سفرنامہ جنوبی افریقہ 2
محمد سمعان خلیفہ ندوی
– [ ] مدینے سے عدیس ابابا کی مسافت تقریبا تین گھنٹے کی تھی، ایئر کرافٹ بوئنگ 737 کے ذریعے یہ سفر ہوا اور اپنے متعین وقت سے نصف گھنٹے قبل ہی عدیس ابابا میں جہاز اترا، ایک آدھ سیاہ فام افراد کے علاوہ تقریبا سبھی ہند نژاد افریقی ممالک میں آباد مسافر تھے جو عمرے کے سفر سے واپس ہورہے تھے، سر پر عمامہ، چہرے داڑھی سے معمور اور آنکھوں میں یقیں کا نور تھا، ایک قلبی مسرت اور اگلے سفر کی آسانی اور کامیابی کے لیے فال نیک۔ عدیس ابابا ایئرپورٹ پر دو طرح کی دشواریوں سے واسطہ پڑا، ایک تو مسافروں کا ہجوم اس قدر تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی، پل بھر کے لیے ایسا محسوس ہوا کہ گویا ایئرپورٹ نہ ہو ممبئی کا کوئی لوکل ریلوے اسٹیشن ہو، دوسری دقت بیت الخلا میں پانی کی عدم دست یابی، گزشتہ اسفار کی بنیاد پر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے تھی مگر پتہ نہیں کس طرح ذہن سے نکل گئی، سفر چین میں بھی یہ مشکل پیش آئی تھی، ہم جیسے ہندوستانیوں کے لیے پانی کے بغیر استنجے کا تصور ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے، ایسے موقع پر ایک عدد خالی بوتل رختِ سفر میں شامل رہے تو سہولت ہوتی ہے۔
– [ ] بہر حال دو گھنٹے بعد اگلی منزل کے لیے روانہ ہونا تھا، اس لیے کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد بورڈنگ گیٹ پر پہنچ گئے، کئی دنوں سے مناسب نیند نہ ہونے کی وجہ سے آنکھیں بے قابو ہوئی جارہی تھیں، بس جہاز پر بیٹھ گئے اور فوراً نیند کی آغوش میں چلے گئے، یہاں سے تقریبا ساڑھے پانچ گھنٹے کی مسافت تھی، اس دوران میں ایتھوپین ایئرلائن کی میزبانی خوب رہی، پہلے مختلف جوس پھر سی فوڈ کے طور پر مچھلی کی ضیافت نے خاص طور پر متاثر کیا۔ ایئر بس 350 کی وجہ سے ایئر ٹربولنس کے ہچکولے بھی زیادہ محسوس نہیں ہوئے، بالآخر جوہانسبرگ ایئرپورٹ پر دوپہر ایک بجے ہم اترے۔
– [ ] ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی ممبئی سے نیروبی کے راستے کینیا ایئرویز پر روانہ ہوئے، انھیں ممبئی ایئرپورٹ پر دشواری کا سامنا کرنا پڑا، آج کل سفر کے لیے ایئرلائن کی مختلف کمپنیوں کی طرف سے نئے نئے قوانین لاگو کیے جارہے ہیں جن میں کچھ تو غیر ضروری بھی ہوتے ہیں، ڈاکٹر صاحب کے پاس واپسی کا ٹکٹ موجود تھا مگر کینیا ایئرویز سے نہیں تھا، قطر ایئرویز سے تھا اس لیے کینیا ایئرلائن کی طرف سے بورڈنگ کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔ کسی طرح کینیا ایئرویز کا ٹکٹ بنوانے کے بعد انھیں بورڈنگ پاس ملا۔
– [ ] دوپہر ساڑھے تین بجے ان کو جوہانسبرگ پہنچنا تھا اور مجھے ان کا انتظار کرنا تھا، لیکن کسے پتہ تھا کہ یہاں جوہانسبرگ ایئرپورٹ پر انتظار کے لیے دو ڈھائی گھنٹوں کے بجائے دو چار منٹ ہی میرے لیے درکار ہوں گے اور اس کے بدلے مجھے ایک آزمائش سے گزرنا ہوگا۔
جیسے ہی میں ایمیگریشن کاؤنٹر پہنچا ایمیگریشن آفیسر ایک خاتون تھیں جس نے مجھ سے انگریزی میں کوئی سوال کیا اور چوں کہ لب ولہجہ کچھ مختلف سا تھا اس لیے پہلے مرحلے میں سر کے اوپر سے گزر گیا، اسے پتہ نہیں کیا محسوس ہوا کہ اس نے مجھے داخلے کی اجازت دینے سے انکار کردیا، میں نے اپنے میزبان سے فون پر بات کرائی تب بھی اس نے ماننے سے انکار کیا اور ایک ہی ضد پر اڑی رہی کہ میرا انٹرویو لے گی اور اگر میں کامیاب ہوا تو ٹھیک ورنہ مجھے واپس ہندستان بھیج دے گی۔ اب میں نے زیادہ بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اس کے پیچھے پیچھے ایمیگریشن کے مین آفس پہنچنے ہی میں عافیت سمجھی، دل میں دعا جاری رکھی مگر چہرے پر کوئی خوف طاری نہ ہونے دیا، دل میں ابھی اطمینان سا تھا، اس لیے کہ ڈرنے کی کوئی بات بھی نہیں تھی اور ویزہ بھی پاسپورٹ پر درج تھا۔ بس ایک ذہنی خلجان سا تھا جو ایک فطری بات تھی۔
اس دوران میں کوشش بھی کی کہ ذمے دار افسران سے بات کروں مگر وہ مصروف رہے یا اپنے کو مصروف دکھاتے رہے، یا ممکن ہے کہ وہ میری حرکات وسکنات کا مشاہدہ کرتے رہے ہوں۔ کبھی پوچھنے پر یہ جواب ملتا کہ آپ کے ویزے کی تحقیق کی جائے گی کہ یہ اصلی ہے یا جعلی، کبھی کہا جاتا کہ آپ ابھی انتظار کریں، تقریباً ڈھائی گھنٹے کے بعد آواز دی گئی اور پوچھا گیا کہ آپ کو کیوں روکا گیا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ وہ تو آپ ہی جانتے ہیں، پھر کچھ بنیادی سوالات مثلاً آپ کیوں آئے ہیں اور کس سے ملنا چاہتے ہیں؟ جنوبی افریقہ ہی کو کیوں منتخب کیا ہے؟ وغیرہ سوالات کیے اور میں اطمینان سے جواب دیتا رہا پھر خود ہی کہا کہ آپ کو کس نے روکا ہے؟ بلا وجہ آپ کو روکا ہے۔ اس کے بعد اس ذمے دار آفیسر نے کاؤنٹر پر پہنچ کر مہر لگوائی اور مجھے باہر جانے کی بہ خوشی اور بہ صد خلوص اجازت دی۔
(سخنؔ حجازی۔ جوہانسبرگ O. R. Tambo ایئرپورٹ۔ 6 اکتوبر 2024)