’’سورگون‘‘ مسلمانوں کاہولوکاسٹ

جزیرہ نماکریمیاازمنہ وسطی (Middle ages)سے مئی ۱۹۴۴ء تک کریمیائی تاتاری باشندوں کاوطن رہاہے۔کریمیائی مسلمانوں کاتعلق ترک اقوام کے اس گروہ سے تھاجو تیرہویں صدی میں باتوخان (Golden Horde)کے لشکرزریں کاحصہ تھے اورپھرانہوں نے کریمیاکواپناوطن بنایا۔کریمیائی تاتاری سنی مسلمان ہیں اورترکی زبان کاایک لہجہ ’’قچچاق ترک‘‘بولتے ہیں۔پندرھویں صدی کے وسط میں یہاں کے مسلمان ایک زبردست قوت بن کرابھرے اور۱۴۲۸ء میں انہوں نے ایک ایسی ریاست قائم کی جوریاست خانانِ کریمیاکہلاتی ہے۔اسے انگریزی میں ’’خانیت کریمیا‘‘(Crimean Khanatae)کہتے ہیں۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات ان تاتاری مسلمانوں کی زندگیوں میں اچھی طرح راسخ نہیں تھی اس لیے وہ اپنی قوت کاغلط استعمال بھی کرتے تھے۔غلاموں کے حصول کیلئے پولینڈپرحملے اوران کی فروخت ان کی تاریخ کا ایک کریہہ باب ہے۔تجارت کے عوض غلاموں کی واپسی کیلئے روس اورپولینڈکی ریاستوں سے تاوان بھی وصول کیاجاتاتھا یعنی غلاموں کی تجارت اورتاوان کی وصولی کومعیشت کادرجہ دیاگیا۔
اس امر کے باوجود کریمیائی تاتاریوں کی اسلامی علاقوں کے لیے سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے عرصہ دراز تک مسلم علاقوں کی جانب روس اور پولینڈ کی پیش قدمی کو روکے رکھا اور شمالی جانب سے اسلامی سرحدوں کی بھرپور حفاظت کی۔ ان کی بھرپور قوت سے علاقے میں طاقت کا توازن برقرار رہا۔اس ریاست کا ایک اور کارنامہ یہ تھا کہ اس نے محل وقوع کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کے حامل بحیرہ اسود میں طویل عرصے تک روسی اثر و رسوخ نہ بڑھنے دیا اور روس اور بحیرہ اسود کے درمیان ایک بہت بڑی رکاوٹ بن گئی۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ تاتاری سلطنت عثمانیہ کی سیادت میں جانے کے باوجودکریمیائی تاتاریوں کی ریاست کے باج گزارنہیں تھے۔باباعالی اورخانان کے درمیان تعلقات بہت خوشگوار تھے ۔ منتخب سلطان کوقسطنطنیہ سے منظوری تولیناپڑتی تھی تاہم وہ عثمانیوں کامقررکردہ نہیں ہوتاتھا۔خانان کواپناسکہ چلانے اورجمعہ کے خطبے میں اپنانام شامل کرنے کی بھی اجازت تھی جوان کی خودمختاری کی علامت سمجھی جاتی تھی۔عثمانی عہدخانانِ کریمیاکانویں دورتھاخصوصاً عسکری قوت کے طورپرکوئی قوت ان کاسامنانہیں کرسکتی تھی۔کریمیائی طاقت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ وہ پانچ لاکھ فوجیوں کالشکرمیدان میں اتارنے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔یہ ریاست بلاشبہ اٹھارویں صدی تک مشرقی یورپ کی بڑی قوتوں میں سے ایک تھی۔
تجارت کو پھیلانے کے مواقع اور عسکری توسیع کی اسی خواہش نے روس کو کریمیا پر قبضہ کے لیے پرکشش بنادیا تھا۔ اسی لیے سترہویں صدی کے اواخر میں روس نے یہاں دو مرتبہ قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا البتہ اٹھارہویں صدی کے بالکل اوائل میں کچھ عرصہ کے لیے انہوں نے ایک اہم بندرگاہ پر قبضہ بھی کر لیا لیکن وہ زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکا۔ ۱۷۷۱ء میں روس نے جزیرہ نما کریمیا میں در اندازی کی اور عثمانیوں سے ایک معاہدے کے تحت ۱۷۸۳ء کے دوران یہ علاقہ روس کے قبضے میں چلاگیا۔۱۷۸۳ء میں ملکہ کیتھرین ثانی نے عثمانیوں سے کیے گئے تمام تر معاہدوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کریمیا کو براہ راست روسی قلمرو میں شامل کر لیا۔کریمیا اور ملحقہ علاقوں پر روسی قبضے کے بعد وہاں اس طرح کے حالات پیدا کیے گئے تاکہ مسلمان از خود علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔ اس کی وجوہات داخلی سے زیادہ خارجی تھیں۔ کیونکہ بحیرہ اسود میں بحری قوت کو مضبوط بنانا اور خصوصا قسطنطنیہ پر قبضے کے ذریعے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو تقویت دینا روس کا پرانا خواب تھا اس لیے اپنی منزل کو پانے کے لیے پہلی رکاوٹ یعنی کریمیا کو ہٹانا ضروری تھا اور یہ حکمت عملی صرف زار کے عہد میں ہی اختیار نہیں کی گئی بلکہ جب جنگ عظیم دوئم میں فتح کے بعد توسیع پسندانہ عزائم کو مزید تحریک ملی تو اس خواب کی تعبیر کی ایک مرتبہ پھر کوشش کی گئی اور درحقیقت کریمیائی مسلمانوں کو جبری ہجرت پر مجبور کرنا اسی حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔
روس کے قبضے کے بعدتاتاری مسلمانوں کازوال شروع ہوگیا۔اس سلسلے میں سب سے پہلا کام زراعت پر محصولات میں زبردست اضافے کے ذریعے کیا گیا جس کے بعد مذہب کی جبری تبدیلی کے ذریعے مسلمانوں کو زیر کرنے کی کوشش کی گئی جب دونوں حربے ناکام رہے تو آخری حربے کے طور پر غیر مقامی باشندوں یعنی سلافی (Slav)نسل کے عیسائیوں کو آباد کرنا شروع کر دیا گیا اور اس پر طرہ یہ کہ مقامی زمینیں ان نو آباد کاروں کو دے دی گئیں۔تاتاریوں کی زمینوں پرقبضہ کرلیاگیا۔ہزاروں مزاحمت کاروں کوہلاک کردیاگیا،محض چھ سال میں تاتاری مسلم علاقوں کی جانب ہجرت پرمجبورہوئے۔ اس سہ طرفہ زیادتی کے نتیجے میں مسلمانوں کی بڑی اکثریت اپنے ہم مذہب اور ہم نسل عثمانی علاقوں کی طرف ہجرت کر گئی جو معاشی طور پر بھی ان کے لیے فائدہ مند تو تھی لیکن اس جبری ہجرت کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ ہی عرصے میں کریمیا مسلم اقلیتی علاقہ بن گیا اور محض چھ سال کے عرصے میں تین لاکھ مسلمانوں کو عثمانی علاقوں کی جانب ہجرت کرنا پڑی۔ان ہجرتوں کے نتیجے میں کریمیااورملحقہ تمام علاقے جہاں اٹھارویں صدی تک مسلمانوں کی حکومت تھی وہاں زارغالب آگئے اورمسلمان اقلیت میں آگئے۔باقی آبادی جورہ گئی جنگ عظیم دوم میں جوزف اسٹالین کے دورمیں مکمل طورپرکریمیاسے بے دخل کردی گئی۔اس مسلم آبادی کو کسی طورپرسقوطِ غرناطہ سے کم قرارنہیں دیاجاسکتا ،ہاں البتہ دونوں سانحات میں فرق یہ ہے کہ کریمیاکے تاتاری مسلمانوں کے بارے میں ہم بہت کم واقف ہیں۔
سورگون(’’جلاوطنی‘‘بزبان کریمیائی تاتاری اورترکی)۱۹۴۴ء میں کریمیاکے تاتاریوں کی موجودہ ازبکستان کی جانب ہجرت اورقتل عام کوکہاجاتاہے۔سوویت اتحادمیں جوزف اسٹالین کے عہدمیں ۱۷مئی ۱۹۴۴ء کوتمام کریمیائی باشندوں کواس وقت کی ازبک سوویت اشتراکی جمہوریہ میں جبراًمنتقل کردیاگیاتھا۔اسٹالین عہدمیں ملک کے خلاف مبینہ غداری کی سزااجتماعی طورپرپوری قوموں کودینے کی روش اپنائی گئی جس کانشانہ کریمیاکے تاتاری باشندے بھی بنے جن پرالزام تھاکہ انہوں نے نازی جرمنوں کاساتھ دے کرروس کے خلاف ٖغداری کاثبوت دیا۔اس جبری بے دخلی میں روس کے خفیہ ادارے ’’این کے وی ڈی‘‘کے ۵۲ہزاراہلکاروں نے حصہ لیااورایک لاکھ۹۳ہزار۸۶۵کریمیائی تاتاری باشندوں کوازبک وقازق اوردیگر علاقوں میں جبراً بے دخل کیاگیا۔اس جبری ہجرت کے دوران مئی سے نومبر کے مہینے تک دس ہزار۱۰۵تاتاری بھوک اورموسم کی شدت سے جاں بحق ہوئے جوازبک علاقوں کی جانب منتقل کیے گئے،جوکل باشندوں کا۷222ہے۔خفیہ پولیس کے اعدادوشمارکے مطابق ایک سال کے اندر۳۰ہزارتاتاری (کل مہاجرین کا۲۰ 222 ) اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ کریمیائی تاتاریوں کے اعدادوشماربتاتے ہیں کہ یہ تعداد۴۶فیصدتھی۔
اسٹالین کے عہدمیں سزاکے طورپرجبری مشقت کانظام ’’گولاگ‘‘(Golag)قائم کیاگیاتھا ۔سوویت دستاویزات ثابت کرتی ہیں کہ کئی کریمیائی باشندوں کواس نظام کے تحت جبری مشقت پر لگایاگیا۔جبری مشقت کے اسی نظام کے تحت کریمیاکے تاتاری اوردیگرکئی قوموں کے باشندوں کوسائبیریابھی بھیجاگیا۔کریمیائی کے تاتاریوں کامطالبہ ہے کہ ’’سورگون‘‘ کومنظم قتل عام قرار دیا جائے ۔کریمیاکے تاتاریوں کی جبری وطن بدری کی کہانی جوصدیوں پرمحیط ہے،۱۹۴۴ء اس جبری وطن بدری کاتسلسل ہے۔یہ سلسلہ ۱۹۳۸ء سے شروع ہوا جب روس نے کریمیاپرقبضہ کیاتواس قتل عام اورجبری وطن بدری کی پردہ پوشی کی جاتی رہی مگرموجودہ دورخصوصاً ۱۹۴۴ء اوراس کے بعدکے مظالم سامنے آگئے ہیں ۔ برائن گلن ولیمز کے مطابق روسی استعمارکے ظلم سے تاتاری اپنے ہی وطن میں ناپیدہونے لگے۔تاتاریوں نے دوقسم کی ہجرت کی ،ایک ہجرت کریمیاسے ان علاقوں کی طرف جواس وقت سلطنت عثمانیہ کاحصہ تھے ،دوسری ہجرت پچھلی صدی میں روس کی باقی ریاستوں کی طرف ہوئی یہاں تک کہ تاتاریوں کوجبری طورپرروس کے دیگرعلاقوں کو بھیجا گیاجن کی اکثریت کوجبری مشقت کیلئے سائبیریالے جایاگیا ،دوم غیرکریمیائی لوگوں کوبھاری تعدادمیں کریمیامیں بسایاگیاجس کیلئے کئی طریقے استعمال کیے گئے۔کریمیاسے نکالے گئے تمام افرادمسلمان تھے اوربسائے جانے والے تمام افرادغیرمسلم تھے۔اس تمہیدکا مقصد مسلمانوں کے اس طبقے کی جانب توجہ مبذول کراناہے جس سے ہمارے ۹۸222 مسلمان ناواقف ہیں۔
ملک بھر میں مادر وطن سے غداری کے الزام میں جن افراد کو موت کا سامنا کرنا پڑا ان میں سب سے اہم ۲۰لاکھ روسی مسلمانوں کا قتل عام ہے جن میں چیچن، انگش، کریمیائی تاتاری، تاجک، باشکر اور قازق شامل ہیں۔ آج چیچنیا میں آزادی کی جنگ لڑنے والے جانباز سوویت عقوبت گاہوں سے بچنے والے افراد انہی کی اولاد ہیں۔اسٹالن کے دور میں اپنے ہی عوام پر مسلط کی گئی اس جنگ میں خفیہ پولیس کے اسکواڈ کو کریمیائی عناصر کے خاتمے کا حکم دیا گیا اور اسٹالن کے مقرر کردہ جلاد لازار کاگانووِچ نے فی ہفتہ ۱۰ہزار افراد کے قتل کا ہدف مقرر کر رکھا تھا۔ اس عظیم قتل عام میں یوکرین سے تعلق رکھنے والے۸۰222 دانشوروں کو قتل کیا گیا۔ ۱۹۲۳ء اور ۱۹۳۳ء کی سخت سردیوں میں یوکرین میں ہر روز ۲۵ہزار افراد روسی افواج کی گولیوں یا بھوک و سردی سے موت کا نشانہ بنے۔ مورخ رابرٹ کوئسٹ کے مطابق یوکرین ایک بڑے مذبح خانے کا منظر پیش کر رہا تھا۔
معروف صحافی ایرک مارگولس ۱۹۹۸ء میں یوکرین کی انہی اقوام گم گشتہ پر قلم اٹھایا۔ The Forgotten Genocide میں مارگولس کہتے ہیں کہ روس بھر میں ۷۰لاکھ افراد کے اس عظیم قتل عام اور۲۰لاکھ افراد کی جلاوطنی کو سوویت پروپیگنڈے کے پردوں میں چھپادیا گیا۔ ان میں۳۰لاکھ مسلمان بھی شامل تھے جن میں۱۵لاکھ کریمیائی اور قازق تھے۔ اس عظیم قتل عام پر بھی ان لوگوں کی یاد میں کوئی ہولوکاسٹ یادگار قائم نہیں کی گئی۔
مارگولس کمیونسٹ نواز مغربی دانشوروں کا بھی رونا روتے ہیں کہ انہوں نے روسیوں کے ہاتھوں اس قتل عام کا اقرار نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو فاشسٹ ایجنٹ کہا۔ امریکی، برطانوی اور کینیڈا کی حکومتوں نے علم ہونے کے باوجود اپنی آنکھیں بند رکھیں حتیٰ کہ امدادی گروپوں کو بھی یوکرین جانے سے روکا گیا۔وہ کہتے ہیں کہ جب دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا اور امریکی صدر روز ویلٹ اور برطانوی وزیراعظم چرچل نے اسٹالن سے قربتیں بڑھائیں، اس امر کا علم ہونے کے باوجود کہ اس کے ہاتھ کم از کم ۳۰لاکھ افراد کے خون سے رنگے ہیں اور یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب ہٹلر نے یہودیوں کے قتل عام کا آغاز بھی نہ کیا تھا۔ تو پھر حیرت ہوتی ہے کہ یہودیوں کے قتل عام کا اتنا واویلا کیوں کیا گیا،اسٹالن نے ہٹلر سے تین گنا زیادہ افراد کا قتل کیا اور برطانیہ اور امریکہ کا روس کے ساتھ اتحاد کرنا دراصل اس قتل عام میں شرکت کے مترادف تھا لیکن جرمنوں کو مورد الزام ٹھہرا کر اس کا خراج مسلمانوں سے کیوں وصول کیا گیا؟

«
»

خبر ہونے تک …..

آر.ایس.ایس. کی ذہنیت اورمسلم خواتین مجاہد آزادی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے