مولانا عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
رب رحمان اپنی کمزور و ناتواں مخلوق پر خصوصی کرم فرمانے، اپنےگناہ گار و خطاکار بندوں کو پروانۂ مغفرت سنانے اور مقربینِ بارگاہ کو مزید انعامات ونوازشات سے سرفراز کرنے کے لیے کچھ ساعتوں کو خصوصی برکت و فضیلت عطا فرماتا ہے؛ جن میں اس کی رحمت و مغفرت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے اور جنہیں وہ خاص قبولیت کے شرف سے نوازتا ہے۔ان خاص لمحوں، خاص دنوں اور خاص مہینوں میں ماہ شعبان بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب روزہ رکھنا شروع فرماتے تواس تسلسل کےساتھ روزے رکھتےکہ ہمیں یوں محسوس ہوتا،اب آپ روزہ رکھنا بند نہیں کریں گے اور جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ نہیں رکھتے تو ہم یہ کہتے کہ اب آپ روزہ بالکل نہیں رکھیں گے ۔ مزید فرماتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان شریف کے علاوہ کسی اور مہینہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا اورمیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں کثرت سے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔(صحیح البخاری:رقم الحدیث:1969)
اسی طرح حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہم نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں(نفلی)روزہ رکھتے نہیں دیکھا؟ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ رجب اور رمضان کے درمیان واقع ایک مہینہ ہے جس کی برکت سے لوگ غافل ہیں، اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، میری خواہش ہے کہ میرے اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزہ سے ہوں۔(نسائی، مسند احمد، ابو داؤد 2076)
ان دو روایتوں سے اندازہ لگایاجاسکتاہے ماہ شعبان کتنا محترم ومبارک مہینہ ہے اور آپ ﷺروزہ رکھ کراس کا کس درجہ اہتمام فرمایاکرتے تھے۔
مغفرت کایہ بھی اک بہانہ ہے:
سال بھر گناہوں کی گرد میں اٹے ہوئے،معصیت کے دلدل میں پھنسے ہوئے،نفس کی فریب کاریوں سے بدحال اور شیطان کی مکاریوں سے درماندہ بندگان خدا کے لیے رمضان اور اس سے پہلے شعبان و شب براءت کی قیمتی سوغات کا خیالی دنیا میں تصور کیاجائے تو بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک گم کردہ راہ مسافر ہےجو شب کی تاریکی میں منزل سے بہت دور کسی ویران صحراء میں جا پڑاہے،جہاں نہ روشنی کا کوئی گزر ہے نہ مقصود تک پہونچنے کا کوئی وسیلہ۔وہ مستقل اس تگ و دو میں ہے کہ کسی طرح جادۂ مستقیم تک پہونچ جائے؛مگر شب غم کی طولانی ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے،دن بھر کی غیر معمولی تھکاوٹ کے باوجود گوش ہائے چشم سے نیند بالکل غائب ہوچکی ہے،ظلمتوں کا یہ عالم ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہاہے۔
ایسے میں ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آتا ہے اوردہشت و وحشت کے اس خوفناک ماحول میں پریشان حال مسافر قدرے آرام محسوس کرتاہےاور نمود صبح سے کچھ دیر قبل آناً فاناً نیند کی آغوش میں چلاجاتا ہے،پھر جب اس کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے کہ مہلت کے طور پر اسے اک نئی صبح ملی ہے ،وہ فرحاں وشاداں منزل مقصود کی سمت رواں دواں ہوتاہےاورکھلتی کلیوں ،چہچہاتے پرندوں اور جہاں بھر میں بکھری رب کی نعمتوں کو دیکھ کر بے اختیار پکار اٹھتا ہے ؎
خطائیں دیکھتا بھی ہے،عطائیں کم نہیں کرتا
سمجھ میں آنہیں سکتا وہ اتنا مہربان کیوں ہے
شب براءت کیاہے؟
