تحریر: جاوید اختر بھارتی
1947 میں ہمارا ملک آزاد ہوا،جمہوریت ہمارے ملک کی شان ہے، ملک کا آئین باوقار ہے، ملک کی عوام کو حق رائے دہی کے استعمال کا اختیار ہے، ممبر اسمبلی سے لے کر وزیر اعلیٰ تک اور ممبر پارلیمنٹ سے لے کر وزیراعظم تک عوام کے سامنے جواب دہ ہیں ملک کے ہر ایک شہری کو ووٹ مانگنے، ووٹ دینے کا حق حاصل ہے آئین کے دائرے میں رہ کر سب کو تقریر و تحریر کی آزادی ہے اسی لئے ایک دوسرے پر تنقیدیں بھی ہوتی ہیں اور آئین کی رو سے دیکھا جائے تو تنقید کرنے کا حق بھی سیاسی، سماجی شخصیات سے لے کر عوام تک کو حاصل ہے بشرطیکہ تنقید برائے تنقید نہ ہو بلکہ تنقید برائے اصلاح ہو، تنقید برائے تعمیر ہو اسی لئے پوزیشن اور اپوزیشن دونوں ہے، اسی لئے برسرِ اقتدار پارٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی حکومت کو ایسا مشورہ دے جو مکمل طور پر عوامی مفاد میں ہو کوئی بھی ایسا کام نہ کرے جس سے عوام کو پریشان ہونا پڑے اور حکومت کی رسوائی کا سبب بنے اور حزب مخالف کا فریضہ ہے کہ وہ باہر سے لے کر ایوان تک بیدار پہریدار کا رول ادا کرے حکومت کوئی ایسا طریقہ کار اپناتی ہے جو نہ ملک کے مفاد میں ہو اور ملک کی عوام کے مفاد میں ہو تو اب حزب مخالف کی بھی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ حکومت کو ایسا کرنے سے روکے اور ایسا مشورہ دے جو ملک کے لئے اور ملک کی عوام کے لئے کارآمد ثابت ہو-
سیاست کہتے ہیں حکمت عملی کو اور ظاہر سی بات ہے کہ حکمت عملی طے کرنا حکومت کا کام ہے لیکن اسی حکمت عملی پر نظر رکھنا حزب مخالف کا کام ہے معلوم یہ ہوا کہ ملک کی اور ملک کی عوام کی بھلائی کی ذمہ داری دونوں پر ہے لیکن ایک بات ہے کہ جب دونوں کے اندر ایسا ہی نیک نیتی کا جذبہ ہوگا تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا ہاں اگر حکومت یہ ٹھان لے کہ ہمیں حزب مخالف کی بات ماننا ہی نہیں ہے کیونکہ وہ حکومت سے باہر ہے اور حزب مخالف یہ سوچ لے کہ ہمیں حکومت کی بات ماننا ہی نہیں ہے، حکومت کے کسی کام کی حمایت کرنا ہی نہیں ہے کیونکہ حکومت ہماری پارٹی کی نہیں ہے تو ایسی صورت میں ٹکراؤ کی نوعیت پیدا ہوتی ہے اور ایسی نوعیت سے نہ ملک کا بھلا ہوسکتا ہے اور نہ ہی ملک کی عوام کا بھلا ہوسکتا ہے اور فی الحال ہمارے ملک میں ایسی ہی سوچ نظر ارہی ہے جس کی وجہ سے حکومت اور اپوزیشن میں تنا تنی نظر آتی ہے اور گھوم پھر کر سارا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے اب آگے بڑھئے جہاں تک بات سیاست اور حمایت کی ہے تو سیاست پر تبصرہ تو ہوچکا اب حمایت پر غور کرنا ہے جلسے میں صدارت کا اعلان ہوتا ہے تو ایک شخص کھڑا ہو کر اس کی تائید کرے گا اسی کو حمایت کہتے ہیں الیکشن کا بگل بج گیا تمام پارٹیاں اپنے اپنے انتخابی منشور جاری کرتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہر پارٹی کی سماج کی معزز شخصیات سے ملاقات کرنے اور ان کے ذریعے ان کے سماج سے اپنے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کرنے کی خواہش کا اظہار کرتی ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگ اپیل کرتے بھی ہیں اسی کو حمایت کہتے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سماج کے کسی بھی با اثر شخصیت کے پاس کوئی جائے تو وہ جب اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے ان کا سہارا لے تو کیا ان کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ کہیں کہ بدلے میں ہمیں کیا ملے گا ظاہر سی بات ہے کہ صبح سے لے کر شام تک کوئی کسی کے وہاں مٹی بھی پھینکتا ہے تو شام کو اس کی اجرت ملتی ہے جس سے اس کے گھر کا خرچ چلتا ہے اس کے کنبے کی ضروریات پوری ہوتی ہیں تو یہ معاملہ تو انفرادی ٹھہرا لیکن اصول اور ضابطہ یہی ہے چاہے پرائیویٹ سیکٹر ہو یا سرکاری کوئی مفت میں کام کرتا ہوا نظر نہیں آتا اور کوئی مفت میں کام کرے گا تو اس کے گھر والے ضرور اس سے سوال کریں گے کہ آخر جب آپ کے کام سے اور آپ کی محنت سے گھر میں کسی کا بھلا نہیں ہورہا ہے تو ایسی بے گاری سے کیا فائدہ بلا وجہ آپ وقت اور اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ ہمارے مستقبل کو کیوں برباد کررہے ہیں تو یہی چیز سماج کے ان رہنماؤں پر بھی عائد ہوتی ہے جو الیکشن کے ماحول میں کسی نہ کسی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں اور اس پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کرتے ہیں تو اس سے سماج کے بارے میں کیا معاہدہ کرتے ہیں اگر کوئی معاہدہ کرتے ہیں تو وہ اپنے سماج کے لوگوں کو کیوں نہیں بتاتے اور اگر کوئی معاہدہ نہیں کرتے ہیں یعنی بلا شرط کسی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں تو کس بنیاد پر یہ سوچ لیتے ہیں کہ ہم جسے کہیں گے ہمارا سماج اسی کو ووٹ دے گا ایسا کرنے سے کیا فائدہ،، ہاں اگر صرف آپ کا قد اونچا ہوجاتا ہے تو آپ پورے سماج کو کب تک ایسے ہی برباد کرتے رہیں گے اور جب سے ملک آزاد ہوا ہے تب سے یہی سلسلہ چلا ارہاہے اندھیروں میں سیاسی حمایت کی جاتی ہے حوالہ پورے سماج کا دیا جاتا اور پیٹ صرف اپنا بھرا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حکمراں قوم آج حاشیے پر بھی نظر نہیں آتی ملک کا دبے سے دبا کچلا طبقہ بھی اقتدار تک پہنچ گیا اس لیے کہ وہ سمجھ گئے کہ ماسٹر چابی کا نام سیاست ہے جب تک روئے تب تک روئے لیکن روتے روتے سمجھ گئے کہ رونا رونے سے کچھ نہیں ہونے والا بلکہ ملک کے آئین نے جو حق دیا ہے اس کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا اور تلاش کیا جس کے نتیجے میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی اور ہمیں جہاں دوسروں نے آکر ایک سیاسی پارٹی سے ڈرایا تو ہمارے لوگوں نے بھی آکر اسی پارٹی سے ڈرایا اور ہم صرف ہرانے والی سیاست تک محدود رہ گئے اور خود مسلم رہنماؤں نے مسلمانوں کو اس منزل تک پہنچا دیا کہ آج ہم جس پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں تو دبی زبان میں وہ پارٹی بھی کہتی ہے کہ تمہارے سامنے تو خود مجبوری تھی تم جاتے کدھر،، تم نے تو مجبوراً ہماری پارٹی کو ووٹ دیا تمہارے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا- یہ بات اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ اندھی حمایت کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں کراسکتی جمہوریت میں وہی قوم سربلند ہوتی ہے جس کے اندر سیاسی بیداری ہوتی ہے وہ احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتی بلکہ اس کے اندر احساس برتری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے آج تو مسلم قوم کا بہت بڑا طبقہ ووٹ کی اہمیت کو بھی نہیں جانتا اور اسے بتایا بھی نہیں جاتا ساڑھے چار سال تک سنسان رہتا ہے چھ مہینے کے لئے ایسے ایسے چہرے نمودار ہوتے ہیں کہ بس یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملک کی ہر سیاسی پارٹی کی نکیل انہیں کے ہاتھوں میں ہے پھر ساڑھے چار سال تک گوشہ نشین ہوجاتے ہیں خدارا اب تو ہوش کے ناخن لیجئیے انہیں ساڑھے چار سالوں کے دوران آپ ووٹوں کی اہمیت کو بتائیے، ملک کے آئین نے ملک کی عوام کو کیا حق دیا ہے یہ بتائیے سیاست سے قریبی اور دوری کے کیا نقصانات اور فوائد ہیں یہ بتائیے صرف یہ کہہ کر چھٹکارا ملنے والا نہیں ہے کہ اب سیاست گندی ہوگئی ہے معاف کیجئے گا سیاست کل بھی گندی نہیں تھی اور آج بھی گندی نہیں ہے سیاست کرنے والے جیسی سوچ کے ہونگے ویسا ہی فیصلہ لیں گے آپ اچھی سوچ کے ہیں تو اچھی سوچ کے ساتھ سیاست میں حصہ لیجئیے اور پورے سماج کو سیاست میں حصہ لینے کا مشورہ دیجئے تاکہ اچھا سیاسی ماحول قائم ہو ورنہ اندھیروں میں سیاسی پارٹیوں کی حمایت کرنے سے نہ اب تک کچھ حاصل ہوا ہے اور نہ ہوگا –
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں