انگریز جاتے جاتے تعلیمی نصاب میں اپنی بنیادیں گاڑ گئے تھے ، اور پھر تہذیب جدیدہ میں داخل ہوتے ہی انکی ہر ایک پاپولر چیز پاپ بنتی چلی گئی… انکی کہانیاں ہماری زندگی کی تلخ حقیقتیں بنتی چلی گئی…..جس نے دادا دادی اور نانا نا نی کی کہانیوں کو پھر کہیں کا نہ رکھا…جسے رات کے پہلے پہر بزرگوں کے سینوں پر لوٹ پوٹ کر نو نہال سنا کرتے، اور ونہیں سے انکی شخصیت سازی اور کردار سازی کا دور شروع ہوا کرتا…. اب وہ فراخ اور گداز سینے بھی نہیں رہے جو تربیت میں لطافت اور کردار میں پختگی کا موجب بنتے…. اب تو سینوں میں مختلف اقسام کی آگ جلتی ہے ….. بے روزگاری کی آگ، جنگوں اور فسادات کی آگ، تعصب پرستی کی آگ، مادیت پرستی کی آگ، معاشی اور معاشرتی مسابقت کی آگ … سینوں میں اسقدر آگ ہوگی تو یہ معصوم نسلیں کب اس پر لوٹ پوٹ ہونا چاہے گی …. اب وہ کہانیاں بھی نہیں رہی …. ان کہانیوں کو رومیو جولیٹ اور رابن هوڈ لے اڑے…. یہ وہ کہانیاں تھیں جنکے کردار غیر فانی ہوا کرتے اور جو بھلے ہی اپنی زندگی میں قتل کردئے گئے ہوتے لیکن تاریخ میں انکا قتل ممکن نہیں ہوتا…..سینہ بہ سینہ چلنے والی یہ کہانیاں انہیں زندہ رکھتیں.. ان کہانیوں میں تاریخ بھی ہوا کرتی اور جغرافیہ بھی، تہذیب بھی اور سچی رواداری بھی…. اور ان سب سے بڑھکر ان کہانیوں میں دین وعقائد ، انسانیت، دردمندی، بہادری، سخاوت، اقربا پروری کے ایمان افروز واقعات ہوتے… یہ سب لوازمات ملکر بچوں کے قلب و ذہن میں مادیت اور روحانیت سے ملے جلے پودوں کے بیج بوتے… جو کچی عمر کو پہنچتے ہی ایک نخل تمنّا کی صورت لہلاتے….. پھر رفتہ رفتہ پختہ عمر تک والدین اور اساتذہ اس نخل تمنا کی آبیاری کرتے اور معاشرہ گلزار ہوجاتا….. انہیں کہانیوں میں کہیں عید اور اسکے پکوان کی کہانیاں بھی پوشیدہ ہوتی… جو تہذیب و ثقافت کی آئینہ داری کرتی… جسکے نشان انمٹ ہوتے….انہیں پکوانوں میں بریانی کا ذکر بھی ہوتا اور شیر قورمہ کا بھی…….انکی مختلف اقسام کا.. انکی اہمیت کا.. انکی انفرادیت کا…. دادی کے ہاتھ کی بریانی… ماں کے ہاتھ کا شیر قورمہ…مختلف تراکیب مختلف مواد، مختلف ذائقے……
جواب دیں