یہ لفظ شب براءت احادیث مبارکہ کے الفاظ ’’عتقاء من النار‘‘کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ آپ ﷺکا عطا کردہ لفظ ہے۔ چونکہ یہ رات دوزخ سے براءت اور آزادی کی رات ہے۔ اس رات رحمت خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں اس لیے اسے ’’شب براء ت‘‘ کہا جاتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (اے عائشہ!)کیا تمھیں معلوم ہے کہ یہ کون سی رات ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شعبان کی پندرھویں رات ہے ۔ اس رات اللہ رب العزت اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتے ہیں؛ بخشش چاہنے والوں کو بخش دیتے ہیں، رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتے ہیں اور بغض رکھنے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ (شعب الایمان للبیہقی:رقم الحدیث 3554)
اس رات کی عظمت کا اندازہ اس روایت سے بھی لگایاجاسکتاہےکہ حضرت علی مرتضیٰؓ روایت کرتے ہیں؛ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا :’’جب شعبان کی پندرہویں شب آئے، تو اس رات قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو، کیوں کہ اس رات غروب آفتاب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی خاص تجلی اور رحمت پہلے آسمان پر اترتی ہے اور رب کریم اپنے بندوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ’’ کوئی ہے، جو بخشش کا طلب گار ہو، اور میں اسے بخش دوں، کوئی ہے، جو کشادگی رزق کا خواست گار ہو، اور میں اسے رزق عطا کردوں، کوئی ہے، جو مصیبت میں مبتلا ہو، اور میں اسے مصیبت سے نجات دوں، کوئی ہے، جو صحت و تندرستی کا طلب گار ہو، اور میں اسے شفائے کاملہ عطا کروں۔‘‘
اس طرح اللہ جل شانہ تمام حاجت مندوں کا ذکر فرما کر انہیں اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور یوں غروب آفتاب سے لے کر صبح صادق تک اللہ کی رحمت اپنے بندوں کو پکارتی رہتی ہے۔ (سنن ابنِ ماجہ)۔
الغرض:شب برأت گناہوں پر ندامت، اعتراف بندگی اور دعاؤں کی قبولیت کی بابرکت رات ہے۔ کون جانے، اگلے سال یہ عظمت اور بزرگی والی رات اور یہ انمول ساعتیں نصیب ہوں گی یا نہیں؛اس لیے ان قیمتی لمحات کو اپنے لیے قدرت کا انعام سمجھتے ہوئے خود کو شرمندگی کے بہتے اشکوں کے ساتھ اپنے رب کے حضور پیش کرکے رب مجیب سے وہ سب کچھ طلب کر لیں، جس کے ہم خواہش مند ہیں۔
وہ غافر نہیں غفار ہے:
ماضی قریب کے معروف صاحب نسبت بزرگ حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ غافر نہیں ہے، غَفَّارْہے، مغفرت کا بحر ذخار ہے کہ اگر سارے عالَم کو بخش دے تو اس کی مغفرت کے غیرمحدود سمندر میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ کیوں؟ سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں یَامَنْ لَّا تَضُرُّہُ الذُّنُوْبُ اے وہ ذات کہ ہمارے گناہوں سے جس کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ جو سورج کی طرف تھوکتا ہے تو اس کا تھوک اس کے ہی منہ پر گرتا ہے۔ اللہ تو بڑی شان والا ہے، اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ گناہوں سے ہم کو ہی نقصان پہنچتا ہے لہٰذا سرورِ عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی اُمت کو سکھارہے ہیں کہ یوں کہو!اے وہ ذات کہ ہمارے گناہوں سے جس کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا،اور بندوں کو معاف کرنے سے اس کی مغفرت کچھ کم نہیں ہوتی۔ اس کے خزانۂ مغفرت میں کوئی کمی نہیں آتی، تو میرے ان گناہوں کو آپ معاف کردیجیے جن سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتااور جس چیز کے دینے سے آپ کے خزانے میں کمی نہیں آتی وہ مغفرت کا خزانہ ہم کو دے دیجیے۔اس عظیم رات میں مغفرت الہی کے عموم و شمول کا کچھ اندازہ اس روایت سے لگایا جاسکتاہے،حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:’’پندرہویں شعبان کو اللہ عزوجل آسمان دنیامیں نزول فرماتے ہیں اوربنوکلب کی بھیڑوں کے بالوں کی تعدادمیں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔(ترمذی،باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان:حدیث739)
فائدہ: اس زمانے میں عرب میں قبیلہ بنوکلب کے پاس سب سے زیادہ بکریاں تھیں، جو اپنے کثیر بالوں کی وجہ سے مشہور تھیں، چنانچہ جس طرح بکریوں کے بالوں کا شمار نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح اللہ تعالیٰ شب برأت میں اپنے بے شمار بندوں کی بخشش فرماکر انہیں جہنم سے نجات عطا فرماتا ہے۔
ہے وہ بدبخت جو آج محروم ہے:
اس اہم ترین رات میں اللہ کی رحمت و مغفرت سے محروم رہنے والے کچھ بدقسمت افراد بھی ہوں گے جن کا ذکر درج ذیل احادیث میں کیاگیا:
مشرک و حاسد:حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل پندرہویں شعبان کی رات میں آسمان ِ دنیا کی طرف (اپنی شان کے مطابق)نزول ِاجلال فرماتے ہیں اور اس رات ہر کسی کی مغفرت کر دی جاتی ہے،سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے، یا ایسے شخص کے جس کے دل میں بغض ہو“۔(شعب الإیمان للبیہقي)
رشتہ توڑنے والا،ازارلٹکانےوالا،والدین کی نافرمانی کرنےوالااور شراب کا عادی:حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جبرئیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ شعبان کی پندرہویں رات ہے ،اللہ تعالی اس رات میں بہت سے لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے، جن کی تعداد” قبیلہٴ کلب“ کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے؛ مگر اس رات میں اللہ تعالی مشرک، اور کینہ ور ،اور رشتے ناطے توڑنے والے(یعنی قطع تعلقی کرنے والے)اورازار(یعنی پاجامہ ،شلوار وغیرہ)ٹخنوں سے نیچے رکھنے والے،(لوگوں )اور ماں باپ کے نافرمان اور شراب کے عادی لوگوں کی طرف رحمت کی نظر نہیں فرماتے“۔
کوشش کرنی چاہیے کہ اگر ہم ان گناہوں میں سے کسی میں مبتلا ہیں تو فورا توبہ کرلیں اور حق دار تک اس کا حق پہونچادیں تاکہ اللہ پاک ہمیں بھی اپنے سایہ مغفرت میں جگہ عطاء فرمائے۔
ہمارا حال زار:
یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ شبِ برات کی اس قدر فضیلت و اہمیت اور برکت وسعادت کے باوجود ہم یہ مقدس رات،فضول مشغلوں،غیرضروری دل چسپیوں اور ناجائزوحرام کاموں کی نذرکردیتےہیں ، اور اس رات میں بھی افراط و تفریط کا شکار ہو کر کھیل کود،دھوم دھڑاکے اور آتش بازی میں گزار دیتے ہیں؛جب کہ حضرت عطار بن یسارؒ بیان فرماتے ہیں کہ
’’شعبان کی پندرہویں شب کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک فہرست ملک الموت کو دے دی جاتی ہے اور اسے حکم دیا جاتا ہے کہ جن لوگوں کے نام اس فہرست میں درج ہیں، ان کی روحوں کو قبض کرنا ہے۔ حالاں کہ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی بندہ باغ میں پودا لگا رہا ہوتا ہے، کوئی شادی بیاہ میں مصروف ہوتا ہے، کوئی مکان کی تعمیر میں، جب کہ ان سب کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒاس کیفیت کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’بہت سے لوگوں کے کفن تیار ہو چکے ہوتے ہیں، مگر وہ ابھی تک بازاروں میں خریدوفروخت میں مصروف اور اپنی موت سے غافل ہیں، بہت سے لوگوں کی قبریں تیار ہوچکی ہیں، مگر ان میں دفن ہونے والے غفلت سے خوشیاں مناتے پھر رہے ہیں، بہت سے لوگ خوش گپیوں میں مست ومگن ہیں، حالانکہ وہ بہت جلد ہلاک ہونے والے ہیں۔‘‘ (غنیۃ الطالبین)
اخیر میں دعاءہے کہ حق تعالی ہمیں اس رات کی کماحقہ قدرکرنے اور خیروبھلائی کےکاموں میں گزارنےکی توفیق ارزانی فرمائے۔آمین
جواب دیں