سفر حج اور سفر آخرت

امام غزالی ؒ

اے دوست! خانہ کعبہ خداے عزوجل کا گھر ہے، یہ زمین و آسمان کے بادشاہ کا دربار ہے۔ تم اس کے دربارِ شاہی میں جا رہے ہو، گویا اسی کی زیارت کو جا رہے ہو۔ بے شک اس دنیا میں تمہاری آنکھ دیدارِ الٰہی کی استعداد نہیں رکھتی۔ لیکن بیت اللہ کا قصد کرنے سے، اس گھر کی زیارت کرنے سے، اُسی کے وعدے کے بموجب، تمہیں آخرت میں رب البیت کا دیدار نصیب ہوسکتا ہے۔ حج کا یہ سفر بالکل آخرت کے اس سفر کی طرح ہے جس کے بعد اس کا دیدار ہوگا۔ دیکھو! آج کا یہ سفر ضائع نہ ہو تاکہ آخرت میں مقصود، زیارت، یعنی دیدارِ الٰہی، ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ ہر گام سفرِ آخرت کو یاد رکھو، آخرت کی تیاری کرو، تب ہی مقصودِ سفر حاصل ہوگا۔
اے دوست! یاد رکھو، اس سفر کی اصل سواری شوق کی سواری ہے۔ جتنی شوق کی آگ تیز ہوگی، اتنی ہی مقصد تک رسائی یقینی ہوگی۔ اللہ سے خوب محبت کرو۔ جس دل میں اللہ سے محبت ہوگی، اس دل میں دیدارِ کعبہ کا شوق بھڑک اُٹھے گا کہ وہ محبوب کے دیدار کا وسیلہ ہے۔ محبوب سے جس چیز کو بھی نسبت ہو جائے، محبت کرنے والے کو وہ چیز جان و دل سے محبوب ہوجاتی ہے___ اس کا شہر، اس کی گلی، اس کا گھر، اس کا در۔ کعبہ کو اللہ تعالیٰ نے ’میرا گھر‘ کہا ہے، اگرچہ وہ اس سے پاک ہے کہ کسی گھر میں رہے۔ جب محبوبِ لامکان نے ایک مکان کو اپنا گھر بنا لیا ہے، تو کُوے یار تک پہنچنے کے لیے شوق سے بے تاب دل کی رفاقت سب سے بڑھ کر حصولِ مقصد کی ضامن ہے۔
تم اگر خانہ کعبہ کے مشتاق اس لیے ہو کہ وہ اللہ کا گھر ہے، تو صرف اسی نسبت سے اس کا سفر کرو۔ گویا اپنی نیت اور ارادہ صرف اللہ کے لیے خالص کرلو۔ خوب یاد رکھو کہ بجز خالص کے کوئی ارادہ اور کوئی عمل اس کے ہاں قبول نہیں۔ پس خاص طور پر، جس بات میں ریا ہو اور شہرت کی تلاش ہو، اس کو ترک کر دو۔ اس سے بُری بات کیا ہوسکتی ہے کہ سفر تو بادشاہ سے ملاقات کے لیے ہو، اور مقصود اس کے علاوہ کچھ اور ہو۔ دل میں بیت اللہ اور رب البیت کا مقام پہچانو گے، اور یاد رکھو گے تو پھر ارادہ اس سے کسی کم تر چیز کا نہ کرو گے۔
سفرِ حج بھی، ہر سفر کی طرح، ترکِ علائق سے شروع ہوتا ہے۔ گھر چھوڑتے ہو، گھر والے چھوڑتے ہو، مال و تجارت ترک کرتے ہو، وطن سے جدا ہوتے ہو، مگر اس سفر میں کامیابی کے لیے سب سے پہلے ان حقوق سے تعلق منقطع کرو جو دوسروں کے اپنے ہاتھوں میں دبا رکھے ہیں، اور ایسے سارے حقوق حق داروں کو واپس کر دو۔ یاد رکھو، ذرہ برابر ظلم بھی اگر کسی پر کیا ہے تو وہ تمہارا قرض خواہ ہے۔ وہ تمہارا گریبان پکڑ کر کہتا ہے، تم کہاں جاتے ہو، شرم نہیں آتی کہ جاتے ہو شہنشاہ کے گھر، اور اپنے گھر میں اس کے حکم کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ اس کی تعمیل کرو، ڈرتے نہیں کہ اتنے گناہوں کے ساتھ کہیں وہ تمہیں واپس نہ کردے۔ اس لیے اگر اپنی زیارت کی قبولیت چاہتے ہو، تو خالص توبہ کر کے ہر گناہ سے تعلق توڑ لو، حقوق جو ظلم سے لیے ہیں واپس کر دو، اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں لگ جاو۔
اپنے دل کا علاقہ ماسوا اللہ سے بھی منقطع کرلو، اور جس طرح اپنے سفر کا رُخ اس کے گھر کی طرف کرلیا ہے، اپنے دل کا رُخ بھی اسی کی طرف کرلو۔ وطن سے تعلق اس طرح منقطع کرلو جیسے پھر لوٹ کر نہ آو گے، اہل و عیال کے لیے وصیت لکھ کر جاو۔ سفر کا سامان کرتے ہو، تو اتنا خرچ ساتھ لینے کا اہتمام کرتے ہو کہ کسی جگہ کمی نہ پڑے۔ یاد رکھو کہ آخرت کا سفر اس سفر کی بہ نسبت کہیں زیادہ طویل اور کٹھن ہے، اور اس سفر کا سامان تقویٰ ہے۔ تقویٰ کے علاوہ ہر مال و اسباب دغا دے گا، اور موت کے وقت پیچھے رہ جائے گا۔ اس فکر اور کوشش میں رہو کہ اعمالِ حج میں ایسی آمیزش یا نقص نہ آجائے کہ وہ موت کے بعد تمہارا ساتھ نہ دیں، اور اس سفر سے تم سفرِ آخرت کے لیے تقویٰ کا زادِ راہ زیادہ سے زیادہ جمع کرلو۔
اے دوست! اہل و عیال اور مال و اسباب سے رخصت ہوکر جب سواری پر سوار ہو، تو اللہ کا شکر ادا کرو جس نے خشکی پر، پانی میں، ہوا میں، ہر قسم کی سواری کو تمہارے لیے مسخر کردیا۔ حج کی سواری پر نظر پڑے تو اپنے جنازے کو نگاہوں کے سامنے رکھو، جس پر سوار ہوکر ایک روز آخرت کی طرف کوچ کرنا ہوگا۔ آج حج کی سواری پر سفر اس طرح کرو کہ جنازے پر سفر کرنا آسان ہو۔ کیا معلوم کہ موت، سفرِ حج سے بھی زیادہ قریب ہو۔
اے دوست! احرام کے لیے چادریں خریدو، تو وہ دن یاد کرو جب تم کفن کی دو بے سلی چادروں میں لپیٹے جاو گے۔ ہوسکتا ہے کہ حج کا سفر پورا نہ ہو اور راستے ہی میں موت آجائے، مگر کفن میں لپٹ کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات تو یقینی ہے۔ جس طرح اللہ کے گھر کی زیارت روزمرہ کا لباس اُتار کر اس سے مخالف لباس پہنے بغیر نہیں ہوسکتی، اللہ کی زیارت بھی اس کے بغیر نہ ہوگی کہ دنیا کو اُتار کر اس سے مخالف لباس میں ملبوس ہوجاو۔
اے دوست! شہر سے نکلتے ہو تو اہل و عیال اور وطن سے جدا ہو کر ایسے سفر پر جاتے ہو جو دنیا کے اور سفروں سے کوئی مشابہت نہیں رکھتا۔ سوچنا چاہیے کہ میرا مقصد کیا ہے، میں کہاں جا رہا ہوں اور کس کی زیارت مطلوب ہے۔ اچھی طرح یاد رکھو کہ اس سفر سے تمہارا مقصود اللہ تعالیٰ ہے، اسی کے گھر جا رہے ہو، اسی کی پکار پر، اسی کے شوق دلانے سے، اسی کے حکم سے، سارے تعلقات ترک کر کے، اُس گھر کی طرف جا رہے ہو جس کی شان انتہائی عظیم ہے، جس کی زیارت کے وسیلے خود صاحب گھر کی زیارت تمہیں نصیب ہوگی۔ مگر امید اپنے اعمال سے نہ رکھو، بھروسا صرف اللہ تعالیٰ کے فضل پر رکھو_ وہ میرے ساتھ ہوگا، میری مدد کرے گا، میری دست گیری و رہنمائی کرے گا، مجھے منزلِ مراد تک پہنچائے گا_ یہ کرم اس کا کیا کم ہے کہ اس سفر سے اگر تم خانہ کعبہ نہ بھی پہنچ سکو، اور راستے ہی میں موت آجائے، تو بھی اس سے ملاقات اس حال میں ہوگی کہ تم اس کی طرف سفر میں ہو۔ پھر اس کے سارے وعدے پورے ہوں گے۔ کیا اس نے وعدہ نہیں فرمایا ہے:
وَ مَنْ یَّخْرُجْ مِنْم بَیْتِہٖ مُھَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ (النساء:100) اور جو اپنے گھر سے اللہ اور رسولؐ کی طرف ہجرت کے لیے نکلے، پھر راستے ہی میں اسے موت آجائے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے واجب ہوگیا۔
شہر سے نکل کر میقات تک سفر کرو تو موت کے بعد جسم سے نکل کر میقاتِ قیامت تک کے سفر کے احوال یاد کرو۔ قبر کی تنہائی، اور عذاب، آگے کے اندیشے اور خطرات، منکر نکیر کے سوالات!
اے دوست! میقات پر لبیک کہو، تو دل خوف و اُمید سے لرز جائے۔ یہ ربِ کائنات کی پکار ہے جس پر تم کہہ رہے ہو کہ میں حاضر ہوں۔ کہیں یہ نہ کہہ دیا جائے کہ لا لبیک ولا سعدیک، نہ تم خدمت کے لیے حاضر ہو، نہ ہمارے لیے مستعد۔ ابوسلیمان دارانی کہتے ہیں کہ میں نے سنا ہے کہ جو شخص ناجائز مال رکھتے ہوئے حج کرتا ہے اس سے کہا جاتا ہے کہ ’’نہ تیرا لبیک معتبر ہے نہ سعدیک، جب تک تو وہ چیز نہ واپس کردے جو دوسروں کی تیرے قبضے میں ہے‘‘۔ مگر انتہائی خوف کے ساتھ، پوری اُمید رکھو کہ وہ جواب قبول فرمائے گا۔ اپنے عمل اور طاقت پر نہ جاو، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر تکیہ رکھو۔
اللہ تعالیٰ کی پکار پر لبیک کہو تو وہ وقت بھی یاد رکھو جب صور پھونکا جائے گا اور لوگ اُٹھ کر میدانِ قیامت میں جمع ہوجائیں گے۔ سوچو کہ میں کس صف میں جاوں گا اور میرا نامۂ اعمال کس ہاتھ میں دیا جائے گا؟ مقربین میں؟ اصحاب الیمین میں؟ یا اصحاب الشمال میں؟
اے دوست! جو حرم میں داخل ہوجاتا ہے، مامون ہوجاتا ہے۔ مکہ میں داخل ہو تو اللہ تعالیٰ کے غضب اور آگ کو یاد کرو، اور اس سے پوری اُمید رکھو کہ وہ تمہیں اپنے غضب اور اپنی آگ سے بھی مامون رکھے گا۔ یہ خلش بھی دل میں رہے کہ میں اس قُرب کا اہل نہ ہوا تو کہیں مستحقِ غضب نہ ٹھیروں۔ مگر رحمن کے گھر تک پہنچ جانے کے بعد، اس کا مہمان بن جانے کے بعد، اس کے جوار میں بسیرا کرلینے کے بعد، چاہیے کہ ہر جگہ اُمید، خوف پر غالب رہے۔ اس کا کرم عام ہے، اور خانہ کعبہ کے شرف و عظمت کی رعایت سے آنے والے کا اکرام ہوتا ہے،اور پناہ مانگنے والے کی حرمت تلف نہیں کی جاتی۔
اے دوست! ایسا نہ ہو کہ خانہ کعبہ پر نظر پڑے، اور نگاہِ دل عظمتِ کعبہ پر نہ ہو۔ جو ’البیت‘ کو دیکھتا ہے، وہ یہ جانے کہ گویا ’رب البیت‘ کو دیکھتا ہے۔ اس کی تجلی سے ہوش و حواش ٹوٹ پھوٹ جائیں تو بھی کم ہے۔ شکر کرے کہ اس نے اس مقام تک پہنچایا، اس وقت کو یاد کرے جب چہرے اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ کی نعمت سے شادکام ہوں گے، اور امید رکھے کہ آج جس طرح اس کا گھر سامنے ہے کل اسی طرح وہ خود نگاہوں میں ہوگا۔
اے دوست! طواف کا قصد کرو، تو دل ذوق و شوق، خوف و رجا، محبت و تعظیم سے بھرا ہوا ہو۔ یہ خیال نہ کرنا کہ طواف کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جسم بیت اللہ کا طواف کرے۔ نہیں، طواف کا برتر و اعلیٰ مقصد یہ ہے کہ دل رب البیت کا طواف کرے، یاد کا مرکز وہی بن جائے۔ خانہ کعبہ عالمِ ظاہر میں دربارِ الٰہی کا نمونہ ہے۔ ان فرشتوں کی طرح طواف کرو جو عرش کا طواف کرتے ہیں۔
حجرِ اسود کو بوسہ دو تو یہ جانو کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر اطاعت و فرماں برداری کی بیعت کررہے ہو۔ حجرِ اسود، جیسا کہ نبی کریم (ﷺ ) نے فرمایا: اللہ کا داہنا ہاتھ زمین پر ہے، جس سے وہ اپنے بندوں سے اس طرح مصافحہ کرتا ہے جس طرح ایک آدمی اپنے بھائی سے مصافحہ کرتا ہے (مسلم)۔ یہ تمہاری خوش قسمتی ہے کہ یہاں پہنچ گئے، اب اللہ سے وفاے عہد کے عہد کو پختہ تر کرلو، اور بے وفائی سے بچنے اور اس کے غضب سے ڈرتے رہنے کا عزم تازہ کرلو۔
اب خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ لو، گویا کہ اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑ رہے ہو۔ ملتزم سے چمٹ جاو، گویا کہ اس سے قریب ہوگئے۔ درِ یار پر سر رکھ دو، جیسے کوئی خطاکار دامن پکڑتا ہے، معافی کے لیے عاجزی کرتاہے۔ یہ وقت اور مقام الحاح و زاری، توبہ واستغفار، ندامت و شوق اور رجا و خوف کا وقت اور مقام ہے۔
رو رو کر عرض کرو کہ ’’آپ کا دامن چھوڑ کر کہاں جاوں، کس کے آگے ہاتھ پھیلاوں، کس کے قدم پکڑ لوں؟ میرا ملجا و ماویٰ آپ کے سوا کوئی نہیں۔ آپ کے کرم و عفو کے سوا میرا ٹھکانہ کوئی نہیں۔ آپ کا دامن نہ چھوڑوں گا، آپ کے دَر سے نہ ہٹوں گا، جب تک آپ میری خطاوں کو معاف نہ فرمائیں، اور آئندہ امن میں نہ رکھیں۔ آپ کریم ہیں، درِ کریم پر آیا ہوں، بصد عجز و نیاز آیا ہوں، بصد اُمید آیا ہوں، اگر آپ دامنِ عفو میں پناہ نہ دیں تو کہاں جاوں، کیا کروں‘‘۔
اے دوست! صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرو، تو ایک خطا کار، عاجز، ذلیل، مسکین و درماندہ غلام کی طرح جو بادشاہی محل کے صحن میں چکر لگائے۔ کبھی خلوص کا اظہار کرو شاید کہ بادشاہ نظرِ رحمت سے سرفراز کرے، کبھی اندیشے سے غم ناک ہو کہ نہ معلوم بادشاہ قبول کرے یا نہ کرے اور میرے بارے میں کیا حکم کرے۔ بار بار آو اور جاو کہ اوّل دفعہ میں رحم نہ کرے، تو دوسری دفعہ میں کردے۔ یہ بھی خیال کرو کہ میزان کے دونوں پلڑوں کے درمیان بھی اسی طرح پھرنا ہوگا، ایک پلڑے میں نیکیاں اور دوسرے میں خطائیں ہوں گی۔ نہ معلوم کون سا جھک جائے، اسی اُمید و بیم میں صفا اور مروہ کے درمیان چلتے رہو۔
اے دوست! عرفات کے میدان میں قدم رکھو تو میدانِ قیامت کا منظر یاد کرو۔ یہاں، لوگوں کا ازدہام، آوازوں کا بلند ہونا، زبانوں کا اختلاف، رنگوں کا اختلاف۔ وہاں قیامت کے دن اوّل و آخرسب جمع ہوں گے، سب سے پوچھ گچھ ہوگی، سب کے چہروں کے رنگ مختلف ہوں گے، سب اپنے اپنے اعمال کے مطابق گروہوں میں منقسم ہوجائیں گے۔ یاد رکھو یہ وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ ان رحمتوں کو ان صالحین کے قلوب جذب کرلیتے ہیں جو ایک وقت میں ایک جگہ جمع ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور میں سجدہ ریز ہوتے ہیں، ذلت و مسکنت کے ساتھ گڑگڑاتے ہیں، اس کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ رحمتِ الٰہی کے نزول کے لیے کوئی طریقہ اس کے برابر نہیں کہ صالحین کی ہمتیں مجتمع ہو جائیں اور ایک وقت میں ایک زمین پر صالحین کے قلوب ایک دوسرے کی مدد کریں۔ یہ گمان نہ کرنا کہ ان کی اُمیدیں پوری نہ ہوں گی، یہ محروم رہیں گے اور ان کی کوششیں بے کار جائیں گی۔ نہیں، ان پر وہ رحمت نازل ہوگی جو سب کو ڈھانپ لے گی۔ یہ وہ مقام ہے کہ قبولیت کی اُمید کامل ہی قبولیت کی نشانی ہے۔ بس ٹوٹ کر گریہ وزاری کرو، اور حق تعالیٰ سے مانگو:
اے اللہ! آپ میری بات سنتے ہیں، میرا مقام دیکھتے ہیں، میرے کھلے چھپے سب کو جانتے ہیں، میرا کوئی حال، کوئی معاملہ، کوئی ضرورت آپ سے پوشیدہ نہیں۔ میں انتہائی مصیبت زدہ اور بالکل فقیر ہوں، میں آپ سے فریاد کرتا ہوں اور پناہ طلب کرتا ہوں، کانپتا ہوں اور ڈرتا ہوں، آپ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کا اقرار اور اعتراف کرتا ہوں۔ میرا سوال ایک مسکین کا سوال ہے، گڑگڑا رہا ہوں کہ سخت ذلیل گناہگار ہوں، آپ کو پکار رہا ہوں کہ ڈر کا مارا اور نقصان زدہ ہوں۔ میری گردن آپ کے آگے جھکی ہوئی ہے، جسم آپ کے سامنے ذلیل و رسوا ہے، ناک آپ کے سامنے خاک آلود ہے، اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ ایسا نہ کیجیے کہ آپ سے مانگنے کے بعد میں بدبخت رہوں، مجھ کو اپنی رحمت و شفقت سے ڈھانپ لیجیے۔ اے سب سے بہتر جس سے مانگنے والا مانگے، اے سب سے بہتر عطا کرنے والے!
