رحمت عالم ﷺ اس مقدس مہینہ میں صدقہ و خیرات کثرت سے کیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کا بیان ہے: نبی کریم لوگوں میں سب سے زیادہ سخی ہوتے تھے اور آپ ﷺ سب سے زیادہ صدقہ و خیرات رمضان المبارک میں کیا کرتے تھے۔ جب حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ سے رمضان المبارک کی ہر رات میں ملتے اور دوران ملاقات نبی کریم ﷺ انھیں قرآن مجید سناتے اور آپ ﷺ تیز ہوا سے بھی سبقت کے ساتھ صدقہ و خیرات کرتے۔(شعب الایمان)
فوائدِ صدقات:ارشاد باری تعالیٰ ہے: یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰت 0(ترجمہ: اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے صدقہ و خیرات کو(سورہ البقرہ ،آیت۲۷۵)احادیث میں صدقات کی بہت فضیلتیں آئی ہیں۔ چند ملاحظہ فرمائیں۔(۱) ابو بکر صدیق ص فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے : دوزخ سے بچو اگرچہ آدھا چھوارہ دے کر کہ وہ کجی کو سیدھا اور بری موت کو دور کرتا ہے۔ (۲)نبی کریم ﷺ نے فرمایا :بے شک مسلمان کا صدقہ عمر کو بڑھاتا ہے اور بری موت کو منع کرتاہے۔(۳) بے شک اللہ عزوجل صدقہ کے سبب سے ۷۰دروازے بری موت کے دفع فرماتا ہے۔(۴) صبح کے صدقے آفتوں کو دفع کردیتے ہیں۔(طبرانی،ابو یعلی، والبراز، رواہ الدیمی حضرت انس ص) ،جو مسلمان اپنے مال حلال سے صدقہ دیتا ہے ، اسے حق تعالیٰ اپنے دست شفقت و لطف سے اس طرح پرورش فرماتا ہے۔جیسے تم اپنے چو پایوں کی پرورش کرتے ہو یہاں تک کہ چند خرمے(چھوارہ) اُحد پہاڑ کے برابر ہو جاتے ہیں اور فرمایا کہ قیامت کے دن ہر ایک اپنے صدقے کے سایہ میں ہوگا جب تک حساب ہوکر حکم صادر ہوگا لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ صدقہ کون سا افضل ہے فرمایا :جو تندرستی میں دیا جائے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے دروازے سے سائل کو محروم پھیر دیتا ہے (یعنی کچھ نہیں دیتا) سات دن تک اس کے گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں جاتے(کشف القلوب جلد اول صفحہ 469باب صدقہ کی فضیلت)،رسول کریم ﷺ دو کام اوروں پر نہیں چھوڑتے تھے بلکہ اپنے ہی ہاتھوں سے کرتے تھے فقیر کو صدقہ اپنے ہی دست مبارک سے دیتے اور رات کو وضو کے لیے پانی برتن میں خود رکھتے تھے۔آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص مسلمان کو کپڑا پہنائے گا جب تک وہ کپڑا اس کے بدن پر رہے گا کپڑا دینے والا خدا کی حفاظت میں رہے گا۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک آدمی نے ستر (۷۰) برس عبادت کی پھر اس سے اتنا بڑا گناہ سرزد ہوا کہ وہ سب عبادت برباد اور رائگاں ہو گئی اس کا گزر ایک فقیر کی طرف سے ہوا اور اس نے فقیر کو ایک روٹی دی تو اللہ تعالیٰ نے اس کا وہ گناہ عظیم بخش دیا اور ستر برس کی عبادت اسے واپس کر دی۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی کہ بیٹا ! تجھ سے جب کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو صدقہ دینا اللہ نے قرآن کریم میں فرمایا لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّیٰ تُنْفِقُوْا مِمَّاتُحِبُّوْنَ ط ترجمہ: تم لو گ ہرگز نیکی کے مقام کو نہ پا سکوگے جب تک اس میں سے خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہے(القرآن ، سور ہ آل عمران،آیت نمبر ۹۲)۔
صدقہ فطر کا حکم:روزہ دار اگرچہ مجسم نیکی میں ہوتا ہے اس کے مادی جسم میں ملکوتی (فرشتوں جیسی)روح پیدا ہوتی رہتی ہے۔ وہ جھوٹ سے، بدگوئی سے، بد کلامی سے، ایذا رسانی سے، حق تلفی سے ، غرض کہ ہر طرح کی برائیوں سے دور رہتا ہے یا کم از کم دور رہنے کی کوشش کرتا ہے ۔ پھر بھی وہ بہر حال انسان ہی ہوتا ہے فرشتہ نہیں ہوتا۔ اس لئے ہزار کوششوں کے باوجود اس سے لغزشیں ہو ہی جاتی ہیں۔ زبان سے بے ہودہ باتیں نکل ہی جاتی ہیں اس لئے قدرتی طور پر روزوں کا بالکل بے داغ اور ہر نقص سے پاک رہنا ممکن نہیں۔ اللہ کے حبیب رسول اللہ ﷺ نے روزوں کو اس طرح کے داغ دھبوں سے پاک صاف اور مقبول رب العالمین بنانے کے لئے ایک خاص قسم کا صدقہ دینے کا حکم فرمایا جس کو اصطلاح شریعت میں ’’صدقہ فطر‘‘ کہتے ہیں۔ احادیث میں ہے کہ عمرو بن شعیب ص سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ایک شخص کو بھیجا کہ مکہ کے کوچوں میں اعلان کردے کہ صدقہ فطر واجب ہے۔(ترمذی جلداول، صفحہ ۱۴۶،باب ماجاء فی صدقۃ الفطر) ابو داؤد،ابن ماجہ و حاکم ابن عباس رضی اللہ عنھما سے راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃ فطر مقرر فرمائی کہ لغو اور بیہودہ کلام سے روزہ کی طہارت ہوجائے اور مساکین کی خوردو نوش (کھانے پینے )کا انتظام ہوجائے۔(بہار شریعت جلد۵،صفحہ ۵۵)ایک حدیث میں ہے صَوْمُ شَہْرَ رَمَضَانَ مُعَلَّقُٗ بَیْنَ السَّمآءَ وَالْاَرْضِ وَلَا یَرْفَعُ اِلَّا بِزَکوٰۃِ الْفِطْر0(ترجمہ: رمضان کے روزے آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتے ہیں جب تلک صدقہ فطر ادا نہ کر دیا جائے آگے(بارگاہِ خداوندی )تک نہیں جاتے) (ترغیب) فَرَضَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ زَکوٰۃَ الفِطْرِ طَھَرَۃُ الِّلصَّاءِمِیْنَ الَّغْو وَالرَّفَثِ0(ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطرکو فرض کیا ہے تاکہ روزہ دار (کا روزہ) لغو اور فحش گوئی وغیرہ کے داغ دھبوں سے پاک و صاف ہوجائے(ابو داؤد ، ابن ماجہ)
(زکوٰۃ بمعنی ضروری واجب) ان احادیث سے صدقہ فطر کی اہمیت اور غایت (مطلب) دونوں چیزیں واضح ہو جاتی ہیں۔ اس کو نگاہ میں رکھنے کے بعد صدقہ فطر کی ادائیگی ہر روزہ دار مسلمان کی ایک ناگزیر فطری چیز بن جاتی ہے۔ مسئلہ: صدقہ فطر ادا کرنے کے لئے مال کا باقی رہنا شرط نہیں مال ہلاک ہونے کے بعد بھی صدقہ فطر واجب رہے گا ساقط نہیں ہوگا بخلاف زکوٰۃ و عشر کہ یہ دونوں مال ہلاک ہوجانے سے ساقط ہوجاتے ہیں(درمختار جلد۲ صفحہ ۱۱۰، بہار شریعت جلد ۵ صفحہ۵۶ باب صدقہ فطر کا بیان)
صدقہ فطر بہت ضروری ہے:صدقہ فطر کے واجب ہونے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ آدمی کے پاس زکوٰۃ کا نصاب ہو بلکہ جس طرح ایک مالدار کے لئے اس کا دینا ضروری ہے اسی طرح اس غریب کے لئے بھی ضروری ہے جس کے پاس عید کے دن اپنے اہل وعیال کی خوراک سے زائد اس قدر موجود ہو کہ ہر ایک کی طرف سے صدقہ فطر دے سکے ۔ مسئلہ: صدقہ فطر واجب ہونے کے لئے روزہ رکھنا شرط نہیں اگر کسی عذر شرعی ، سفر، مرض ، بوڑھا پے کی و جہ سے یا معاذ اللہ بلا عذر روزہ نہ رکھا جب بھی واجب ہے۔ (رد المختارجلد ۲صفحہ ۱۰۱، بہار شریعت جلد ۵صفحہ ۵۶ باب صدقہ فطر کا بیان) ان احادیث اور مسئلہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صدقہ فطر صرف ان ہی لوگوں پر فرض نہیں ہے جنھوں نے روزہ رکھا ہو یا نہیں ۔ نبی کریم نے صدقہ فطر کو طعمتہ للمساکین(مساکین کی خوراک) بھی فرمایا ہے۔ یعنی جس طرح صدقہ فطر کا ایک مقصد روزے دار کے روزوں کو پاک کرنا اور مقبول بنا دینا ہے اسی طرح عید کے دن غریبوں، مساکین کے لئے کھانے پینے کا بندوبست ہوجانا بھی ایک مصلحت اور مقصد ہے جس کا تقاضہ یہی ہے کہ صدقہ فطر دینے والوں کا دائرہ وسیع سے وسیع ہو صرف روزہ داروں تک ہی صدقہ فطر محدود نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا یہ امتیازی وصف ہے کہ وہ مساکین و فقراء سے محبت رکھتے ہیں اور ان کے لئے تواضع کرتے ہیں اور یوں حضور ﷺ کے اس قول پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔اے اللہ مجھے مسکین کی حالت میں رکھ اور مجھے مسکینی پر موت دے اور قیامت کے دن مساکین کے زمرے میں اٹھا۔(جامع ترمذی جلد ۲صفحہ ۵۸، کتاب الزہد حدیث نمبر۲۳۵۲)
اللہ کے رسول سب سے زیادہ فقراء ومساکین کی تواضع کرتے اور جب ان کے ساتھ بیٹھتے تو گھٹنے پر گھٹنا رکھ کر بیٹھتے اور محبت سے پیش آتے لہٰذا ہم کو آپ کو چاہئے کہ فقراء و مساکین کی خوراک کا انتظام کریں ۔ صدقہ فطر ضرور ادا کریں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما نے کہا :رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر اس لئے مقرر فرمایاتاکہ لغو اور بیہودہ کلام سے روزہ کی طہارت ہوجائے اور دوسری طرف مساکین کے لئے خوراک ہوجائے۔(ابو داؤدجلداول صفحہ۲۲۷، کتاب الزکوٰۃ ،مشکوٰۃ صفحہ ۱۶۰کتاب الزکوٰۃ)ہم سب کو چاہئے کہ صدقہ فطر عید سے پہلے ادا کریں ۔ عید کے دن گویا مزدوری ملنے کا دن ہے ۔ عید کے دن معاشرے کے پسماندہ اور محروم لوگوں کو اپنی خوشی میں شامل کرنا چاہئے تاکہ ان کی بھی عید ہوجائے ۔ اللہ ہم تمام مسلمانوں کو صدقہ فطر و زکوٰۃ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ اور روزوں کے فوائد سے مالا مال فرمائے آمین! ثم آمین!
جواب دیں