گذشتہ ماہ بھٹکل سے لکھنؤ جاتے ہوئے بمبئی ایرپورٹ پر اگلے جہاز کے لیے تھکادینے والے ۶/گھنٹے کے طویل انتظار میں بیٹھاہوا تھا،ایک روز نامہ کے خصوصی آرٹیکل پر جب نظر پڑی تو نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، بہت دیر تک اس خبر پر یقین نہیں آیا ،ہوش وحواس اڑادینے والی اور دل دہلادینے والی خبر یہ تھی کہ گذشتہ صرف ایک ماہ کے دوران پچاس سے زائدمسلم دوشیزاؤں نے مغربی بنگال میں محبت کی شادیوں کے خاطر آگ کے اردگرد پھیرے لگاکر رشتہ ازدواج میں بندھنے کا مظاہرہ کیا ، دوسرے الفاظ میں اسلام سے نکلنے اور ہندوازم کے قبول کرنے کا اعلان تو نہیں کیا لیکن عملاً وہ اسلام سے نکل گئیں اور شرک وکفر کے دلدل میں پھنس گئیں۔
مسلمانوں کی بے چینی فطری تھی لیکن ۔۔۔:۔ دو ماہ قبل آگرہ میں گھر واپسی یعنی ارتداد کے جو واقعات میڈیا کے ذریعہ امت مسلمہ تک پہنچے اس پر پورے ملک میں عام مسلمانوں کا بے چین ہونا اور خواص کا فکر مند ہونا فطری امر تھا ،مسلمانوں میں مرورزمانہ کے باوجود ہزارکمزوریاں پیدا ہوں اور گناہوں کے دلدل میں بھی وہ پھنس جائیں یہ عین ممکن ہے لیکن ایمان وعقیدہ کے معاملہ میں پوری اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ بڑے غیرت مند اور حمیت پسند واقع ہوئے ہیں ، وہ لمحہ بھر کے لیے بھی الحاد وارتداد کو برداشت نہیں کرسکتے اور اس سلسلہ میں اپنی جان کی بھی قربانی دے کر دین حنیف اور شریعت مطہرہ سے ان کی وابستگی کے ناقابل یقین مظاہر تاریخ نے دیکھے ہیں ، افسوس اس بات کا ہے کہ آگرہ کے گھرواپسی کے واقعہ پر تو ملک بھر کے مسلمان بے چین وبے قرارہوگئے لیکن مغربی بنگال کی طرح ملک کے ہر صوبہ میں تیزی سے ہونے والی اس خاموش گھر واپسی کو مسلمانوں نے ارتداد نہیں سمجھا، حالانکہ ہمیں شک ہی نہیں یقین ہے کہ آگرہ میں گھر واپسی کا واقعہ جعلی تھا اور کسی نے بھی اسلام کو خیر باد نہیں کہا تھا بلکہ اس منظر میں خود غیر مسلموں کو ہی ٹوپی پہنا کر مسلمان دکھایا گیا تھا۔
ارتداد صرف اس کا نام نہیں :۔ ایک سچا مسلمان اور ایمان کے بنیادی تقاضوں پر گہری نہ سہی عام سی نظر رکھنے والا مومن بھی اس کو سمجھتاہے کہ ارتداد صرف بھرے مجمع یا سب کے سامنے آکر اسلام سے نکل جانے کے اعلان کا نام نہیں ہے ، یقیناًیہ بھی ارتداد کا گھناؤنا مظہر ہے، لیکن ایک شخص ایمان کے اعلان اور اسلام کے اظہار کے ساتھ اللہ تعالی کی بے پناہ قدرتوں،لامحدود اختیارات اور تصرفات کے سلسلہ میں کسی وقت تذبذب اورشک وشبہ میں مبتلا ہوجاتاہے تو یہ بھی ارتداد والحاد کی ایک قسم مانی جاتی ہے،اس کو فکری ارتداد کہاجاتاہے اور ایسے شخص کا بھی اللہ تعالی کے پاس شمار ملحدین ومرتدین میں ہی ہوتاہے، جس طرح شرک صرف کسی مندر میں جاکر گھنٹی بجانے یا بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہونے یا ہاتھ جوڑنے ہی کا نام نہیں بلکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں خالق کائنات اور رب العالمین کی تدبیر اور تنظیم کی صفت میں بھی کسی بڑی سی بڑی ہستی یا مخلوق کوشریک سمجھنے کا نام بھی شرک ہے ۔
ہمارے آس پاس روزانہ ارتداد کے مظاہر :۔ عہد نبوی سے آج تک الحمدللہ ارتداد کے مظاہر تو پوری اسلامی تاریخ میں نہ ہونے کے برابر ہیں ، لیکن موجودہ زمانہ کی ترقیات اور جدید وسائل کے بے ہنگم استعمال، مغربی سامراج کی منصوبہ بندکوششوں اور نئے عالمی نظام تعلیم کے تناظر میں اسلام دشمن طاقتیں بہت بڑی تعداد میں ہمارے نونہالوں کو ذہنی اورفکری اعتبار سے غیر شعوری طور پر نظر نہ آنے والے ارتداد سے دوچار کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں،آج ہماری نئی نسل نماز روزہ کی تو پابند ہوتی جارہی ہے ظاہری اسلامی شکل وصورت میں بھی ترقی نظر آرہی ہے ،شعائر دین سے وابستگی پچھلی نسل سے زیادہ اس نسل میں نظرآرہی ہے ، لیکن دین حنیف پر خوداعتمادی، اسلام کے دین فطرت ہونے اور زندگی کے تمام چیلنجوں کا سامنا کرنے کی اس کی صلاحیت پریقین میں روز بروز کمی ہورہی ہے ، خو دہمارے بعض مسلم دانشوروں کی زبان سے روز یہ جملے سننے کو مل رہے ہیں کہ’’ نئے عالمی تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے مسلمانوں کو روشن خیالی کا ثبوت دینا چاہئے ‘‘ دوسرے الفاظ میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بدلتے عالمی حالات میں رحمت عالم ﷺ کے نقش قدم پرچلنے پر اصرار نہیں کرناچاہیے۔
مجھے کچھ ہفتے قبل ملک کے ایک بہت بڑے مسلم تعلیمی ادارے کی طرف سے ایک انٹرنیشنل سمینار کا دعوت نامہ موصو ل ہوا ،اس میں سمینار کے مقالہ نگاروں کے لیے جو موضوعات دئیے گئے تھے اس میں ایک اہم عنوان یہ تھا ’’ موجودہ بدلتے عالمی حالات کے تناظر میں اسلام کی نئی تشریح وتعبیر‘‘ ۔ اس کا مطلب صاف یہ تھا کہ سمینارکے داعی اسلام کو ازکار رفتہ سمجھ رہے ہیں اور ان کو اس بات کا یقین ہے کہ ہمارا ابدی وآفاقی مذہب اسلام موجودہ چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا،اس لیے اسلام کی ازسرنو تشریح کی ضرورت ہے بالفاظ دیگر اسلام کے قیامت تک کے لیے کافی وشافی ہونے کا وہ انکار کررہے ہیں یعنی وہ سمجھ رہے ہیں کہ قرآن کے احکام ومسائل صرف عہد نبوی تک کے لیے تھے، اب اس کی ہدایات میں حذف واضافہ کی گنجائش ہے ،ایک کمپنی میں کام کرنے والی غیر مسلم نوجوان خاتون نے اپنے ہم منصب مسلمان دوست سے پوچھا کہ اسلام میں مردوعورت کو برابر کے حقوق دئیے جانے کے دعوے کئے جاتے ہیں تو پھر مرد کی طرح عورت کو طلاق کا حق کیوں نہیں دیاگیاہے؟ اس نے جواب دیا کہ اسلام کی یہ ناانصافی خود میری سمجھ سے باہر ہے ، گویا وہ مسلم نوجوان غیر محسوس طریقہ پراللہ تعالی کے حکیم وخبیر اور بصیر وعلیم ہونے کا انکار کررہاتھااور نعوذ باللہ یہ سمجھ رہاتھاکہ خواتین کو طلاق کا حق نہ دے کر ربّ کائنات کی طرف سے ناانصافی ہوئی ہے ،ایک صاحب کو بتایا گیا کہ آپ کا بچہ جس اسکول میں پڑھتاہے وہاں ہر دن صبح کی دعائیہ محفل میں وہ نعوذ باللہJesus is son of God یعنی حضرت عیسی کو اللہ کا بیٹا کہتاہے ، کہنے لگے وہ تو تعلیمی اور اسکولی ضرورت ہے اس طرح وقتی طور پرزبان سے یہ جملے کہنے سے کیا فرق پڑتاہے ،ہم دل سے کہاں اللہ کے لیے بیٹے کا تصور رکھتے ہیں ؟ یعنی وہ زبان حال سے کہہ رہے تھے کہ ضرورتاً اور مذاقاً بھی نعوذ باللہ شرکیہ جملہ اداکیاجاسکتاہے ، کالج کی تعلیم کے دوران ایک صاحب کی غیر مسلم خاتون سے آشنائی ہوئی وہ اسلام لانے پرآمادہ نہیں ہوئی ،اسی حالت میں اس کی اس سے شادی ہوئی ، جب بچہ ہوا تو ماں نے ہندومت کے مطابق اس کو مندر لے جاناشروع کیا ،یہاں تک کہ وہ بڑا ہوکر غیرمسلم ہی رہا،اس تعلق سے اس نوجوان سے اس کے دوستوں نے پوچھا،تو جواب تھا کہ اسلام میں زور زبردستی نہیں ،میں کیوں اپنے بیٹے کو اسلام لانے کے لیے مجبور کروں ،ایک صاحب کی بچی غیر مسلم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھ گئی ، ان کے والد سے جو نہایت دیندار بھی تھے ،پوچھا گیا کہ یہ کیا ہوا؟ تو کہنے لگے میری بچی پڑھی لکھی ہے، اپنے فیصلے خودکرتی ہے ، میرے لیئے صرف اتنا کافی ہے کہ وہ اپنے ہونے والے شوہر کے ساتھ خوش رہے یعنی دوسرے الفاظ میں وہ کہہ رہے تھے کہ مجھے اس کے اسلام سے نکلنے کا کوئی افسوس نہیں ،آخرت کی تباہی پر دنیا کی یہ خوشحالی ہی مجھے عزیز ہے،ایک خاتون کے سلسلہ میں کچھ دن قبل دارالقضاء نے فیصلہ دیا کہ تم مطلقہ ہو،عدت کے بعد تم نفقہ کا اپنے سابق شوہر سے مطالبہ نہیں کرسکتی،وہ نہیں مانی ،کورٹ گئی ، بالآخر عدالت نے اس کے حق میں فیصلہ دیا اور تاحیات اس کے نفقہ کا سابق شوہر کو پابندکیا،اس پر اس سے پوچھاگیا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ،کہنے لگی:۔ ذاتی خانگی مسئلہ میں تم مذہب کو نہ لاؤ یعنی وہ دبے ہوئے الفاظ میں کہہ رہی تھی کہ صرف عبادات کی حد تک میں مسلمان ہوں اور معاملات ومالیات میں اللہ کے حکم کو تسلیم نہیں کرتی ۔
ان سب مذکورہ واقعات کی روشنی میں آپ کو یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگے گی کہ ہمارے اردگرد اورآس پاس صرف آگرہ یا مظفر نگر میں گھر واپسی کا واقعہ نہیں ہوا ہے بلکہ ہمارے درمیان موجودہ خاندانوں میں روز گھرواپسی ہورہی ہے اور ان کے اسلام کے دائرہ سے نکلنے کا نہ صرف ان کو بلکہ ان کے والدین کو بھی احساس نہیں ہورہاہے ،ارتدادوشرک تو برا تھا ہی لیکن یہاں عدم احساس ارتدادوشرک تھا جو اس سے زیادہ برُاتھا۔
لیکن امت کو اس مسئلہ کی نزاکت کا احساس نہیں :۔ عالمی سطح پر آپ نظر دوڑائیے تو مسلمانوں کے مسائل بے شمار، پریشانیاں لامحدود ،آزمائشوں کا سلسلہ دراز سے درازتر ،مراقش سے لے کر چین تک اورامریکہ سے لے کر آسٹریلیا تک سب اس کے لیے فکر مند ہیں ، مسلمانوں کو دہشت گردی کی بدنامی سے بچانے کے لیے مکہ مکرمہ میں کانفرنس ہورہی ہے ،تعلیمی مسائل کے حل کے لیے ترکی میں سمینار ہورہاہے ،ان کے معاشی استحکام کے لیے ملیشیا میں سربراہان مملکت سرجوڑ کر بیٹھ رہے ہیں ، خو دہمارے ملک میں مسلمانوں کے لیے ملازمتوں میں ریزرویشن کے لیے روزاحتجاجات کی خبریں سننے میں آرہی ہیں ، بابری مسجد کی بحالی کے لیے اب بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں ،اوقاف کی املاک کی واپسی کے لیے وفود دروفود کااعلی احکام سے ملنے کاسلسلہ جاری ہے ،ملت میں تعلیمی بیداری کے لیے کارواں نکل رہے ہیں ، امت کے ہر اس مسئلہ کے لیے سرجوڑ کر بیٹھا جارہاہے جس کا حاصل زیادہ سے زیادہ اس دنیا کی ترقی ونیک نامی اور ضروریات زندگی سے ہے ،لیکن غیر شعوری طور پر نئی نسل میں سرایت کرتے ارتداد کی روک تھام ،اس کے اسباب ومحرکات کو جاننے، اس کو حل کرنے اور اس کی روک تھام کے لیے اس موضوع پر عالمی یا ملکی سطح پر کسی کانفرنس ،سمینار یا مشاورتی اجلاس کی کیا آپ نے کوئی خبر سنی ہے؟ کیا اس سلسلہ میں وسیع پیمانہ پر سنجیدہ یا خاموش منظم تحریک کا آپ کو پتہ چلاہے ؟ ہم سب کاجواب یقیناًنفی میں ہے۔
مسلمانوں کی پہچان اور ایمان والوں کی امتیازی شان ہی توحید خالص اور شرک وکفر کے شائبہ سے پاک عقیدہ ہے ،آج بڑی تیزی سے اس کی مستحکم عمارتوں میں شگاف پڑرہے ہیں ،ہردن اس کی پختہ دیواروں میں دراڑ یں نظر آرہی ہیں ،اس کی بنیادوں میں کمزوریاں واقع ہورہی ہیں ،اسی طرح اسلامی معاشروں میں اسلام کے مظاہر تونظر آرہے ہیں ،حقائق ناپید ہورہے ہیں ،ظاہر تو دن بدن پرکشش ہورہاہے لیکن اندر سے روح ختم ہوتے جارہی ہے ، مذہب سے ظاہری وابستگی میں تو ترقی ہورہی ہے لیکن دین پر خود اعتمادی کو گرہن لگ رہاہے ،یہ مسئلہ اتناہلکا بھی نہیں ہے کہ اس کو سرسری طورپر لیا جائے ،مسئلہ زندگی اور موت کاہے ،اس امتیازی شان اور توحید خالص کی نعمت کے بغیر ہماری کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے ، ایمان کی قربانی دے کر ہمیں زندہ رہنے کے بجائے مرجانا گوارہ ہے ، اس کے بغیر ملنے والی تعلیمی ترقی سے ہمارے نزدیک جہالت بہتر ہے ،اس خالص وصاف عقیدہ کے بغیر حاصل ہونے والی کسی بھی عزت وشہرت اور نیک نامی کو ہم لاحاصل سمجھتے ہیں۔
اس کے اسباب ومحرکات:۔ عام طور پر لو گوں کا خیال ہے کہ ملت کے نوجوانوں میں پیدا ہونے والی اس ناگفتہ بہ صورت حال کی وجہ زمانہ کی ترقی ،نت نئے لہوولعب کے آلات کا وجود اور دولت کی ریل پیل وبہتات ہے ، لیکن انسانی نفسیات پر نظر رکھنے اور قوموں کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ اس نازک اور سنگین صورت حال کے لیے مذکورہ بالااسباب ووجوہات ذمہ دار نہیں ہیں عیش وعشرت کے سامان او راس کے محرکات سے بے دینی تو آسکتی ہے، لادینیت نہیں ، بے حیائی تو عام ہوسکتی ہے، الحادنہیں ،اخلاقی انارکی تو ہوسکتی ہے، ارتداد نہیں،الحاد وارتداد، لادینیت اوردین وشریعت پر عدم اعتماد کا پس منظر ہمیشہ دوسرا ہی رہاہے ،اس کی بنیادی وجہ دین کی بنیادوں اور دینی تعلیم سے نئی نسل کی ناواقفیت اوربچپن سے اللہ تعالی کی ذات عالی کی کامل صفات واختیارات اور لامحدود تصرفات کے عقیدہ کو اپنے نونہالوں کے دلوں میں پیوست کرنے میں والدین کی کوتاہی اور عدم توجہ ہے، اگر بچپن سے بچے توحید خالص کے حامل ہوں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی محبت ان کے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہو ،مذہب اسلام پر ان کو خود اعتمادی کی دولت سے مالامال کردیاگیا ہو ،دین وشریعت کے سلسلہ میں ان کواس بات کا پختہ یقین دلایاگیاہوکہ اس سے بڑھ کر کائنات کی کوئی نعمت نہیں اور اس دولت ایمان کا دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت سے بھی موازنہ نہیں کیا جاسکتا اور ہمارا یہ دین زندگی کے ہرموڑ اور ہر مرحلہ پر ہماری ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی رہنمائی کی صلاحیت رکھتاہے تو پھر کوئی شبہ نہیں رہ جاتاکہ یہ بچہ آگے چل کر دنیا کی رنگ رلیوں میں ملوث ہونے اور بے حیائی واخلاقی انارکی کے آخری مرحلہ کوچھونے کے باوجود شرک وکفر اور ارتداد والحاد میں بہہ جانا تو دور کی بات اس کے تصور ہی سے اس کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں اور اس کے امکان اورقرینوں ہی سے وہ ناقابل یقین غیض وغضب کا شکار ہوکر ایمان واسلام کی بقا اور اس پر استقامت کے لیے اپنی جان دینے کے لیے بھی آمادہ ہوجائے۔
موجودہ نظام تعلیم ونصاب بہی اس کا اہم سبب ہے :۔ امت کے معصوم نونہالوں کو اسلام سے برگشتہ اور دور کرنے میں ایک اہم بنیادی سبب ہمارا موجودہ تعلیمی نظام ونصاب بھی ہے،اسلام دشمن طاقتیں صدیوں کی اپنی ناکام کوششوں کے بعد اس نتیجہ پرپہنچی ہیں کہ اب مسلمانوں کو اس دنیا سے ختم کرنا تو ممکن نہیں رہا البتہ صرف اتناکیاجاسکتاہے کہ ان کو برائے نام مسلمان رہنے دیا جائے اور ان کے اندرون سے اسلام کی محبت وعظمت اوردین پرخود اعتمادی کی دولت کو اس طرح کھوکھلاکیا جائے کہ خود ان کو اسلام سے دورہونے ہی کا نہیں بلکہ اسلام سے نکلنے کا بھی احساس نہ ہونے پائے، اس کے لیے مغرب نے عالمی سطح پرایسے نظام تعلیم کو منظم منصوبہ کے تحت رواج دینے میں کامیابی حاصل کی ہے جس سے کم وقت میں ان کے ان ناکام عزائم کی تکمیل ہوئی ہے،عالمی سطح پر موجودہ مسلم حکمرانوں اور عرب سربراہوں کی طرف سے آج روز اسلام پسندوں کو کچلنے اورشدت پسند دین داروں سے مقابلہ کرنے کے لیے خود مغربی ویوروپی حکمرانوں سے زیادہ سخت جواعلانات سامنے آرہے ہیں یہ اسی مغربی نظام تعلیم سے خوشہ چینی کا نتیجہ ہے ،حیرت ہوتی ہے کہ صہیونی طاقتوں نے بڑی چالاکی سے مسلم نوجوانوں کواب اس نظام تعلیم سے آراستہ کرنے اور یوروپ وامریکہ میں لے جاکر ان کے رنگ میں رنگنے کے بجائے خاموشی وعیاری سے ہرملک میں موجود نظام ونصاب تعلیم ہی سے اپنے اس ناپاک منصوبہ کو اس طرح مربوط کردیاہے کہ خود اپنے ملک میں رہتے ہوئے اور اپنے ملکی نظام تعلیم سے وابستگی کے ساتھ ہی ان میں اپنے مذہب ودین سے نفرت پیداہوجاتی ہے جوکبھی یوروپ وامریکہ کی تعلیم گاہوں میں جاکر ہوتی تھی ، یہ اہم موضوع ایک مستقل مضمون کا طالب ہے، ہم اس کا جائزہ اپنے کسی علیحدہ مقالہ میں ان شاء للہ لیں گے۔
سردست اس کا فوری علاج کیا ہوسکتاہے :۔ الحاد وارتداد کے اس سنگین فتنہ وآزمائش سے اپنے نونہالوں کو بچانے کا فوری اور ممکنہ سردست حل صرف یہی ہے کہ ہم اپنی اولاد کو ہوش سنبھالنے کے بعد سے ہی اسکولی تعلیم کی تکمیل یعنی دسویں یا بارہویں تک پہنچتے پہنچتے ان کو اسلام کی بنیادی تعلیمات اور احکام وفرائض اور خصوصیت سے عقیدہ توحید اورسیرت رحمۃ للعالمین ﷺ کی جزئیات وتفصیلات سے اس طرح واقف اور آگاہ کرائیں کہ زندگی کے کسی بھی مرحلہ میں اسلام سے متعلق ان کے قدم ڈگمگانہ سکیں اور دین وشریعت کے سلسلہ میں ان کے اذہان ہرطرح کے شکوک وشبہات سے محفوظ رہ کراپنے آفاقی مذہب پر ان کوسوفیصد ی خود اعتمادی حاصل ہو،اس کے لیے ان کوروایتی طورپر صرف قرآن مجید ناظرہ کی تعلیم سے آراستہ کرنے یا محلہ کی کسی مسجد میں آدھ پون گھنٹہ کے لیے شبینہ مکتب میں بھیج کرقرآن کی تصحیح کرانے پر اکتفاکرناکافی نہیں ہوگا بلکہ توحید خالص کی تمام مبادیات سے ان کوواقف کرانا ،قرآن مجید کی تصحیح کے ساتھ عقیدہ کی جزئیات ،روز مرہ کے بنیادی فقہی مسائل وسیرت نبوی کی کلیا ت اور اسلام پر خود اعتمادی پیدا کرنے والی تعلیمات سے ان کو آراستہ اور واقف کرانا ناگزیر ہے ، اس کے لیے ہمارے صباحی وشبینہ مکاتب کا موجودہ مروجہ نظام ناکافی ہے ، اس میں توسیع اور اس میں مذکورہ بالا ان ضروریات دین کے اضافہ کی سخت ضرورت ہے ، اسی کے ساتھ ان کے اسکولوں ہی میں ان کے لیے اس ضرورت کی تکمیل کابھی نظم کیاجاناچاہیے ، ملت کی اہم ترین ضرورت کی تکمیل کا صحیح نظم موجودہ حالات میں بآسانی ہمارے کل وقتی مدارس عربیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام ہی ہوسکتاہے جس کے لیے مندرجہ ذیل قابل عمل وآسان تجاویز کو مدارس کے ذمہ دران اپنے بجٹ میں کسی بڑے اضافہ کے بغیر بھی انجام دے سکتے ہیں ۔
* جس علاقہ میں مدرسہ واقع ہے اس پورے تعلقہ میں یا کم از کم پانچ چھ کلومیٹر کے دائرہ میں موجود ان تمام اسکولوں میں جو مسلم انتظامیہ کے تحت چلتے ہیں ان کے ذمہ داران کی طرف سے دینی تعلیم کا استاذ نہ رکھنے یا اس کی تنخواہ کا انتظام نہ کرنے پر روزانہ ایک پریڈ اخلاقیات کی تعلیم کے نام سے جس کی ہندوستان کے دستور کی رو سے تمام تعلیمی نجی اداروں ہی کو نہیں سرکاری اسکولوں کو بھی اجازت ہے اپنی طرف سے تنخواہ دے کرمدارس والے اپنا ایک استاذ مقرر کریں، اگر مدرسہ کے آس پاس ایسے دس بارہ اسکول بھی ہوں تو وہ دواستاذوں کے ذریعہ باری باری ایک ایک پریڈ میں دن بھر پانچ چھ اسکولوں میں پہنچ کر روزانہ دینیات ،قرآنیات اور اسلامیات کی تعلیم کا نظم ہوسکتاہے ،اگر آپ ایک استاذ کواس کی گاڑی کے پیٹرول کے ساتھ دس ہزار بھی ماہانہ تنخواہ دیں تو ہرماہ دواستاذوں کے ذریعہ دس اسکولوں کے آٹھ سوبچوں کی بنیادی دینی تعلیم کا نظم ہوسکتاہے دوسرے الفاظ میں جس مدرسہ میں تین سوطلباء کے لیے پچیس لاکھ روپئے سالانہ خرچ ہوتے ہیں اس میں مزیدصرف دو ڈھائی لاکھ کے اضافہ سے وہ اپنے مدرسہ کی خدمت کے دائرہ کو وسیع کرتے ہوئے کم وقت اور کم خرچ میں آٹھ سوبچوں کی دینی تعلیم کا نظم کرسکتے ہیں۔
* اگر مدرسہ کی طرف سے اس مالی انتظام میں دشواری ہویا اہل مدارس کو اس نئے دینی تعلیمی نظام کو اپنی طرف سے شروع کرنے میں میں تامل ہو تو کسی بھی گاؤں میں ایک سوسائٹی یا ٹرسٹ کچھ حمیت پسند مسلمانوں کی طرف سے قائم کرکے اس کے تحت نوجوان علماء کی خدمات اس منصوبہ کے لیے حاصل کی جاسکتی ہیں اور اس کے تحت صرف پانچ چھ علماء کاتقرر کرکے کم از کم پچیس تیس اسکولوں میں دوڈھائی ہزار طلباء کی پختہ دینی تعلیم کا نظم کیا جاسکتاہے ، مان لیجئے ان علماء میں سے ہرایک کو ماہانہ دس ہزار بھی تنخواہ دینی پڑے توشہر میں 40/50صاحب حیثیت افراد کی نشاندہی کرکے ان سے ماہانہ صرف ایک ہزارروپئے دینی تعلیم کے اس منصوبہ کو سامنے رکھتے ہوئے آسانی سے وصول کئے جاسکتے ہیں ،اس کا کامیاب تجربہ ملک کے مختلف علاقوں میں کیاجارہاہے ،بالخصوص اورنگ آباد میں مجلس اشاعت اسلام کے نام سے ادارہ قائم کرکے کئی حمیت پسند نوجوان علماء کے اشتراک سے اس کا کامیاب بیڑا اٹھایاگیاہے اور وہ اس میں بڑی حدتک کامیاب بھی ہیں۔
* سنگاپور کے گذشتہ دعوتی سفر کے دوران ہم نے ایک قابل تقلیدنمونہ دیکھا کہ پوراملک صرف 28کلومیٹر پرپھیلاہواہے اورآمدنی کے قدرتی وسائل نہ ہونے کے باوجود ایک طرف سنگاپور کسی امریکی یا یوروپی ملک سے ترقی میں کم نہیں تو دوسری طرف وہاں کے مسلمانوں میں اسلام پر نئی نسل کی ایمان کی بڑی فکر بھی موجود ہے ، وہ اس کے لیے نت نئے طریقوں کو اپنا رہے ہیں ،مثلاً اتوار کے دن صبح سے ظہرتک شہر کے مختلف علاقوں میں اسلامیات کے کلاسس جگہ جگہ قائم ہیں جہاں باضابطہ کل وقتی اسکولوں اور مدرسوں ہی کی طرح دینی تعلیمی نظام ہے،چارگھنٹہ کے و قفہ میں یونیفارم کے ساتھ بچے آتے ہیں اور مختلف پریڈوں میں متعدد مضامین قرآن وحدیث اور فقہ،سیرت نبوی وغیرہ کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ،باقاعدہ اس کے سہ ماہی ،ششماہی اور سالانہ امتحانات ہوتے ہیں،اس طرح سرکاری نصاب تعلیم کی خرابیوں کا بڑی حد تک اس دینی تعلیمی نظام سے ازالہ ہوجاتاہے،بھٹکل میں قائم مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی کے تحت ترتیب شدہ عصری اسکولوں کے لیے اسلامیات کے نام سے جو نصاب گذشتہ پندرہ سالوں سے چل رہاہے اسی اسلامیات کے نصاب کو وہ اپنے سنٹروں میں سنگاپور میں پڑھارہے ہیں ، سنگاپور کے اس آسان اور قابل عمل ہفتہ واری دینی تعلیم کے نظام کو ہمارے ملک میں بھی بسہولت شروع کیا جاسکتاہے ۔
* ہمارے مدارس میں اسکولوں کی گرمائی چھٹیوں اور سالانہ تعطیلات میں پندرہ روزہ یا مہینہ بھر کے اقامتی کلاسس ان اسکولوں وکالجس کے بچوں کے لیے شروع کئے جائیں ،اس طرح سال میں دو دفعہ ان کو مدارس کے دینی وروحانی ماحول میں رہنے کا موقع بھی ملیگا اور تربیتی نقطۂ نظر سے بھی یہ نظام ان کے لیے مفید ہوگا، لیکن شرط ہے کہ مدارس کے عام اقامتی نظام سے ہٹ کر ان کے لیے خصوصی تربیتی وتعلیمی نظام ترتیب دیاجائے،ساتھ ہی رہنے سہنے اور کھانے پینے کا بھی نظم اس طرح پرکشش رکھاجائے کہ خوشحال گھرانہ کے طلباء بھی بے تکلف اس میں شریک ہوسکیں، مدارس کے آس پاس اور قریب کے طلباء اگر رات مدرسہ میں قیام کرنا نہ چاہتے ہوں تو گاڑی رکھ کر آنے جانے کے لیے نظم کرکے ان کو بھی اس میں شریک کیاجائے اور اس کے لیے ان سے معقول فیس بھی لی جائے ، دوران تعلیم کسی دن ان کو تفریحی پرگراموں کے نام سے قریبی تاریخی مقامات پر بھی لے جایاجائے ، اس طرح ان کی نفسیات سے ہم آہنگ رہ کرکے ان کی تربیت بھی بآسانی کی جاسکتی ہے
* جدید وسائل اور ترقیات نے ہماری نئی نسل کا وقت گھرسے باہر ضائع کرنے کے بجائے گھروں میں ہی رہ کر انٹرنیٹ اورواٹس آپ وغیرہ سے وابستہ رہ کر ان کو اس سے زیادہ نقصان پہنچانا کرنا شروع کردیا ہے ،آج اپنے گھر یا مدرسہ میں ہی رہ کر اور کہیں جائے بغیر ہی انٹرنیٹ کے ذریعہ آپ دوسرے شہر میں موجود طلباء کو قرآن وحدیث وغیرہ کی تعلیم سے آراستہ کرسکتے ہیں،اس میں اساتذہ وطلباء گویابالکل آمنے سامنے ہوتے ہیں،مختلف علاقوں میں موجود اچھے علماء ومدرسین سے آپ اپنے بچوں کو قرآن وحدیث اور فقہ وسیرت کی تعلیم کے لیے روزانہ ایک وقت مقرر کرکے اس نظام سے وابستہ کریں ، یہ نظام یوروپی ومغربی ممالک میں تو بڑے پیمانہ پر جاری ہے لیکن ہمارے ملک میں محدود پیمانہ ہی پر چل رہاہے ، اس کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے
* اوپن اسلامک کورسس اور آن لائن دینی تعلیم کے کورسس بھی شروع کئے جائیں اور اس کے ماہانہ ٹسٹ اور سہ ماہی ،ششماہی اور سالانہ امتحانات کا نظم کیاجائے اور اس کے لیے طلباء کی نفسیات کو دیکھتے ہوئے پرکشش ترغیبی انعامات وغیرہ کا بھی نظم کیاجائے،الحمدللہ بھٹکل میں مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی کے تحت آج سے15سال پہلے اس کا محدود پیمانہ پر تجربہ کیا گیاتھااور شہر کے صرف تین سو طلباء سے اس کی ابتداکی گئی تھی ، الحمدللہ امسال ۱۳/جنوری ۲۰۱۵ء کو ملکی سطح پرمنعقدہونے والے ان امتحانات میں پورے ملک سے ایک لاکھ سے زائد طلباء نے شرکت کی اور الحمدللہ ملک سے باہربھی کئی ملکوں تک یہ نظام وسیع ہوگیا ہے ، اس میں الحمدللہ ہر سال10/12ہزار طلباء کا اضافہ ہورہاہے ،اس میں امتیازی نمبرات سے کامیاب طلباء کو گولڈ میڈل ،سلورمیڈل سر ٹیفکیٹ وغیر ہ دئیے جاتے ہیں۔
غرض یہ کہ ان ناگزیر حالات میں پوری ملت کو اس وقت فوری طور پر جنگی پیمانہ پر اس اہم ترین فکری ارتدادکے مسئلہ کی روک تھام پر توجہ دیناناگزیر ہے اور عالمی سطح پر بالعموم اور ملکی سطح پر بالخصوص امت کے علماء ودانشوران اور اصحاب فکرکا سرجوڑکر بیٹھنا فرض کفایہ ہی نہیں فرض عین ہوگیا ہے ، اگر ہم نے مسئلہ کی نزاکت وسنگینی،اس کی شدت اور مستقبل قریب میں اس کے امت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کا اندازہ نہیں لگایا اور اپنی عدم بصیرت وفراست کا ثبوت دیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور قدرت الہی کی طرف سے خطرہ ہے کہ اپنے اس دعوتی فرض منصبی کو ادانہ کرنے کی وجہ سے توحید خالص کی اس عظیم نعمت کی حامل ہماری قوم کے بجائے کسی اور موجودہ قو م کو اس نعمت سے سرفراز کرکے عالمی سطح پرانسانیت کی قیادت اسلام کے حوالہ سے ان کی طرف منتقل ہوجائے اورہم منھ دیکھتے رہ جائیں۔
مسئلہ اتنااہم ہے کہ عالم اسلام کے نہ صرف تمام تعلیمی ،علمی و ادبی اور سماجی بلکہ دینی ادارے بھی اپنے تمام کام اور سرگرمیوں کو کچھ دنوں کے لیے موقوف کرکے صرف اسی ایک اہم ترین مسئلہ پر توجہ دیں تب بھی یہ کوئی غلط فیصلہ نہیں ماناجائے گا،ورنہ بقول شخصے
لمحوں نے خطاکی تھی صدیوں نے سزاپائی کے مصداق ہوں گے۔
جواب دیں