مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
امارت شرعیہ کے ساتویں امیر شریعت کی حیثیت سے مفکراسلام حضرت مولانامحمد ولی رحمانی(۱۹۴۳ء تا۲۰۲۱ء) نوراللہ مرقدہ کاانتخاب ارریہ میں ۲۹؍نومبر ۲۰۱۵ء کوعمل میں آیا تھا، ۳؍اپریل ۲۰۲۱ء کو حضرت کے وصال کے بعد یہ دور اختتام کو پہونچا، اس کے قبل حضرت صاحب ۳؍اپریل ۲۰۰۵ء کو نائب امیر شریعت نامزدہوئے تھے، اس حیثیت سے دس سال سات ماہ انہوں نے خدمات انجام دیں،۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۵ء سے ۲۸؍نومبر تک وہ چھٹے امیر شریعت کے انتقال کے بعد سے امیر شریعت کے انتخاب تک’’مثل امیر شریعت‘‘امارت شرعیہ کی خدمات انجام دیتے رہے، کیوں کہ دستور امارت شرعیہ کے مطابق امیر شریعت کے وصال کے بعد نائب امیر شریعت ’’مثل امیر شریعت ‘‘ہوتاہے اوراس کا حکم امیر شریعت کے حکم کی طرح نافذ العمل ہوتاہے۔اس کے قبل ۲۲؍شعبان ۱۳۷۶ تا ۳؍رمضان۱۴۱۱ء مسلسل چونتیس (۳۴)سال وہ چوتھے امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے دست بازوبن کے امارت کے کاموں کو آگے بڑھانے میں لگے رہے۔
ساتویں امیر شریعت کا دور مسعود پانچ سال چار ماہ چھ دن رہاہے،امارت شرعیہ کی تاریخ میں امیر شریعت اول حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادریؒ کادور امارت سب سے کم تین سال تین ماہ ستائیس دن ہے، اس کے بعد ساتویں امیر شریعت کا دور ہے، اس مختصر دور میں حضرت نے امارت شرعیہ کے استحکام کے لئے متعدد اقدام کئے، تنظیم امارت کو مضبوط کرنے کے لئے ہرضلع میں صدر سکریٹری اورفعال کمیٹی کا انتخاب عمل میں آیا، بڑی تعداد میں مبلغین کی بحالی عمل میں آئی، تاکہ تنظیم وتبلیغ کے کاموں کو زمینی سطح پر وسعت دی جاسکے، اس کے لئے دربھنگہ ،مدھوبنی،مشرقی چمپارن، مغربی چمپارن،سیتامڑھی، مظفرپور، سوپول، سہرسہ، مدھے پورہ میں دودوروز قیام کرکے آپ نے امارت شرعیہ کے تنظیمی کاموں کو مضبوطی عطا کی،جھارکھنڈ میں امارت شرعیہ کے کاموں کو وسعت دینے کے لئے انتقال سے ایک ہفتہ قبل پانچ روز قیام کیاتھا اورمختلف سطح پر کام کو آگے بڑھانے کے منصوبوں کو آخری شکل دی تھی، اس سلسلے کا آخری پرائو اڈیشہ تھا، رمضان بعد اس کی ترتیب بنی ہوئی تھی لیکن موت نے اس کا موقع نہیں دیا، دارالقضاء کے کاموں کوو سعت بخشی اوراب ارسٹھ(۶۸) دارالقضاء کام کررہے ہیں، تعلیمی میدان میں امارت پبلک اسکول کے مبارک سلسلہ کا آغاز کیا ، گریڈیہہ کے بن کھجنجو اورپسکانگری رانچی میں نئے اسکول کھولے گئے، امارت انٹر نیشنل اسکول کی بنیاد اربارانچی میں ڈالی گئی ،پہلے سے چل رہے تمام تعلیمی اداروں کو معیاری بنانے کے سلسلے میں ضروری اورمناسب اقدامات کئے گئے، طلبہ وطالبات کے لئے الگ الگ نظام بنایاگیا، بنیادی دینی تعلیم کے فروغ ،عصری تعلیمی اداروں کے قیام اوراردو کی بقاء وتحفظ اورترویج واشاعت کے لئے پورے بہار اورجھارکھنڈ میں تحریک چلائی گئی اورضلعی سطح تک کی تعلیمی تنظیم قائم کی گئی ،بہار میں اس کے دوسرے مرحلہ کا آغاز ہوچکاتھاکہ اس عظیم حادثہ فاجعہ کی وجہ سے اس پروگرام کو ملتوی کرنا پڑا،بنیادی دینی تعلیم کے فروغ کے لئے خود کفیل نظام تعلیم کے جامع منصوبہ کو جو اکابر امارت نے بہت پہلے ترتیب دیا تھا، تھوڑے اضافہ کے ساتھ نظام تعلیم کے راہنمااصول کے نام سے شائع کراکر بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ میں تقسیم کرایاگیا، اردو کو داخلی سطح پر مضبوط اورسرکاری سطح پر حقوق کی یافت کے لئے اردو کارواں کا قیام عمل میں آیا، جس نے حضرت صاحب کی توجہ سے دوماہ کے اندر ہی اپنی ایک شناخت بنالی،حضرت امیر شریعت ؒ کے اس جملہ نے کہ اردو کو اب دودھ پینے والے مجنوں کی ضرورت نہیں، خون دینے والے مجنوں کی ضرورت ہے،ضرب المثل کی شکل اختیار کرلی۔ دفتری کاموں میں تیزی لائی گئی، اورجمودوتعطل کو دور کرنے کی ہرممکن کوشش کی گئی، امارت شرعیہ کے دوسرے تعلیمی اورتکنیکی اداروں ،خدمت خلق کے شعبوں کو چوکس ،مستعد اور مزید نفع بخش بنانے کا کام کیاگیا ۔
دفتری کاموں سے الگ ملی معاملات میں بھی ساتویں امیر شریعت کے دور میں مثالی کام ہوا، ۱۵؍اپریل ۲۰۱۸ء کو گاندھی میدان میں ’’دیش بچائو، دین بچائو‘‘ کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا،یہ تاریخ کا پہلا واقعہ تھاکہ گاندھی میدان مسلمانوں سے بھردیاگیاتھا، سیاسی لوگوں کی نیندیں اس تاریخی کامیابی سے اڑگئی تھیں اورسیاسی سطح پر اس کے بڑے مثبت اوردیرپا اثرات مرتب ہوئے تھے،بڑی سیاسی پارٹیوں کے راہنمائوں نے اس عظیم کامیابی پر مبارک باد دیتے ہوئے کہاتھاکہ اب سیاسی قیادت بھی آپ کے ہاتھ ہے، حضرت صاحب نے دلت مسلم اتحاد کے لئے بھی زمینی سطح پر کام کیا اوران کے راہنمائوں کے ساتھ کئی میٹنگیں کیں۔
سی اے اے ،این آرسی اوراین پی آر کے مرحلہ کے سامنے آنے کے پہلے ہی آپ کی دوررس نگاہوں نے آنے والے طوفان کا اندازہ لگالیاتھا اورکاغذات وغیرہ کی تیاری کے لئے امارت شرعیہ نے مہم کاآغاز کردیا تھا، پھر جب سی اے اے کا معاملہ آیاتو حضرت کی مضبوط قیادت میں پورے ہندوستان میں تحریک چلائی گئی اوربہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ میں قائم تقریبا تمام احتجاج ومظاہرہ کی سرپرستی امارت شرعیہ نے کی، تین طلاق کے مسئلہ پر پورے ہندوستان میں جو تحریک چلائی گئی اس میں امارت شرعیہ کی فعال اورمضبوط شراکت رہی، خواتین کے اتنے کامیاب جلوس نکلے جس کی مثال ہندوستانی تاریخ میں نہیں ملتی، دستخطی مہم کی کامیابی کا سہر ا بھی حضرت امیر شریعت کے سرجاتاہے۔
حضرت ہی کے دور مسعود میں امارت شرعیہ ٹرسٹ کا قیام عمل میں آیا،سرکاری طورپر اسے رجسٹرڈ کرایاگیا، رقومات کی منتقلی (کیش لیش) چیک کے ذریعہ ہونے لگی، بیت المال کے پورے نظام کو سرکاری ضابطے اوردستور کے مطابق کیاگیا، اورانکم ٹیکس میں چندہ دہندگان کو رعایت دینے کے لئے کئی سرکاری ضابطوں پر عمل کیاگیا۔
مرکزی حکومت کی طرف سے نئی تعلیمی پالیسی کا مسودہ سامنے آیا تو حضرت نے تفصیل سے اس کا جائزہ لیا، اہل علم کو بلاکر اس پر میٹنگ کروائی اور ترمیمات سرکار کو روانہ کیا، سرکاری سطح پراس مسودہ کو آخری شکل دی گئی اورسرکارنے منظور کرلیا توپھر سے حضرت نے اس کی خامیاں اجاگر کیں، امارت شرعیہ کے ذریعہ طویل قانونی مسودہ کا اردو میں ترجمہ کراکر لوگوں تک پہونچایا،بہار اورجھارکھنڈ کے خصوصی مشاورتی اجتماع کے صدارتی خطاب میں اس پر نقد کیا اوراس کی خامیاں لوگوں تک پہونچائیں۔
اس پانچ سالہ دور امارت میں شعبہ نشرواشاعت سے کئی معیاری کتابیں طبع ہوئیں، ان میں لڑکیوں کا قتل عام، اصلاح معاشرہ کی شاہ راہ ،حضرت سجاد مفکراسلام، مسلم پرسنل لا اورہندوستان ،قانون قضاء کی شرعی وتاریخی اہمیت ،خطبات جمعہ، حج اورعیدین کے احکام ومسائل ،مساجد کی شرعی حیثیت اورائمہ کرام کی ذمہ داریاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
امارت شرعیہ کے ترجمان نقیب کو انتہائی معیاری بنانے پر آپ نے خصوصی توجہ دی، مضامین کے انتخاب، ادارئیے، سیٹنگ،کاغذ وطباعت تک پر آپ کی نگاہ رہتی تھی اوربڑی شدت سے ہرہفتے اس کا انہیں انتظار رہتاتھا، انتقال سے چند گھنٹے قبل آپ نے نقیب کے کاغذ وغیرہ کے بارے میں اپنے رفقاء سے دریافت کیا، آکسیجن لگے رہنے اورآئی سی یو میں داخل ہونے کے باوجود ان کی خواہش نقیب کے تازہ شمارہ کو پڑھنے کی تھی، جس کی اجازت ڈاکٹروں نے نہیں دی، نقیب بارہ صفحات پر آتاتھا، اسے سولہ صفحات کا کیا، خود حضرت ایک زمانہ میں نقیب کے مدیر رہ چکے تھے اوراصغر امام فلسفی کے دور میں نقیب کا کام حضرت کے ذمہ رہا،جناب شاہد رام نگری کے دور میں ان کو ضروری مشورے دیا کرتے تھے،بلکہ اداریوں پر اکثروبیشتر عنوان حضرت ہی کے منتخب کردہ ہوتے تھے۔
حضرت کے پورے دور امارت پر مستقل کتاب تصنیف کی جاسکتی ہے، نقیب کے اداریے طوالت کے متحمل نہیں خود حضرت امیر شریعت نوراللہ مرقدہ ادارئیے مختصر لکھنے پر زور دیتے تھے ، کوئی موضوع ادارہ کے لئے ضروری ہوتا تو اخبار کے تراشے بھیج کر فرماتے ’’دیکھ لیجئے ،مناسب معلوم ہوتواس پر ایک ادارتی نوٹ لکھ دیجئے‘‘ ظاہر ہے کہ حضرت صاحب کے یہ جملے حکم کا درجہ رکھتے تھے، لیکن مدیر کے مقام ومرتبہ کا پاس ولحاظ بھی انہیں ملحوظ رہتاتھا۔
یہ مضمون طویل ہوتاجارہاہے، اورمجھے لگتاہے کہ حضرت صاحب فرمارہے ہیں، اب بس بھی کرو،پھرلانبا لکھنا شروع کردیا، اس لئے اتنے پرہی اکتفاکرتاہوں، ورنہ صحیح اورسچی بات تویہ ہے کہ
دامان نگہہ تنگ وگل حسن تو بسیار
(بشکریہ نقیب امارت شرعیہ)
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں