شب قدر ۔ایک رات جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

اس میں اللہ تمام حکمت ومصلحت کے امور اور تقدیروں کا فیصلہ فرماتا ہے،اللہ نے اس رات کے خصائل، اہمیت جلالت، منزلت وعظمت کو بتلانے کے لئے ’’سورۃ القدر ‘‘ کے نام سے مستقل ایک سورت نازل فرمائی ،جسکا خود تذکرہ فرمایا کہ یہ رات ہزار مہینے سے بہتر ہے، اور اسکی عظمتوں و برکتوں کا کما حقہ اندازہ نہیں لگایاجاسکتا، اور پوری کائنات کے لئے خدائی پروگرام طے ہونے کے ساتھ ہی سارے جہان کا فیصلہ ہوتا ہے، ابتدائی فیصلے امور تقدیر کے اجمالی طور پر شب برات میں ہوجاتے ہیں،پھر انکی تفصیلات لیلۃ القدر میں لکھی جاتی ہیں، اور سال کے سارے مقدرات اسی رات میں معین ہوتے ہیں، اور متعلقہ فرشتوں کے حوالہ کردیئے جاتے ہیں، ا ور اس رات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، مبارک ہی ہوتا ہے، حتی کہ اگر کسی قوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ بھی ہوتا ہے تو خیر کے لئے ہوتا ہے،نہ کے شر کے لئے،شام سے صبح تک سلامتی کی ہی رات ہوتی ہے حضور پاک ﷺ پرقرآن کے نزول کا سلسلہ بھی اسی خیر وسلامتی کی بابرکت شب کو شروع ہوا، یہ ایسی کتاب ہے کہ رہتی دنیاتک باقی رہے گی،اور انسان کی سعادت وہدایت کی ضامن ہے، شب قدر خدائے واحد کی ایک ایسی عظیم نعمت ہے کہ اس کا پالینااور اس میں ذکر وعبادت میں مشغول رہناسعادت عظمی اور فلاح دارین کا باعث ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: ’’شب قدرمیں وہ تمام فرشتے جنکا مقام سدرۃ المنتھی پر ہے،جبرئیل امین کے ساتھ دنیا میں اترتے ہیں،اور کوئی مومن ، مرد یاعورت ایسی نہیں جس کو وہ سلام نہ کرتے ہوں،بجز اس آدمی کے جو شراب پیتاہو، یاخنزیز کا کوگوشت کھاتاہو‘‘ اور اپنی حکمت کے تحت اللہ نے جو امور طے کر رکھے ہیں،وہ اسی رات میں تقسیم ہوتے ہیں۔
اللہ کی طرف سے امت محمدیہ کو یہ عظیم تحفہ اسلئے عطاہوا،کہ آپ ﷺ نے گزشتہ امتیوں میں سے ایک شمعون نامی عابدکا ذکرکیا،جو پوری رات عبادت میں مشغول رہتا تھا،اور دن بھر جہادمیں مشغول رہتا تھا،اس طرح اس نے ہزار مہینے گذار ے تھے،صحابہ کرام کو اس کی عبادت کا حال سن کر بڑا تعجب ہوا،اور وہ سوچنے لگے کہ اس کے اعمال صالحہ کے سامنے ہمارے اعمال کی کیاحیثیت ہے،اورعرض کیا کہ ہمیں تو بہت تھوڑی عمریں ملی ہیں،اس میں بھی کچھ حصہ نیند میں گذرجاتا ہے،تو کچھ حصہ طلب معاش میں لہذا ہم تو شمعون کی طرح عبادت نہیں کرسکتے،آپ ﷺ یہ سن کر بہت غمگکین ہوئے،اسی وقت جبرائیل علیہ السلام اللہ کی جانب سے سورہ قدر پیش کردی،اور تسلی دے دی کہ اے پیارے حبیب آپ رنجیدہ نہ ہوں،آپ کی امت کو ہم نے ایک ایسی رات ’’شب قدر‘‘ عطافرمادی کہ اگر وہ اس رات میں میری عبادت کریں گے تو حضرت شمعون ؒ کے ہزار سالہ عبادت کے برابر ثواب ملے گا، اور ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے پچھلی امتوں کودیکھاکہ ان کی عمریں طویل ہیں،اور آپ کی امت کی عمریں چھوٹی ہیں،اس سے آپ ﷺ کو خوف ہوا کہ میری امت کے اعمال ان امتوں کے اعمال تک نہ پہونچ سکے گے،اسلئے اللہ نے آپ ﷺ کو شب قدر عطافرمائی، جو اس مجاہدہ کی عبادت سے بہتر عطافرمائے گا۔
اس رات کو لیلۃ القدر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ قدر کے ایک معنی عظمت وشرافت کے بھی آتے ہیں، یعنی جس شخص کی اس سے پہلے اپنی بے عملی وگناہوں کی وجہ سے کوئی قدر وقیمت نہیں تھی، اس رات میں توبہ واستغفار کے ذریعہ وہ صاحب قدر و شرف بن جاتا ہے، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں، یہ بڑی برکتوں اور رحمتوں کی رات ہے ، بندہ اگر اس کی جستجو میں کامیاب ہوجائے تو اس ایک ہی رات میں خداکے قرب کی وہ اتنی منزلیں طے کرسکتا ہے جتنی ہزار راتوں میں نہیں کرسکتا، اس رات کے پردوں میں روح و دل کی زندگی کے بڑے خزانے چھپے ہوئے ہیں،اور عاشق اپنے معشو ق سے ملاقات کرتا ہے، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس جستجو میں سرگرم رہ سکیں،اور اس کے پانے میں کامیاب ہوجائیں۔
لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے،اور خاص طاق راتیں یعنی ۲۱؍۲۳؍۲۵؍۲۷؍۲۹؍ راتوں میں ہونے کا زیادہ احتمال ہے،لیکن تمام اقوال میں راجح قول جمہور علماء کا ہے،کہ وہ رمضان کی ستائیسویں رات ہے، جس طرح موت کو اللہ نے پوشیدہ رکھا ہے کہ سب ہرحال میں تیار رہیں، اسی طرح غالباً کسی رات کاتعین اللہ اور اس کے رسول کی طرف اس لئے نہیں کیاگیا، کہ شب قدر کی فضیلت سے فیض اٹھانے کے شوق میں لوگ زیادہ سے زیادہ راتیں عبادت میں گذاریں،اور کسی ایک رات پر اکتفا نہ کریں، اور یہ پتہ چل سکے کہ اس کے حاصل کرنے کے شائقین کون کون ہیں؟ 
یوں تو بہت سی راتیں آتی ہیں، اور گذر جاتی ہیں،نغمہ وترنم کی راتیں، شادی بیاہ کی راتیں،کیف وسرور کی راتیں،رنج وغم کی راتیں،لیکن بڑے خوش قسمت اور سعادت مند ہیں وہ لوگ جو اس شب کو پائیں،آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس رات کو یہ دعا کریں،یا اللہ آپ بہت معاف کرنے والے ہیں،اور معافی کو پسند کرتے ہیں،میری خطائیں معاف فرمایئے۔(قرطبی) اور حقیقت یہی ہے کہ جسکا انکار ممکن نہیں!
موت کو کس سے رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
لہذا اگرکسی کو اس شب میں پوری رات عبادت وذکرکی ہمت اورتوفیق نہ ہو تو جس قدر بھی ممکن ہوسکے اس کے شرف سے محروم نہ رہے،اور کم ازکم مغرب اور عشاء کی نماز باجماعت کا اہتمام ضرور کرے،حضور ﷺ نے فرمایا :’’ جس نے شب قدر کی مغرب وعشاء کی نماز باجماعت ادا کی،اس نے شب قدر سے اپنا حصہ پالیا‘‘ اگرچہ تمام شب بیداری کرنے والے کا حصہ اس سے زیادہ اور بہتر ہے.
ماہ مبار ک میں بے شمار گھڑیاں قبولیت دعا کی ہیں،اب آخری عشرہ بچاہے، موقع غنیمت سمجھتے ہوئے عبادت کے ساتھ دعاکابھی خاص اہتمام کریں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ مانگنا،عبادت کا مغز،اسکی روح اور اسکا جوہر ہے اور نیکی سے ہی عمر میں اضافہ ہوتا ہے،اور دعاہی تقدیر کو ٹال سکتی ہے،دعا مولاوبندے کے درمیان ایک اٹوٹ رشتہ ہے۔
لیکن شرط ہے کہ پہلے اپنا محاسبہ کریں کہ کس عمل کے سبب دعا قبول نہیں ہورہی ہے، والدین کی ناراضگی سے دعاقبول نہیں ہوتی ہے،کیونکہ والدین کی رضا میں اللہ کی رضا ہے،رزق حلا ل نہیں ہے تودعاقبول نہیں ہوتی،دعاکی قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ دعاشروع کرتے وقت حمدوثناء کے ساتھ بندہ پہلے سچے دل سے پکی توبہ کرے،اپنے والدین کوراضی کرے،اوررزق حلال کا پابندہوجائے، عاجزی وانکساری ، خضوع وخشوع اور ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ دعا کرے،آنسؤو ں سے بھری ہوئی آنکھوں، اور ڈرے ہوئے قلب کے ساتھ اپنی حاجت بیان کرے، دعا کے وقت داعی کادل اللہ کی طرف متوجہ اور اسکی بارہ گاہ میں حاضرہو،اور یہ شعور ہونا چاہیئے کہ و ہ کیاکررہا ہے ،کیاکہہ رہا ہے، اور کس سے کہہ رہا ہے، اللہ کے عذاب کا خوف اور اسکے ثواب کی امید وہ چیز ہے جو مومن کو راہ اعتدال پر قائم رکھتی ہے،اپنی عاجزی، پستی،اور تازہ احساس کے ساتھ دعاکریں، اس میں خیر کی طلب اور شر سے نجات کی درخواست ہو،کیونکہ اللہ تعالی اپنے سامنے بندے کی عاجزی وبے بسی کو بے حد پسند فرماتا ہے،اللہ سے دعامانگناعین تقاضائے بندگی ہے۔
اللہ ہم سب کو اس آخری عشرہ میں عبادت کرنے ، اور دعا کی شرائط کے ساتھ سچے دل سے پکی توبہ کرنے ،کی توفیق عطافرمائے،اللہ ہم سب کو اس مقدس رات کے فیوض اور برکات سے کماحقہ مستفیض ہونے کی توفیق عطافرمائے، الھم انک عفو، تحب العفو فاعف عنی(آمین)

«
»

اسامہ بن لادن کے قید و بند کا ڈرامہ

ہم چراغوں کوڈراتے ہو،یہ کیا کرتے ہو؟!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے