا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوتا تو زعفرانی جماعتیں ملک میں بدامنی پیداکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔عدالت کے لئے امن و امان اور لاء اینڈ آڈر کو برقرار رکھنا ایک بڑامسئلہ تھا مگر جب چور کو ہی چوکیداربنادیاجائے تو چور ی کا کیا خطرہ۔بی جے پی کو آرایس ایس اور تمام شدت پسند ہندوجماعتوں کی بھرپور تائید اور حمایت حاصل ہے اس لئے ملک میں کسی طرح کی بدامنی کی صورتحال سے صرف اور صرف بی جے پی کو نقصان ہوتا،اس لئے تمام شدت پسند جماعتیں امن و امان کی اپیل کرتی ہوئی نظر آئیں،یہ قابل غور ہے۔اگر یہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوا ہوتا تو کیا آرایس ایس سمیت تمام شدت پسند تنظیموں کا ردعمل یہی ہوتا کہ جو دیکھنے میں آیا۔ہرگزنہیں۔آج ملک فرقہ وارانہ فساد کی آگ میں سلگ رہا ہوتا اور حکومت کی سرپرستی میں مسلمانوں کوقتل عام کیا جارہا ہوتا۔
ہم بابری مسجد اور رام مندر قضیے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا بیحد احترام کرتے ہیں۔مگر ہم ایک جمہوری ملک میں زندگی گذاررہے ہیں لہذا سوال کرنا اور احتجاج کرنا ہمارا بنیادی حق ہے۔ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نہیں ہیں لیکن کیا اس فیصلے کے آگے پوری طرح تسلیم ہونا ہی ملک دوست اور راشٹروادی ہونے کا ثبوت ہے؟۔ نہیں ہرگز نہیں! اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر قانون داں افراد نے اعتراضات کئے ہیں اور آگے بھی ہوتے رہیں گے کیونکہ عدالتیں ہمیشہ ریاست کے زیر اثر ہوتی ہیں۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بھی چیخ چیخ کرکہہ رہاہے کہ یہ فیصلہ فقط آستھا کی بنیاد پر اور حکومت کے دباؤمیں دیا گیا ہے۔بہرحال!جمہوری ملک میں آزاد شہری کی حیثیت سے اس فیصلے پر ہمارے چند تحفظات ہیں جنہیں نقل کرنا ضرور ی ہے۔
اول تو یہ کہ جب عدالت عظمیٰ نے یہ تسلیم کرلیا کہ بابری مسجد کو منہدم کرنا آئین کے خلاف تھا تو پھر اس کے مجرمین کے خلاف فیصلے میں کوئی اہم اقدام کیوں نہیں کیا گیا؟۔عدالت عظمیٰ نے یہ بھی تسلیم کیاکہ۴۹۹۱ء میں مسجد کے درمیانی گنبد کے نیچے مورتیاں رکھنا غلط اور اس کی حرمت کی پامالی تھی۔مگر افسوس آج تک مسجد کی حرمت پامال کرنے والے مجرم جنہیں سیاسی سرپرستی حاصل ہے،آزاد گھوم رہے ہیں یا پھر اس فیصلے سے پہلے ان کی موت ہوچکی ہے۔
دوسری اہم بات جو عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہی اور جس کی بنیاد پر ہندوؤں کو مندر بنانے کی اجازت دی گئی وہ یہ کہ عدالت متنازع زمین پر ’رام للا‘ کا حق تسلیم کرتی ہے یہ رام للا نہ تو کوئی ادارہ ہے اور نہ ٹرسٹ،بلکہ بذات خود بھگوان رام کو اس زمین کا مالک مانا گیاہے۔ یعنی عدالت نے ’رام للا“ کو ایک قانونی مدعی کی حیثیت دی ہے۔سوال یہ قائم ہوتاہے کہ پھر عدالت عظمیٰ نے یہ دعویٰ کیوں کیا کہ اس کا فیصلہ ا?ستھا کی بنیاد پر نہیں بلکہ سائنٹفک بنیادوں پر ہے؟۔ آیا عدالت عظمیٰ کے نزید ک سائنٹفک بنیادوں پر ’رام للا“ کا جنم یا ان کا انسانی وجود ثابت ہے؟۔ اور اگر عدالت عظمیٰ نے انہیں بھگوان مان کرمتنازع اراضی کا مالک قرار دیاہے تو عدالت عظمیٰ نے کن سائنٹفک بنیادوں پر ’بھگوان رام‘ کے وجود کو تسلیم کیاہے ان حقائق کا عوامی کرنا بھی لازمی ہے تاکہ ایک بڑا مسئلہ جو بھگوان رام کے وجود سے متعلق ہے وہ بھی حل ہوجائے۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ آیا مسلمان ’بھگوان‘ یا ’خدا‘ کو نہیں مانتے؟۔اگر ’بھگوان رام‘ کا دیوتا کی حیثیت سے زمین پر مالکانہ حق ہے تو پھر ’اللہ‘ کا مسجد کی زمین پر مالکانہ حق نہیں بنتا؟۔ جبکہ بھگوان اور اللہ دوالگ الگ ذات کے نام نہیں ہیں۔اگر انسانوں کا خالق ایک ہے تو پھر مندر اور مسجد دونوں میں اسی کی پرستش اور پوجا ہوتی ہے لہذا زمین پر دونوں کا برابری کا مالکانہ حق ہونا چاہئے تھا؟۔اس مسئلے پر بھی عدالت عظمیٰ نے خاموشی اختیار کی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں اے ایس آئی کے دعووں کو اہمیت کا حامل پایاہے۔انہی کے دعووں کی بنیاد پر رام مندر کے حق میں فیصلہ سنایاگیا۔جبکہ اے ایس آئی کا کہناہے کہ مسجد کے نیچے کھدائی میں انہیں مندر کے شواہد ملے ہیں جبکہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملاہے جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ مندر منہدم کرکے مسجد تعمیر کی گئی تھی۔اس کے باوجود عدالت نے اے ایس آئی کے دعوے کو حقیقت پر مبنی مانتے ہوئے مندر کے حق میں فیصلہ دیدیا۔اب اسکے بعد جہاں بھی کسی زمین کے نیچے مندر کے شواہد اور باقیات ملتے ہیں اس فیصلے کے مطابق اس زمین پر بھگوان رام یا کسی دوسرے دیوتا کا مالکانہ حق ہوگا۔عدالت عظمیٰ نے کہاہے کہ اے ایس آئی کی رپورٹ سائنٹفک بنیادوں پر مبنی ہے لہذا اسے مسترد نہیں کیا جاسکتا۔جبکہ اے ایس آئی جیسی دیگر سائنٹفک تنظیمیں ’بھگوان رام‘ کے جنم کو ثابت نہیں کرسکی ہیں اور جو نقشے متعدد کتابوں میں رام للا کی پیدائش سے متعلق درج کئے گئے ہیں وہ فقط تصوراتی اور عقیدت کی بنیاد پر ہیں۔اگر اے ایس آئی بھگوان رام کے جنم اور اس استھان کو بھی معین کردیتی جہاں ان کا جنم ہوا تھا تو پھر عدالت میں فرضی نقشوں کو پھاڑنے کا حکم چیف جسٹس نہیں دیتے؟۔
عدالت عظمیٰ نے کہاکہ بابری مسجد کے مدعی یہ ثابت کرنے میں ناکام رہیہیں کہ ایودھیا میں متنازع مقام پر مسجد بغیر کسی رکاوٹ کے تعمیر ہوگئی تھی۔ جبکہ عدالت نے یہ تسلیم کیاہے کہ متنازع مقام پر مسلمان نماز پڑھا کرتے تھے۔آیا عدالت عظمیٰ کے پاس ایسی کوئی دلیل اورثبوت موجودتھا جس سے یہ ثابت ہوا کہ متنازع مقام پر مسجد کی تعمیر میں کوئی رکاوٹ پیش آئی ہوگی؟اگر نہیں تو پھر اس بنیاد پر رام مندر کے حق میں فیصلہ کیسے دیا جاسکتاہے۔
اب رہا یہ سوال کہ مسلمانوں کو بابری مسجد کی تعمیر کے لئے کسی دوسری جگہ پانچ ایکڑ زمین دینے کا فیصلہ حق اور انصاف کے تقاضوں پر مبنی ہے یا نہیں؟،اس کے لئے عدالت عظمیٰ کو غور کرنا چاہئے تھا۔اول تو یہ کہ کیامسلمانوں کے پاس مساجد کی تعمیر کے لئے زمینوں کی کمی ہے؟۔اور جو مودی بھکت مسلمان یہ کہہ رہے ہیں کہ اس پانچ ایکڑ زمین پر کوئی تعلیمی یا فلاحی ادارہ قائم کردیا جائے تو کیا وہ بتلا سکتے ہیں کہ مسلمان اس زمین پر تعلیمی یا فلاحی ادارہ کیوں قائم کریں؟ اس سے پہلے کسی بھی سرکار نے مسلمانوں کی تعلیمی و سماجی،سیاسی اور اقتصادی پسماندگی دورکرنے کے لئے مناسب اقدام کیوں نہیں کئے؟۔بابری مسجد کی زمین کے بدلے میں دی گئی پانچ ایکڑ زمین پر تعلیمی ادارہ قائم کرکے کیا مسلمانوں کی ترقی ممکن ہے؟ ہر گز نہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر سپریم کورٹ متنازع زمین پرمسلمانوں کے حق ملکیت کا قایل نہیں ہے تو پھر پانچ ایکڑ زمین کیوں دی گئی ؟ اور اگر وہاں مسجد تھی تو پھر الگ سے دان میں دی ہوئی پانچ ایکڑزمین پر مسجد کیوں تعمیر کی جائے؟
ہمیں دان نہیں چاہئے صاحب۔ اپنا حق چاہئے جو نہیں ملا!
عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے قبل ہندوستان میں حکومت نے جس طرح کا بیانیہ تیار کیا تھا اس سے واضح ہوچکا تھا کہ فیصلہ رام مندر کے حق میں ہوگا اور اس فیصلے پر حکومت کے اثرات مرتب ہونگے۔آرایس ایس اور دیگرہندوتنظیموں نے حکومتی سرپرستی میں مسلم رہنماؤں کے ساتھ مختلف اجلاس منعقد کئے جس میں انہیں ملک میں امن و امان بحال کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کے لئے آمادہ کیا گیا۔جبکہ مسلمان اس فیصلے سے پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ انہیں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ہر حال میں قبول ہوگا۔مسلم قیادت توضمیرفروش ہے جوحکومت کے سامنے دْم ہلارہی ہے۔اس بکی ہوئی قیادت سے ہم کیا امید کرسکتے تھے۔ان کی امن اپیلیں اور آرایس ایس رہنماؤں کے ساتھ روزمرہ کی ملاقاتیں یہ واضح کرنے کے لئے کافی تھیں کہ ان کا رجحان کس طرف ہے اور انہیں امت مسلمہ کے مفاد سے کتنی دلچسپی ہے۔یہ قیادت حکومت اورآرایس ایس کے منصوبوں اورحکمت عملی کوعملی جامہ پہنانے میں مصروف عمل نظر آئی۔جبکہ حکومت اور زعفرانی تنظیموں کو یہ یقین ہوچکا تھا کہ مسلمان مزاحمت کی پوزیشن میں نہیں ہے۔گذشتہ پانچ ستّر سالوں میں مسلمان کو دیوار سے لگادیاگیاہے۔اس کی سیاسی،اقتصادی اور سماجی حیثیت ختم کرنے کی منظم سازش رچی گئی جو آج کامیاب ہوچکی ہے۔
بہرحال! ہماری اپیل ہے کہ ملک میں امن و امان قائم رکھیں۔مسجد اور مندر کی اتنی اہمیت نہیں ہے جتنی انسانی جانوں کی اہمیت ہے۔اگر ہم آپسی اتحاد کو فروغ دینگے تو حکومتوں کا پروپیگنڈہ خود بخود ختم ہوجائے گا۔لیکن چونکہ گذشتہ پانچ سالوں میں مذہبی منافرت کو اس قدر ہوا دی گئی ہے کہ اب سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بھی مذہبی عینک سے دیکھا جارہاہے لہذا اتحاد کی دعوت بھی بے سود معلوم ہوتی ہے۔پھر بھی ہم کہیں گے کہ امن و شانتی ہی ہر مسئلے کا حل ہے۔خونریزی اور فساد کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
12نومبر2019(فکروخبر)
جواب دیں