میرے اللہ! میں نے جانتے بوجھتے آپ کی اطاعت سے رُوگردانی کی، اور نافرمانیاں کرتا رہا۔ آپ پاک ہیں، آپ کی حجت تو میرے خلاف بہت بڑی ہے، مگر آپ کا مجھے معاف کرنا کتنا بڑا کرم ہے۔ پس اس حال میں کہ آپ کی حجت میرے خلاف ثابت ہے اور میرے پاس آپ کے سامنے کوئی حجت نہیں، میں سراسر آپ کا محتاج ہوں اور آپ مجھ سے بے نیاز، آپ مجھے معاف ہی فرما دیجیے۔ اے سب سے بہتر جس سے مانگنے والا مانگے اور سب سے افضل جس سے اُمید باندھنے والا اُمید باندھے، اسلام کی حرمت اور محمد (ﷺ) کا وسیلہ تیرے سامنے پیش کرتا ہوں۔ میرے سارے گناہ بخش دیجیے، اور میری ساری حاجتیں پوری کرکے مجھے اس موقف سے واپس بھیجے، جو کچھ میں نے مانگاہے مجھے دے دیجیے اور جس چیز کی تمنا کی ہے اس میں میری توقع پوری کیجیے۔
میرے اللہ، کوئی تیرے سامنے اپنی تعریف کیا کرے، میں تو اپنے کو ملامت کرتا ہوں! الٰہی، گناہوں نے میری زبان گونگی کردی، میرے پاس اپنے عمل کا وسیلہ بھی نہیں، اُمید کے سوا اور کوئی سفارش کرنے والا نہیں! الٰہی، مجھے معلوم ہے کہ میرے گناہوں نے تیرے نزدیک میری کچھ قدر باقی نہ رکھی، نہ میرا منہ ہے کہ کوئی عذر پیش کروں، لیکن تو تمام کرم کرنے والوں سے زیادہ کریم ہے! الٰہی، اگرچہ میں اس قابل نہیں کہ تیری رحمت تک پہنچوں، مگر تیری رحمت کے تو شایان ہے کہ مجھ تک پہنچے! الٰہی، تیری رحمت ہرچیز کو شامل ہے، اور میں بھی ایک چیز ہوں! اگرچہ میرے گناہ بہت بڑے ہیں، لیکن تیرے عفو کے مقابلے میں تو بہت چھوٹے ہیں! میرے گناہوں سے درگزر کر، اے کریم!
اے اللہ! تو، تو ہے، اور میں، میں۔ میں بار بار گناہوں کی طرف پلٹتا ہوں، تو بار بار مغفرت کی طرف۔ میرے اللہ! اگر تو اپنے اطاعت کرنے والوں ہی پر رحم کرے، تو گناہ گار کس کی طرف جائیں گے۔
اے دوست! کنکریاں مارنے میں نہ تو نفس کو کوئی مزہ ہے نہ عقل کو۔ اپنے نفس کو اور اپنی عقل کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سر نگوں کر دو۔ غلامی اور بندگی میں نفس و عقل کے لیے لذت بس تعمیلِ ارشاد میں ہوتی ہے۔ تعمیلِ ارشاد ہی سے دل میں اللہ کی یاد قائم ہوتی ہے۔ اقامتِ ذکر اللہ ہی کے لیے طواف ہے، سعی ہے، رمی جمار ہے (ابوداؤد، ترمذی بروایت عائشہؓ)
قربانی بھی اطاعت امر کا اظہار ہے ، اسی لیے باعث تقرب ہے۔ اللہ سے اُمید رکھو کہ قربانی کے ہر جز کے بدلے تمہارے ہر جز کو آگ سے آزاد کردے گا۔
پس اے دوست! سنو! حج کے ہر قدم پر سفرِ آخرت کو یاد کرو، اور اس سفر کے لیے زادِ راہ جمع کرو، تاکہ کل تم ربِ کعبہ کے انعامات سے سرفراز ہو، اور اس کی زیارت سے شادکام!
(احیاء العلوم، جلد اول سے ماخوذ)

«
»

آزادی کے 75 سال: جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار… شاہد صدیقی (علیگ)

حج کی ادائیگی __ لمحہ بلمحہ دم بدم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے