سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وزیر اعظم نریندر مودی جرمنی گئے ہی نہیں ہوتے تو کیا نیتا جی سبھاش چندر بوس کے تعلق سے بحث نہیں ہو سکتی تھی ۔اس سوال کا معقول جواب یہ ہے کہ اس بحث کے بیج کہیں تو دفن ہیں ، پھر جتنے قومی لیڈر ہیں انھیں اپنے صف میں کھڑے کرنے کا کام وزیر اعظم نریندر مودی اینڈ کمپنی کر رہی ہے۔سردار ولبھ بھائی پٹیل، تھوڑے پیمانے پر مہاتما گاندھی، ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکرکو اپنا بنا نے کے بعد اب نیتا جی سبھاش چندر بوس کا نمبر نظر آرہا ہے اور ایسا واضح طور پر نظر آرہا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کے جرمنی دورہ کے فوراًبعد نیتا جی سبھاش چندر بوس کا معاملہ زیر بحث آنا کوئی اتفاق یا حسن اتفاق بالکل نہیں ہے۔اس سے قبل ہندو مہا سبھا جیسی دیگر تنظیموں نے نیتا جی سبھاش چندر بوس کی موت کیلئے پنڈت جواہر لال نہروکومورد الزام ٹھہرایا تھا، اسلئے یہ جانچ کرنے کی کوشش پہلی مرتبہ ہورہی ہے ایسا نہیں ہے۔ان تمام باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ کانگریس کی قیادت میں ایسے لیڈروں کے ساتھ ہمیشہ نا انصافی ہوتی رہی ہے، اس تعلق سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ بنیادی تاریخی حقائق کو منظر عام پر لانے میں ہماری کوتاہی کار فرما ہے۔
ہم تاریخ کو جذباتی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں، اس لئے کسی بھی قومی لیڈر کا کوئی نقص تلاش کرنایا تلاش کردہ نقص کو قبول کرنا ہمیں گوارہ نہیں ہوتا۔پھر اس پر طرّہ یہ کہ مجاہد آزادی کہلانے والے لیڈران کی تقسیم ان کی ذات، زبان اور صوبہ یاعلاقے کے لحاظ سے ہوئی۔اسلئے آزادی سے قبل تنبولی اور دیگر ذات کے لوگوں میں مقبول لوک مانیہ تلک یہ آزادی کے بعد صرف برہمنوں کے ہی ہوکر رہ گئے اور ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر دلتوں کے ہوکر رہ گئے۔ پھر تاریخ ساز لیڈران بھی انسان ہی تھے ، اور یہ تاریخ ساز لیڈران میں کوئی نقص یا کمی نہیں ہوتی ، اس سوچ کو ہم نے اپنے ذہن میں پیوست کرلیا ہے ۔
امریکہ اور انگلینڈ میں کسی بھی اہم باتوں کا سرکاری ریکارڈ 10سال بعد خود بخود منظر عام پر آجاتا ہے۔اگر ایسا نہ کیا جائے یہ بات اس شعبہ کو محسوس ہوتی ہو تو وہ اس کی مدت 25سال تک کر سکتے ہیں، یہ مدت ختم ہونے کے بعد تمام معلومات مع دستاویزات عوام کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ اگر کسی بھی سنگین معاملہ کو 50سال کا عرصہ گزرجاتا ہے تووہ معاملہ تمام دستاویزات کے ساتھ خفیہ او ر سرکاری چنگل سے نکل کر منظر عام پر آجاتا ہے۔اس طرح تاریخ کا جائزہ لینے کا موقع مستقبل میں مل سکتا ہے اور ہماری لغزیشوں کا ازالہ کرتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔اسی وجہ سے بل کلنٹن کے دور حکومت میں ان کے وزیر داخلہ مینڈیلین البرائٹ نے ایران سے کھلے عام معافی مانگی تھی۔کیوں کہ امریکہ کے سابق صدر ڈوائٹ آئسن ہاؤران کی طرف سے پچاس کی دہائی میں ایران کے محمد موسیٰ دیغ کے ساتھ نہ انصافی ہوئی تھی۔ موسیٰ دیغ کی سرکار کا تختہ پلٹنے کیلئے امریکی انٹلی جینس نے آئسن ہاؤر کے حکم پر ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ و ہ ہماری خطا تھی یہ بات انھوں نے سرعام تسلیم کی ۔ اس طرح باقائدہ طور پر اپنے ملک کی خطا قبول کرنے میںآئسن ہاؤر کی شان میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔کسی بھی شخص کے تمام فیصلے ہمیشہ درست ہوتے ہیں ایسا نہیں ہے۔پھر ہماری غلطی سرزد ہوئی ، ایسا کہنے میں کوئی توہین نہیں ہے۔اس طرح کی سوچ اس وقت ہمارے ذہن و دل میں پیدا ہوگی جب ہم تاریخ سے اپنا جذباتی لگاؤ ترک کردیں۔اس سے قبل انگلینڈ کے باوقار مقبول و معروف شخصیت وینسٹن چرچل کے تعلق سے انگریز سرکار نے یہ بات کھلے عام تسلیم کی کہ وینسٹن چرچل کے کئی فیصلے درست نہیں تھے۔انھوں نے یہ بات صرف اس ملک کے سرعام بیان کرنے کے نافذ منصوبہ کی وجہ سے ہی کی تھی ، جو ہمارے ملک میں رائج نہیں ہے۔انگلینڈ میں تاریخی دستاویزات عام کرنے کی ایک ہی پالیسی ہے، امریکہ کی طرح اس میں دیگر مراحل حائل نہیں ہیں۔اس وجہ سے کسی معاملہ کو جب 30سال ہوتے ہیں تو وہ معاملہ مکمل طور پرمع دستاویزات عوام کے سامنے آجاتا ہے۔کسی کے بھی جذبات مجروح ہونے کا کوئی خوف اس اہم کام میں رکاوٹ نہیں بنتا۔
مگر افسوس ! صد افسوس کے 1947کو ہمارا ملک آزاد ہوا ، اس وقت کیا کیا معاملات پیش آئے ، اس کے حقائق و دستاویزات اب تک خفیہ پن کہیے یا ہر دور کے تنگ مزاج سرکارکے چنگل سے نکل نہیں پارہے ہیں۔اس کی معلومات یا تفصیل ہمیں ہماری سرکار سے نہیں مل رہی ہے۔اس کے لیے برطانیہ کے وزارت خارجہ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ہندوستان کے اقتدار سے دستبردار ہونا اس وقت کے سپر پاور انگلینڈ کے لیے توہین آمیز بات تھی۔مگر اس کے باوجود اس وقت کے تمام حالات اور تفصیلات انھوں نے غیر مشروط طور عوام کے سامنے پیش کیے۔ اسی طرح 1962کی چین کے ساتھ ہونے والی جنگ میں کس نے کونسا فیصلہ لیا اس کی تفصیل سے ہم آج بھی ناآشنا ہیں، گزشتہ سال اس تعلق سے جو معلومات شائع ہوئی وہ بیرون ملک کے کتاب میں۔اس طرح کی ہماری پالیسی اورطرز سیاست کی وجہ سے ہمیں ہمارے ہی حالات و معاملات کو دوسروں کے عینک سے دیکھنے کی نوبت پیش آتی ہے۔ اس جنگ کے دستاویز عام کرنے کے لیے آج بھی ہم انکار ہی کر رہے ہیں۔اس میں سب سے زیادہ قابل تشویش بات یہ کہ تمام سیاسی پارٹیاں اس پر متفق ہیں۔گزشتہ سال جب ارون جیٹلی اپوزیشن پارٹی لیڈر تھے ، اس وقت انھوں نے کانگریس سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ چین سے ہونے والی جنگ کے دستاویزات کو عام کیا جائے، جس کی وجہ ارون جیٹلی کانگریس اور پنڈت نہرو کی بدنام کرنا چاہتے تھے۔مگر اقتدار میں آنے کے بعد جیٹلی نے اس مطالبہ کو مسترد کردیا۔اس کو ہی کہتے ہیں ٹوپی گھمانا، اس ٹوپی گھمانے کی وجہ تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ جیٹلی سوچ رہے ہیں کہ خفیہ معلومات عام کرنے کا اگر قانون جاری کردیا جائے تو پھر بی جے پی سرکار کے مخالف معلوما ت بھی عام ہوسکتی ہے، اس کا ڈر ان کے دل و دماغ میں ضرور ہوگا۔
اگر نیتا جی سبھاش چندر بوس کا کیا ہوا اس تعلق سے مودی سرکار کو واقعی حقائق سے با خبر ہونا ہے تو پھر امریکہ و انگلینڈ جیسے ممالک کی طرح ایک مقررہ مدت کے بعد سرکاری دستاویزات عام کرنے کی پالیسی کو نافذ کرنیہوگی،ہندوستانی تاریخ کو اس طرح کے پالیسی کی سخت ضرورت ہے۔
جواب دیں